از:- عادل عفان
عام طور پر ہمسایہ ممالک کے درمیان بہت سے معاملات پر نزاع ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن ایران اور اسرائیل کے درمیان کوئی سرحدی معاملہ نہیں ہے۔ البتہ ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا سلسلہ طویل ہے، بلکہ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی سب سے پیچیدہ اور خطرناک دشمنیوں میں سے ایک ہے۔ کیوں کہ دونوں ممالک کے درمیان نظریاتی، سیاسی، عسکری اور سفارتی مخالفت کا معاملہ سنگین ہے۔ جس میں نیو کلیئر طاقت کا سوال نہ صرف ان کے بیچ کشیدگی کا مرکز ہے۔اس لیے اس پس منظر میں ہمیں ذرا پیچھے جاکر تاریخی صفحات الٹنا لازمی ہے۔
ایران کے نیو کلیئر پروگرام کا آغاز 1950 کی دہائی میں ہوا۔یہ معاملہ اس وقت تھا جب ایران امریکہ کے ساتھ ”Atoms for Peace“پروگرام کے تحت پرامن نیو کلیئر تحقیق میں شریک ہوا۔ لیکن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد یہ پروگرام تعطل بلکہ سرد مہری کا شکار ہو گیا۔ جب ایران نے 1990 کی دہائی میں یورینیم کی افزودگی اور نیو کلیئر تحقیق دوبارہ شروع کی تو مغرب، خاص طور پر اسرائیل، میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ایران کا دعویٰ رہا ہے کہ اس کا نیو کلیئر پروگرام بجلی پیدا کرنے، طبی مقاصد اور سائنسی ترقی کے لیے ہے، لیکن اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادیوں کو شبہ ہے کہ ایران خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔گویا یہ پہلو اسرائیل اور ایران کے درمیان نزاع کا باعث ہے۔
اسرائیل خود اگرچہ ایک غیر اعلانیہ نیو کلیئر طاقت ہے، لیکن وہ مشرقِ وسطیٰ میں واحد نیو کلیئر ملک بنے رہنے کا خواہاں ہے۔ ایران کی نیو کلیئر ترقی کو وہ اپنے قومی وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ ایران کی طرف سے اسرائیل کو غاصب ریاست کہنا، اسے نقشے سے مٹانے کے دعوے، اور حماس، حزب اللہ جیسے گروہوں کی حمایت اسرائیل کو اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ ایران نیو کلیئر طاقت بن کر صرف ایک علامتی خطرہ نہیں رہے گا، بلکہ حقیقی طور پر اسرائیلی سلامتی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔اسرائیل کے مطابق اگر ایران ایٹمی ہتھیار حاصل کر لیتا ہے تو خطے میں طاقت کا توازن اس کے خلاف ہو جائے گا۔ ایران کی حمایت یافتہ تنظیمیں جو پہلے ہی اسرائیل کے خلاف عسکری کارروائیوں میں ملوث ہیں، وہ اس نئی طاقت کے سائے میں مزید بے باک ہو جائیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو خدشہ ہے کہ ایران کے نیو کلیئر طاقت بننے کے بعد خطے کے دیگر ممالک، جیسے سعودی عرب، ترکی اور مصر، بھی ایٹمی دوڑ میں شامل ہو جائیں گے، اور یوں مشرقِ وسطیٰ ایک مستقل نیو کلیئر بحران کا گڑھ بن جائے گا۔
اسی خطرے کے پیشِ نظر 2015 میں ایران اور دنیا کی چھ بڑی طاقتوں کے درمیان جوائنٹ کمپریہنسیو پلان آف ایکشن (JCPOA) نامی معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنی نیو کلیئر سرگرمیوں کو محدود کرنے، یورینیم کی افزودگی کی مقدار کم کرنے، اور نیو کلیئر تنصیبات کو عالمی معائنہ کاروں کے لیے کھولنے پر آمادگی ظاہر کی۔ بدلے میں ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں نرم کر دی گئیں۔ یہ معاہدہ سفارتی سطح پر ایک بڑی کامیابی تصور کیا گیا، تاہم 2018 میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے یکطرفہ طور پر ختم کر دیا اور ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ اس فیصلے کے بعد ایران نے بھی معاہدے کی کئی شقوں سے دستبرداری کا اعلان کر دیا، جس سے تنازع ایک بار پھر شدت اختیار کر گیا۔
اس دوران اسرائیل خاموش نہیں بیٹھا۔ اس نے نہ صرف ایران کے نیو کلیئر سائنسدانوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا، بلکہ Stuxnet’جیسے سائبر حملوں کے ذریعے ایرانی نیو کلیئر تنصیبات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ اسرائیل کی موساد ایجنسی نے ایران کے اندر متعدد خفیہ آپریشن کیے، جن کا مقصد ایران کے نیو کلیئر پروگرام کی رفتار کو سست کرنا تھا۔ ان تمام کارروائیوں کو ایران نے ”ریاستی دہشت گردی” قرار دیا اور اس کے جواب میں خطے میں اپنے اتحادیوں کو فعال کرنے کی کوشش کی۔
حالیہ برسوں میں، خاص طور پر 2024 اور 2025 کے دوران، ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ گئی۔ غزہ میں حماس اور اسرائیل کی لڑائی میں ایران کی کھلی حمایت اور اس کے بعد اسرائیلی حملوں نے صورت حال کو نہایت نازک بنا دیا۔ ایران نے اپنی میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی کا کھلم کھلا استعمال شروع کیا، اور اسرائیل نے ایران کے اندر حساس تنصیبات پر فضائی حملے کیے۔ اس ساری کشمکش نے نیو کلیئر مسئلے کو پھر سے عالمی سطح پر سرِ فہرست کر دیا۔یہی سبب ہے کہ اسرائیل نے موجودہ کشیدگی کے درمیان اصفہان نیوکلیائی تنصیبات پر حملے کئے ہیں۔ اس حملے کے پس منظر میں امریکہ کا چہرہ بھی سامنے آ رہا ہے. اس لیے بہت سے تجزیہ نگار امریکہ کی اس شمولیت کو مستقبل کے خطرات سے جوڑے ہیں، جو واقعی بڑی سنگینی پر منتج ہوسکتی ہے.
یہاں ایک اہم اور بنیادی سوال ابھرتا ہے کہ کیا نیو کلیئر طاقت کا اختیار صرف چند مخصوص ممالک کو حاصل ہونا، اور دوسروں کو اس حق سے محروم رکھنا، عالمی طاقت کے غیر منصفانہ استعمال کی مثال نہیں؟ اقوامِ متحدہ کے نیو کلیئر نان-پرولیفریشن معاہدے کے تحت صرف پانچ ممالک(امریکہ، روس، چین، برطانیہ، اور فرانس)کو قانونی طور پر نیو کلیئر ہتھیار رکھنے کا حق حاصل ہے۔ اس کے برعکس، ہندوستان، پاکستان اور اسرائیل نے یہ ہتھیار معاہدے کے بغیر حاصل کیے اور عالمی برادری کی جانب سے ان پر کوئی بڑی سزا عائد نہیں ہوئی۔ مگر ایران، جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ پرامن نیو کلیئر توانائی کے لیے سرگرم ہے، اسے مسلسل شک، پابندیوں اور حملوں کا سامنا ہے۔ یہ تضاد اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ نیو کلیئر طاقت کی عالمی سیاست دراصل چند طاقتور ممالک کے تسلط کا آلہ ہے، جو دنیا میں طاقت کے توازن کو اپنے حق میں قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
اگر نیو کلیئر ہتھیار واقعی انسانیت کے لیے خطرہ ہیں تو ان کا مکمل خاتمہ سب سے بڑی ترجیح ہونی چاہیے۔ لیکن اگر طاقتور اقوام انہیں اپنے تحفظ کی ضمانت مانتی ہیں، تو دوسرے ممالک کو ان سے محروم رکھنے کی منطق کہاں کھڑی ہوتی ہے؟ اس سوال کا جواب دینا بین الاقوامی برادری کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
آج ایران اور اسرائیل کے درمیان نیو کلیئر تنازع مہلک شکل اختیار کررہا ہے۔ اسی پس منظر میں جب دیگر ممالک کو رکھتے ہیں تو کئی سوالات ابھرتے ہیں۔ کیا ایران پر اسرائیلی حملہ سے کیا کوئی نظیر قائم ہوگی کہ جب ایران پر کرنا جائزہے، تو ان ممالک کیا ہوگا جنھوں نے معاہدے کے بغیر نیوکلیئر سفرجاری رکھا ہے؟ میں راقم یہ نہیں کہنا چاہتا ہے کہ بغیر معاہدے کے بغیر نیوکلیریائی معاملات میں پیش رفت کرنا چاہیے، مگر سوال تو واجب ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملے جائز ہے؟ اگر اسرائیل یہ حملہ جائز سمجھتا ہے تو اسے دوسرے نیو کلیئر یائی ممالک کی طرف بھی دیکھنا چاہیے!یہ حقیقت ہے کہ اس جنگ کے اثرات صرف ان دو ممالک تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورا مشرقِ وسطیٰ، عالمی معیشت، تیل کی فراہمی، اور بین الاقوامی امن شدید متاثر ہو گا۔ ممکن ہے کہ اس کشمکش سے نئے مہاجرین کے بحران، شدت پسند تنظیموں کی افزائش اور بین الاقوامی سفارتی عدم توازن کا آغاز ہو۔بلاشبہ ایران اور اسرائیل کے درمیان نیو کلیئر تنازعہ ایک جنگی علامت ہے۔ اس مسئلے کا حل صرف فوجی کارروائی یا دباؤ کی سیاست سے ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے شفاف اور منصفانہ سفارتی عمل، متوازن مذاکرات، اور عالمی برادری کی نیک نیتی درکار ہے۔ ورنہ ایران پر اسرائیلی حملے سے کئی سوالات کو تقویب پہنچتے ہیں۔ اگر ان سوالوں پر غور کیا جائے تو بہت سے ممالک کے مفادات زد میں آئیں گے اور عالمی انصا ف پسند اداروں کے رویے بھی سوالات کے گھیرے میں آئیں گے۔