جمہوریت کی یرغمالی کے لئے نتیش، نائیڈو دونوں کو یاد رکھا جائے گا

از:- سرفراز احمد قاسمی حیدرآباد

جمہوریت محض ایک طرز حکومت نہیں بلکہ ایک عہد ہے،ایک امانت ہے جو عوام اپنے نمائندوں کو سونپتے ہیں تاکہ وہ ان کے حقوق کی پاسبانی کریں،ان کے مسائل کی آواز بلند کریں اور اقتدار کو جواب دہ بنائے مگر جب اسی جمہوریت کا سب سے مقدس ایوان جسے عوام کی آواز کا مظہر ہونا چاہیے،چند افراد کی مرضی و منشا کا تابع بن جائے تو یہ محض ایک سیاسی تنازع نہیں رہتا بلکہ قومی المیہ بن جاتا ہے، جمہوریت کی روح شفاف آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں مضمر ہے لیکن جب انتخابات کے انعقاد کا ذمہ دار ادارہ ہی شکوک و شبہات کے کہرے میں لپٹ جائے اور ہر کس و ناکس یہ کہنے لگے کہ ملک کا الیکشن کمیشن اب بھروسے کے قابل نہیں رہ گیاہے وہ ایک مخصوص پارٹی کا ترجمان بن چکاہے تو جمہوریت کی بنیادیں لرز اٹھتی ہیں،جمہوریت صرف انتخابات کا نام نہیں یہ عوام کے اس حق کا نام ہے جس کے ذریعے وہ اپنے نمائندے کو منتخب کرتے ہیں،اپنی آواز ایوان تک پہونچاتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق ملک کا مستقبل رقم کرتے ہیں لیکن جب یہی حق کسی سازش،بدنیتی یا ادارہ جاتی ملی بھگت کی بھینٹ چڑھنے لگے تو صرف عوام نہیں بلکہ پوری جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے اور آج ملک میں یہی ہورہاہے،یہاں جمہوریت اور جمہوری اقدار کو پوری طرح یرغمال بنا لیا گیاہے،بہار میں ایس آئی آر کے نام پر ووٹر لسٹ سے مبینہ طور پر 65 لاکھ ووٹروں کے نام نکالنے اور مختلف ریاستوں میں ووٹ چوری کے خلاف جب اپوزیشن خاص طور پر انڈیا الائنس نے دہلی کی سڑکوں پر گزشتہ دنوں احتجاج کیا تو جواب میں پولیس کی گرفتاریوں،بی جے پی کے الزامات کی بوچھار اور الیکشن کمیشن کی پراسرار خاموشی نے ثابت کردیا کہ ہندوستان میں عوام کے حق رائے دہی پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے اور جمہوری نظام پر ڈاکہ ڈال کر تاناشاہی کو فروغ دیا جارہا ہے،گزشتہ دنوں کانگریس رہنما راہل گاندھی،ملکا ارجن کھڑگے،پرینکا گاندھی،شرد پوار سنجے راؤت،اکھلیش یادو،سنجے سنگھ اور دیگر 300 سے زائد ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ پارلیمنٹ ہاؤس سے الیکشن کمیشن کی طرف پرامن مارچ کو نہ صرف دہلی پولیس نے بالجبر روکا بلکہ انہیں گرفتار کرلیا گیا،سڑکوں پر بیٹھے ارکان پارلیمنٹ ہاتھوں میں ایس آئی آر واپس لو اور ووٹ ہمارا چھوکے دیکھ،ووٹ چور گدی چھوڑ،جیسے نعرے لئے آئین کی روح سے انصاف مانگتے رہے،مگر اقتدار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی،احتجاج کے دوران ترنمول کانگرس کی رہنما مہوا موئترا اور میتالی باگ بے ہوش بھی ہو گئے،پولیس کی جانب سے مارچ کو صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر روک دینا بذات خود ایک اعلانیہ پیغام ہے کہ اقتدار کو عوام کی آواز سے ڈر لگنے لگا ہے،جب ایک منتخب حکومت اپوزیشن کی پرامن آواز کو برداشت نہ کر سکے تو یہ اس کی اندرونی کمزوری اور غیر جمہوری ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے اور حکومت کا یہ افسوس ناک رویہ ثابت کرتا ہے کہ ہندوستان کو جمہوری کہنے والے لوگ بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں،ہندوستان جمہوری ملک ہے،یہ الفاظ اورخوبصورت جملے صرف کاغذ کے ٹکڑوں میں محفوظ ہے اور درحقیقت یہ ملک آزاد نہیں ہے،یہاں آپ کو اپنے حقوق کی آزادی بالکل نہیں ہے۔

گزشتہ 7 اگست 2025 کو قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے الیکشن کمیشن کی پول کھولتے ہوئے اور اس پر بجلی گراتے ہوئے سیاسی دنیا میں طوفان برپا کردیا تھا،راہل گاندھی نے جن حقائق کا انکشاف کیا وہ جمہوریت کی بنیادوں کو ہلا کررکھ دیا ہے،ان کے الزامات نے ایک ایسے نظام کی کھوکھلی بنیادوں کو بے نقاب کردیا ہے جو عوامی مرضی کی نمائندگی کا دعوی کرتا ہے لیکن عوام کے مسائل اور انکی آوازیں انکے کانوں تک نہیں پہونچتی۔دوسری جانب الیکشن کمیشن کا رویہ غیر جانبداری سے کہیں بہت دور نظر آرہاہے،جس میں ادارے کی اصل شناخت،شفافیت،غیر جانبداری اور اعتماد پر ہو،الیکشن کمیشن جب ڈیجیٹل ووٹر لسٹ کو عوامی دسترس سے ہٹا دے،سی سی ٹی وی فوٹیج دینے سے روک دے،ووٹر لسٹ سے حذف شدہ ناموں کی فہرست شائع کرنے سے انکار کرے،پریس کانفرنس میں اپنے اوپر لگے الزامات کا کوئی واضح جواب نہ دے سکے،پریس کانفرنس کے نام پر وہ حکمراں پارٹی کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آئے تو یہ سمجھنا چنداں دشوار نہیں کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پوری طرح سے نظرانداز کررہاہے اور اس سے منھ موڑ رہا ہے۔بہار کی ووٹر لسٹ سے 65 لاکھ شہریوں کے ناموں کے پراسرار طور پر غائب ہوجانے کا یہ ایک ایسا واقعہ جس نے انتخابی عمل کی ساخت پر ایک گہرا سوالیہ نشان لگا دیا ہے،کمیشن نے اس معاملے میں یہ دو ٹوک موقف اختیار کیا کہ قانون اس بات کا پابند نہیں ہے کہ حذف شدہ ناموں کی کوئی الگ فہرست شائع کرے، نہ ہی وہ ان ناموں کے اخراج کی وجوہات بتانے کا ذمہ دار ہے اور نہ وہ ان ناموں کو عدالت میں پیش کرنے کا مجاز ہے،یہ دلیل محض قانونی موشگافی نہیں بلکہ شفافیت کے گلے پر چھری پھیرنے کے مترادف ہے اگر کسی ووٹر کا نام غلطی سے نہیں ہٹایا گیا تو اس کی وجہ بتانے میں کیا قباحت ہے؟ کیوں الیکشن کمیشن یہ بتانے سے گریز کررہا ہے؟تشویش ناک امر یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ الیکشن کمیشن کی حکمت عملی میں تبدیلی کے ایک وسیع تر سلسلے کی کڑی نظر آتا ہے،ڈیجیٹل ووٹر لسٹ کی عدم دستیابی اور سی سی ٹی وی فوٹیج تک رسائی کو مشکل بنانے کے لئے قواعد میں ترمیم جیسے اقدامات پہلے ہی شکوک پیدا کر رہے تھے،حذف شدہ ناموں اور ان کی وجوہات کو خفیہ رکھنے پر اصرار اس تاثر کو مزید گہرا کرتا ہے کہ انتخابی عمل کو جان بوجھ کر غیر شفاف بنایا جارہا ہے،اس پورے معاملے میں الیکشن کمیشن کا رویہ محض دفاعی نہیں بلکہ جارحانہ بھی ہے،اس نے اے ڈی آر کی عرضی کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دیا اور عدالت سے یہ درخواست کی کہ وہ درخواست گزار پر بھاری جرمانہ عائد کرے ایک آئینی ادارے کا ایک سول سوسائٹی تنظیم جو محض شفافیت کا مطالبہ کررہی ہے،ان کے خلاف ایسا جارحانہ رد عمل بجائے خود ایک بری مثال ہے یہ ایک ایسی کوشش ہے جس کا مقصد تنقید کی ہر آواز کو دبانا اور احتساب کے عمل کو کمزور کرنا ہے،پھرملک میں جمہوریت کہاں باقی رہ گئی ہے؟ حکمراں پارٹی کی طرف سے اس احتجاج کو افرا تفری اور عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش قرار دینا خود اس بات کا اعتراف ہے کہ انہیں اپوزیشن کی اس عوامی مہم سے خطرہ محسوس ہورہا ہے،جب دلیل کے جواب میں الزام تراشی،سوال کے بدلے طنز اور احتجاج کے بدلے گرفتاری کی جائے تو سمجھ لیجئے کہ سچ کسی نہ کسی گوشے سے جنم لے چکا ہے،مرکزی وزیر دھرمیندر پردھان کی طرف سے راہل گاندھی کو غیروں کی زبان بولنے والا کہنا بحث کو ذاتی حملوں کی پست سطح پر لے جانے کے سوا کچھ نہیں ہے،یہ سوال بجا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن اتنا ہی غیر جانبدار ہے تو کانگریس نے کرناٹک،تلنگانہ اور ہماچل میں کیسے کامیابی حاصل کی،لیکن یہ سوال بی جے پی کی سادگی نہیں بلکہ حقائق سے فرار کا مظہر ہے،جمہوریت میں غلط کو غلط کہنا ضروری ہے،چاہے وہ جس وقت اور جس ریاست میں ہو،بہار میں ووٹر لسٹ کی موجودہ ترامیم انتخابی عمل کی شفافیت پر گہرے سائے ڈال چکی ہیں،سپریم کورٹ نے مسلسل تیسرے دن اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو یہ ہدایت دی کہ 65 لاکھ ان ووٹرکے نام ویب سائٹ پر ڈالے جائیں جو ووٹرلسٹ سے حذف کئے گئے اور اس میں یہ بتایا جائے کہ آپ کا نام ووٹر لسٹ سے کیوں کاٹا گیا ہے،اس معاملے کی مزید سماعت اگلی تاریخ میں ہوگی دیکھنا ہوگا کہ عدالت اس بارے میں کیا فیصلہ سناتی ہے۔یہ معاملہ ہندوستان میں انتخابی جمہوریت کے مستقبل کا مقدمہ ہے کیا ملک کا سب سے بڑا آئینی ادارہ الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط کی آڑ میں اپنی جواب دہی سے فرار حاصل کرسکتا ہے، کیا شہریوں کو بغیر کسی جرم کے انکے بنیادی حقوق سے محروم کیا جاسکتاہے؟عدالت عظمی کا فیصلہ نہ صرف بہار کے انتخابات کا سمت متعین کرےگا بلکہ یہ بھی واضح کرے گا کہ ہندوستان کی جمہوریت میں شفافیت اور احتساب کی اقدار کتنی مضبوط اور گہری ہیں۔

انڈیا الائنس اور اپوزیشن پارٹیوں کا احتجاج اس بات کی علامت ہے کہ ہندوستان میں ابھی جمہوریت زندہ ہے اور عوام کے حقوق کی حفاظت کے لئے آواز بلند کرنے والے اب بھی موجود ہیں یہ محض ایک مارچ نہیں بلکہ ان لاکھوں ووٹروں کے حق کا مقدمہ ہے جو خاموشی سے لسٹ سے نکال دئے گئے اور جنہیں اس بات کا علم بھی نہ ہو سکا کہ ان کا آئینی حق ان سے چھین لیا گیا ہے،اس تناظر میں اپوزیشن کا مطالبہ کہ اس مسئلے پر پارلیمنٹ میں باضابطہ بحث کی جائے، نہایت معقول اور آئینی ہے مگر افسوس کہ پارلیمنٹ میں اکثریتی شور اور حکومتی ہنگامہ سچ کی گونج کو دبا رہا ہے۔گزشتہ ایک ماہ سے پارلیمنٹ ٹھپ ہے،اپوزیشن سراپا احتجاج ہے،ایوان میں مسلسل ہنگامہ آرائی ہورہی ہے لیکن حکومت کو یہ سب دکھائی نہیں دے رہاہے۔ جمہوریت میں سب سے بڑی طاقت عوام ہوتے ہیں اور جب ان کے ووٹ کا تقدس پامال ہو تو ہر در و دیوار سے سوال اٹھنے لگتا ہے،اس وقت یہ سوال صرف اپوزیشن کا نہیں ہر اس ہندوستانی کا ہے جو اپنے ووٹ کو اپنی آواز سمجھتا ہے،وقت آگیا ہے کہ ووٹ کی عزت کو، جمہوریت کی اصل روح کو اور آئین کی پاسداری کو محض نعروں کے بجائے ایک عوامی تحریک میں بدلا جائے کیونکہ آج اگر ہم خاموش رہے تو کل ہمارے ووٹ کے خانے میں بھی صرف خالی جگہ باقی رہے گی۔
ملک اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے،ایک طرف الیکشن کمیشن ہے جو آئینی ادارہ ہے اور جسے مکمل غیرجانبداری سے اپنے فرائض ادا کرنے چاہیے،دوسری طرف اپوزیشن ہے جو جمہوری توازن کے لئے ناگزیر ہے لیکن اسے ہر بار سازش کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور تیسری طرف عوام ہے جو ان دونوں کے درمیان سچ تلاش کرنے کی کوشش میں بے یقین اور مایوس ہو چکے ہیں،راہل گاندھی نے ایک بنیادی سوال اٹھایا ہے کہ دنیا کے تمام جمہوری نظاموں میں حکومت مخالف رجحان ہوتا ہے لیکن یہاں بی جے پی ہر بار اس لہر سے محفوظ کیسے رہتی ہے؟ کیا یہ محض ان کی کارکردگی کا کمال ہے یا پھر نظام کی دراڑیں انہیں بچا رہی ہیں ؟ اگر ووٹر لسٹ میں جعلی اور فرضی نام ہوں،اگر ایک شخص کئی بار ووٹ ڈال سکے،اگر اصل ووٹ ڈالنے والوں کو ہی لسٹ سے نکال دیا جائے تو پھر بی جے پی یا کسی بھی جماعت کی فتح کا مطلب جمہوریت کی جیت نہیں بلکہ اس کی شکست ہوگی اور اس کا کھلے عام قتل ہوگا،راہل گاندھی کے الزامات اگر سچے ہیں تو یہ محض ووٹ کی چوری نہیں بلکہ جمہوریت کا قتل ہے اور اگر یہ الزامات غلط ہیں تو پھر الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ شفاف طریقے سے اسکی تحقیقات کرے،عوام کے سامنے حقائق رکھے،ڈیٹا جاری کرے اور ہر اس نقطے کا جواب دے جو راہل گاندھی نے اٹھایا ہے،کیونکہ یہ تنہا راہل گاندھی کے سوالات نہیں ہیں،ای وی ایم پر ایک عرصے سے الزام لگتا رہا ہے لیکن اسے ان سنی کردی گئی،لیکن اب تو صرف ووٹوں کی چوری نہیں بلکہ اس پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے۔الیکشن کمیشن کی دھمکیاں اور یہ کہہ دینا کہ یہ الزامات غلط ہیں اس میں سچائی نہیں ہے،یہ ہرگز جواب نہیں ہے،کمیشن پر جو سنگین الزامات ہیں اسکا جواب ہرحال میں دینا ہوگا،خاموشی کوئی جواز نہیں بلکہ خود ایک جرم ہے یہ وقت ہے کہ الیکشن کمیشن خود کو عوامی اعتماد کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کرے اور ثابت کرے کہ وہ بی جے پی یا کسی اور جماعت کا نہیں صرف آئین کا وفادار ہے بصورت دیگر آنے والے انتخابات میں ہر ووٹ کے ساتھ ایک سوال بھی ڈالا جائے گا کہ کیا میرا ووٹ واقعی گنا گیا یا کہیں بیچ میں ہی چوری کرلیاگیا۔

گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن کی پریس کا نفرس سے یہ شک مزید گہرا ہوگیا کہ ملک میں صرف ووٹوں کی چوری نہیں ہورہی ہے بلکہ ڈکیٹی ہورہی ہے، یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جمہوری نظام میں عوام ووٹ کے ذریعے اپنی حکومت کا انتخاب کرتے ہیں لیکن ہندوستان میں اب حکومت اپنے ووٹر کا انتخاب کررہی ہے،مودی حکومت اسی ڈاکہ زنی کے ذریعے تیسری بار اقتدار پر قابض ہوئی ہے اور اسی لئے یہ حکومت عوام کی آواز نہیں سن رہی ہے،عوام مخالف اور من مانی فیصلے ان شبہات کو مزید قوت پہونچا رہے ہیں،ظاہر ہے یہ حکومت بیساکھی کے ذریعے قائم ہے، جس میں نتیش،نائیڈو کے علاوہ دیگر اور کئی پارٹیاں شامل ہیں،راہل گاندھی اور تیجسوی کی قیادت میں بہار سے ووٹر ادھیکار یاترا زور و شور سے جاری ہے جس میں عوامی سیلاب دیکھا جارہاہے،ووٹر ادھیکار یاترا میں لوگوں کا غیر معمولی جوش و خروش اس بات کی غمازی کرتاہے کہ ابھی اس ملک میں لوگ اپنے حقوق کی بازیابی اور اسکے تحفظ کےلئے بیدار ہیں،بہار سے اٹھنے والا یہ طوفان اگر ملک گیر تحریک اختیار کرتاہے تو پھر دہلی میں اقتدار پر قابض لوگوں کو اپنا تخت و تاج بچانا انتہائی مشکل ہوگا،ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ بہار گوتم بدھ کی سرزمین رہی ہے،یہاں سے اٹھنے والا طوفان، اپنے ساتھ بڑے بڑے تانا شاہوں کو بہالے جاتاہے اور یہ ملک میں انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتاہے،یہی اسکی تاریخ رہی ہے،بہار سے شروع ہونے والا تازہ طوفان ملک کو کس رخ پر لے جاتا ہے اسکے لئے ابھی ہمیں انتظارکرنا ہوگا۔

آج جبکہ ملک میں جمہوریت اور ڈیموکریسی کو ہرطرح سے کمزور کیا جارہا ہے،جمہوریت یرغمال بنائی جارہی ہے،جمہوری اقدار کا قتل ہورہاہے،قانون کے نام پر اپوزیشن کو ختم کرنے کوشش کی جارہی ہے،ان ساری گڑبڑیوں اورگھوٹالوں کےلئے نتیش،نائیڈو اور این ڈی اے کی حمایت کرنے والی دیگر پارٹیوں کو یاد رکھا جائے گا کہ انھوں نے ان چیزوں کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے،سمجھنے کے باوجود کروڑوں عوام کی امنگوں کے خلاف صرف اپنے مفاد کےلئے اپنے ضمیر سے سمجھوتہ کرلیا،اپنے ضمیر کی آواز بھی یہ پارٹیاں نہیں سن سکی، جمہوریت کو کمزور کرنے،آمریت کے فروغ میں ساتھ رہے اور کروڑوں لوگوں کے جذبات کا خون کرتے رہے۔جمہوریت کےخاتمے کےلئے جتنی ذمہ دار بی جے پی ہے اس سے زیادہ ذمہ دار نتیش اور نائیڈو ہیں جنھوں نے اسکی تائید کی،مؤرخ جب کبھی داستان ہند اور ہندوستان کی سیاسی تاریخ لکھے گا،انکی ضمیر فروشی کا مرثیہ نمایاں الفاظ میں لکھے گا۔ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں ایمرجنسی کےدوران کسی شاعر نے درست کہا تھا کہ
نہ پوچھو عالم جمہور کی وحشت بدامانی
حدیث اقتضائے دل سنائیں تو بغاوت ہے
فریب کورچشمی ہے طلوع مہر آزادی
حجاب دیدہ و دانش اٹھائیں تو بغاوت ہے
حیات ہرنفس پر جبر کا آئین نافذ ہے
وفور تشنگی میں لب ہلائیں تو بغاوت ہے

(مضمون نگار،معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔