جمعیۃ علماء اور آر ایس ایس

از:- شکیل رشید

ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز

ہندوستان کی تاریخ میں اگر دو ایسی تنظیموں کا ذکر کیا جائے جنہوں نے اپنے اپنے دائرۂ فکر اور نظریات کے مطابق گزشتہ سو برسوں میں سب سے گہرا اثر ڈالا ہے، تو وہ ہیں جمعیۃ علماء ہند اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)۔ دونوں کا قیام قریب قریب ایک ہی زمانے میں عمل میں آیا، دونوں نے اپنے اپنے طور پر قوم کو منظم کرنے کی کوشش کی، مگر دونوں کے مقاصد، طریقۂ کار اور اثرات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔جمعیۃ علماء ہند کا قیام 1919 میں عمل میں آیا۔ اس وقت پورا ملک انگریزوں کی غلامی سے نجات کی جدوجہد میں مصروف تھا۔ جمعیۃ نے علماء دیوبند کی قیادت میں تحریک آزادی کا ساتھ دیا اور گاندھی جی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کو اپنے لیے باعثِ افتخار سمجھا۔ ان کا مقصد ہندوستان کو آزاد کرانا، ملک کی کثرت میں وحدت کی حفاظت کرنا اور مسلمانوں کے مذہبی تشخص کو باقی رکھتے ہوئے قومی یکجہتی میں کردار ادا کرنا تھا۔اس کے برعکس آر ایس ایس کا قیام 1925 میں ہوا۔ اس کا مقصد انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنا ہرگز نہیں تھا بلکہ ہندو قوم پرستی کے نظریے پر مبنی ایک "ہندو راشٹر” کی تشکیل تھا۔ ڈاکٹر ہیڈگیوار اور گولوالکر جیسے رہنماؤں نے صاف صاف کہا کہ اس ملک میں مسلمان اور عیسائی باہر سے آئے ہیں اور انہیں یا تو ہندو تہذیب میں ضم ہونا ہوگا یا پھر دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت قبول کرنی ہوگی۔جمعیۃ علماء نے جنگ آزادی میں جو قربانیاں دیں، وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ ملک کے کونے کونے میں علماء نے تحریک خلافت، عدم تعاون اور سول نافرمانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جیلیں بھری گئیں، دار و رسن کے مراحل طے کیے گئے اور مسلمانوں کو قومی دھارے میں شامل رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی۔اس کے مقابلے میں آر ایس ایس نے آزادی کی تحریک سے عملاً کنارہ کشی اختیار کیے رکھی۔ ان کی سرگرمیاں زیادہ تر ہندوؤں کو عسکری تربیت دینے، ان کے اندر اقلیتی طبقے کے خلاف نفرت پیدا کرنے اور ایک منظم فرقہ پرست ڈھانچہ تیار کرنے پر مرکوز رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد بھی آر ایس ایس پر کئی بار پابندیاں لگیں، کیونکہ گاندھی جی کے قتل سے ان کے نظریات کا براہ راست تعلق تھا۔آزادی کے بعد جمعیۃ علماء ہند نے سیاست سے خود کو بڑی حد تک الگ کر لیا اور زیادہ تر قومی یکجہتی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کیا۔ انہوں نے تعلیم، رفاہی خدمات اور مذہبی رہنمائی کو اپنا میدان بنایا۔ ان کی پالیسی یہ رہی کہ آزادی کے بعد اب ملک کو تعمیری کاموں کی ضرورت ہے، اس لیے تصادم یا محاذ آرائی کے بجائے مثبت کردار ادا کیا جائے۔آر ایس ایس نے آزادی کے بعد اپنے سیاسی بازو جن سنگھ اور پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے کیڈر کو اتنا مضبوط بنایا کہ آج وہ حکومت، انتظامیہ، میڈیا، تعلیمی اداروں اور عدلیہ تک میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکے ہیں۔ ان کا "ہندو راشٹر” کا خواب اب کھلے عام سیاسی بیانیہ بن چکا ہے اور قانون سازی سے لے کر عوامی زندگی تک ہر جگہ اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔جمعیۃ علماء کی فکری بنیاد وحدتِ انسانی، بقائے باہمی اور مذہبی آزادی پر ہے۔ وہ اسلام کی اصل تعلیمات یعنی عدل، امن اور رواداری کو سامنے رکھ کر قومی زندگی میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہندوستان صرف ہندوؤں کا نہیں بلکہ ہر مذہب اور ہر زبان بولنے والے انسانوں کا ملک ہے۔آر ایس ایس کا نظریہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ ہندوستان کو "ہندو قوم” کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی حیثیت محض "برداشت کیے جانے والے گروہ” کی ہے۔ ان کے سیاسی نظریات میں کثرت میں وحدت کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ اکثریت کی بالادستی ہی اصل اصول ہے۔آج جب آر ایس ایس اپنے سو سال مکمل کر رہی ہے تو وہ ملک کے ہر شعبے پر قابض دکھائی دیتی ہے۔ حکومت ان کے ہاتھ میں ہے، تعلیمی نصاب ان کے نظریات کے مطابق بدلا جا رہا ہے، عدلیہ پر دباؤ ہے، میڈیا بڑی حد تک ان کے کنٹرول میں ہے، اور عوام کے ذہنوں میں "ہندو راشٹر” کا بیج بویا جا رہا ہے۔

یہ بھی دیکھیں: آر ایس ایس سو سالہ جشن

اس کے برعکس جمعیۃ علماء سو سال مکمل کرنے کے باوجود کمزور اور پس منظر میں دکھائی دیتی ہے۔ ان کے پاس کوئی سیاسی قوت نہیں، عوامی تحریک کی طاقت نہیں اور نہ ہی حکومت پر اثر ڈالنے کا وہ طریقہ موجود ہے جو آر ایس ایس کے پاس ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے آزادی کے بعد سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔جمعیۃ علماء ہند اور آر ایس ایس کی سو سالہ تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ نظریات اگر مسلسل جدوجہد، منظم ڈھانچے اور سیاسی عمل کے ساتھ جڑے ہوں تو وہ معاشرے پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں، چاہے وہ نظریات کتنے ہی متنازع کیوں نہ ہوں۔ آر ایس ایس نے اپنے ایجنڈے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور آج وہ اپنے خواب کے قریب ہے۔ دوسری طرف جمعیۃ علماء نے قربانیاں دے کر آزادی دلائی مگر بعد میں اپنی طاقت کو قائم نہ رکھ سکی۔یہ موازنہ ہمیں اس سوال پر سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا محض نیک نیتی اور قربانی کافی ہے، یا پھر اس کے ساتھ ساتھ منظم حکمت عملی، ادارہ جاتی ڈھانچہ اور سیاسی شعور بھی ضروری ہیں؟ ہندوستان کے مستقبل کا دار و مدار اسی سوال کے جواب پر ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔