آنکھیں جو کچھ دیکھتی ہیں: ( امارت شرعیہ کا ماضی اور حال)

از:- ریحان غنی

یہ بھی کیا قدرت کا نظام اور اس کی منصوبہ بندی ہے کہ آدمی کی عمر جیسے جیسے بڑھتی ہے اس کا جسم کمزور ہوتا چل جاتا ہے لیکن کسی ادارے اور تنظیم کی عمر میں جیسے جیسے اضافہ ہوتا ہے وہ ادارہ اور تنظیم مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جاتی ہے اور لوگ فخر سے مثال دیتے ہیں کہ فلاں ادارے یا تنظیم کے قیام کو سو سال سے زیادہ ہوگئے اور آج اس کی شاخیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں آور یہ تنظیم یا ادارہ آج اپنے قیام کی صدی منا رہا ہے ۔ یعنی اس نے کامیابی کے ساتھ اپنے قیام کا سو سال مکمل کر لیا۔ لیکن اس کے برعکس اگر کوئی ادارہ وقت گزرنے کے ساتھ ہی سازشوں کا شکار ہو کر بتدریج کمزور ہوتا چلا جائے تو یہ تشویش کی بات ہے۔ بد قسمتی سے آج "امارت شرعیہ” کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔

با شعور لوگ جانتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کے اس با وقار ادارے کا قیام 19 شوال المکرم 1339 ہجری مطابق 26 جون 1921 عیسو ی کو عمل میں آیا۔ اس طرح اس کی عمر ہجری تقویم کے مطابق 107سال اور عیسوی تقویم کے مطابق 104سال ہو چکی یے۔ اس کے محرک اپنے وقت کے جلیل القدر عالم دین مولانا ابولمحاسن محمد سجاد علیہ رحمہ اور ان کی جمعیت علماء بہار تھی۔ یہ ملت کے ایک ایسے مخلص اور بے لوث خادم تھے جنہوں نے عہدے اور منصب کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا ۔ نہ امیر شریعت بنے اور نہ نائب امیر شریعت ۔ انہوں نے امیر شریعت منتخب کرنے کے لئے ” مجلس ارباب حل و عقد ” کے نام سے علماء اور مشائخ کی ایک مجلس بنائی۔ قیام امارت اور امیر شریعت کے انتخاب کے لئے پہلا جلسہ 19شوال المکرم 1339ہجری مطابق 26 جون 1921 عیسوی کو پٹنہ کے محلہ پتھر کی مسجد میں منعقد ہوا جس کی صدارت حضرت مولانا ابوالکلام آزاد نے فرمائی ۔ اس تاریخی جلسے میں مجلس ارباب حل و عقد نے خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کے سجادہ نشیں حضرت مولانا سید شاہ بدر الدین قادری علیہ رحمہ کو ان کی غیر موجودگی میں اتفاق رائے سے امارت کا پہلا امیر شریعت منتخب کیا ۔ اس کے بعد علماء اور مشائخ کے ایک وفد نے خانقاہ جا کر انہیں یہ خوشخبری سنائی اور ان سے یہ عہدہ قبول کرنے کی گزارش کی۔ دوسرے امیر شریعت حضرت مولانا سید شاہ محی الدین قادری علیہ رحمہ اور تیسرے امیر شریعت حضرت مولانا سید شاہ قمر الدین قادری علیہ رحمہ کا انتخاب بھی اسی با وقار طریقے سے ہوا اور دونوں بزرگوں سے اسی با وقار طریقے سے اس عہدے کو قبول کرنے کی گزارش کی گئی اور ان دونوں نے اسے شرف قبولیت بخشا ۔ ان دونوں بزرگوں کا تعلق بھی ملک کی با وقار خانقاہ، خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف سے تھا۔ لیکن چوتھے امیر شریعت حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی علیہ رحمہ (سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر ) کا انتخاب کچھ دوسرے انداز سے ہوا۔ یعنی مجلس ارباب حل و عقد کا جلسہ پھلواری شریف میں نہیں بلکہ راجدھانی پٹنہ سے کافی دور مدرسہ رحمانیہ سوپول میں 25 مارچ 1957کو ہوا۔ یہ تقریبآ 68 سال پہلے کی بات ہے۔ اس وقت بھی امیر شریعت کے انتخاب کی جگہ اور انتخاب کے طریقہ کار پر سوال اٹھایا گیا تھا اور اس کی مخالفت ہوئی تھی لیکن مخالفت کے باوجود حضرت مولانا سید شاہ محمد منت اللہ رحمانی امیر شریعت منتخب کر لئے گئے اور امارت شرعیہ میں ایک گانٹھ پڑ گئی۔ امارت کے پہلے ناظم ، پہلے مفتی اور امارت شرعیہ کے مضبوط ترجمان "امارت ” کے مدیر میرے دادا حضرت مولانا مفتی سید شاہ مولانا محمد عثمان غنی علیہ رحمہ نظریاتی اختلاف کی وجہ سے خاموشی کے ساتھ امارت شرعیہ سے الگ ہو گئے اور اپنی پوری زندگی پھلواری شریف کے محلہ باؤلی پر کرائے کے مکان میں رہ کر اور سرمہ بنا کر اور اسے فروخت کر کےگزاری ۔ حالانکہ انہیں اس وقت کے اکابر علما اور دانشوروں کی حمایت حاصل تھی لیکن انہوں نے اپنی کوئی الگ ” دکان ” نہیں کھولی ۔ 1978 میں پھلواری شریف میں ان کا انتقال ہوا اور وہیں باغ پیر مجیب میں ان کی تدفین عمل میں آئی ۔ ایسی ہی ایک نظیر اپنے وقت کے ایک بڑے مدبر اور مفکر ڈاکٹر سید ضیاء الہدیٰ علیہ رحمہ نے بھی پیش کی تھی۔ وہ جماعت اسلامی ہند حلقہ بہار کے امیر تھے ۔ ایک زمانے میں جماعت اسلامی کے اراکین پر موجودہ انتخابی نظام میں عملی طور پر حصہ لینے پر پابندی تھی ۔ لیکن جماعت نے اپنی اس پالیسی میں نرمی کی اور اپنے اراکین کو انتخابی نظام میں حصہ لینے کی اجازت دے دی ۔ ڈاکٹر سید ضیاء الہدیٰ علیہ رحمہ کو اس سے اختلاف تھا۔ جب ان کی بات نہیں مانی گئی اور ان کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی تو وہ خاموشی کے ساتھ جماعت سے الگ ہو گئے ۔ انہوں نے بھی حضرت مولانا سید شاہ محمد عثمان غنی کی طرح ہی اپنی کوئی الگ "دکان” نہیں کھولی۔ لیکن آج بڑے بڑے عالم اور دانشوروں کی سوچ کا انداز ہی بدل گیا ہے اور ان کے دلوں میں عہدے اور منصب کی لالچ اس طرح پیوست ہو گئی ہے کہ وہ اسے حاصل کرنے کے لئے سیاسی رہنماؤں کی طرح کسی حد تک جا سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس پیسے بھی بہت آگئے ہیں ۔ امارت شرعیہ ، ادارہ شرعیہ ، جمعیتہ علماء ہند اور جماعت اسلامی ملت اسلامیہ کے معتبر ادارے ہیں ۔ ان اداروں میں اگر کسی وجہ سے خلفشار مچتا ہے یا یہ ادارے کمزور ہوتے ہیں تو اس سے ملت اسلامیہ کو ایسا نقصان پہنچے گا کہ جس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔ ایسے اداروں کے خلاف سازشیں تو ہوتی رہیں گی ۔ یہ ہماری حکمت عملی اور دور اندیشی ہے کہ ہم اس سے کیسے بچیں۔ اس وقت امارت شرعیہ کے امیر مولانا محمد ولی فیصل رحمانی ہیں جن کا با ضابطہ انتخاب” مجلس ارباب حل وعقد” کے جلسے میں پھلواری شریف میں عمل میں آیا تھا ۔ ہر چند کہ اس میں بھی امارت شرعیہ کی قدیم روایت اور ضابطے کی خلاف ورزی کی گئی لیکن بہرحال اس میں امیدوار بھی کھڑے ہوئے ، ووٹنگ ہوئی اور مولانا فیصل رحمانی ضابطے کے مطابق” امیر شریعت” منتخب کر لئے گئے اور امارت شرعیہ کے سابق ناظم مولانا انیس الرحمٰن قاسمی کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ حالانکہ انہوں نے یہ عہدہ حاصل کرنے کے لئے بے انتہا جدو جہد کی اور ہر کس و ناکس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ یہ باتیں میں بہت اعتماد کے ساتھ کہہ رہا ہوں کیونکہ کچھ کا میں خود بھی گواہ ہوں۔ اس وقت امارت شرعیہ بہت اچھی تھی اور اس کے نو منتخب امیر میں بھی کوئی خامی نہیں تھی ۔ کئی برسوں کے بعد انہیں پتہ چلا کہ جس امیر شریعت کا انتخاب ہوا اسے امریکی شہریت ملی ہوئی ہے اور وہ مستند عالم دین بھی نہیں ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی امارت شرعیہ کا جس عالم کو اپنا ناظم بنا رکھا ہے اس عالم کی کردار کشی میں بھی وہ پیش پیش تھے اور انہوں نے اس عالم کی ایسی دل آزاری کی تھی کہ وہ کئی مواقع پر زارو قطار رو پڑے تھے ۔ جس کا میں خود گواہ ہوں۔ اس پس منظر میں یہ کیسا "گٹھ بندھن” ہے؟ ذرا سوچئیے اکابر ملت نے امارت شرعیہ کو کیا اسی دن کے لئے اپنے خون جگر سے سینچا تھا کہ سو سال مکمل ہونے کے بعد یہ مضبوط ہونے کے بجائے گوشت پوست کے آدمی کی طرح نکمی عمر میں پہنچ کر اپنے وجود سے مایوس ہو جائے۔ ؟ کیا اکابر ملت نے کبھی یہ سوچا تھا کہ امارت شرعیہ میں ایک ایسا دن بھی آئے گا جب ایک گروپ عہدہ حاصل کرنے کے لئے اور دوسرا گروپ عہدے اور منصب کو بچانے کے لئے لاکھوں لاکھ روپئے خرچ کرنے اور خواہ مخواہ لوگوں کا قیمتی وقت ضائع کرنے میں بھی کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرے گا۔ ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جس کا جواب نہ تو "فیصل رحمانی حامی گروپ ” کے پاس ہے اور نہ” فیصل رحمانی مخالف گروپ” کے پاس ہے ۔ لیکن ہاں اس پس منظر میں مخالف گروپ کی طرف سے ایک آخری کوشش "مصالحت” کی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ اس گروپ نے امارت پر قبضہ کرنے کی جو تحریک چلائی تھی وہ ناکام ہو گئی ۔ درمیان میں مصالحت کی کوشش پہلے بھی کی گئی ہے ۔لیکن اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ۔ میرے خیال میں جو مصالحت کار ہوں گے وہ امارت شرعیہ کی دوہائی دے کر یہ کوشش کریں گے کہ مولانا انیس الرحمٰن قاسمی کو نائب امیر شریعت بنا کر معاملے کو رفع دفع کیا جائے ۔ اس طرح بہت خوبصورتی کے ساتھ مولانا انیس الرحمٰن قاسمی کو امارت شرعیہ کی عمارت میں داخلہ مل جائے گا ۔ اس کے بعد جو ہوگا وہ وقت ہی بتائےگا۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔