تحریر: مسعود جاوید
کیا اب مشاعروں اور اردو کے جلسوں ،جشنوں اور سیمیناروں میں جانے سے پہلے ہمیں یہ تحقیق کرنا ہو گا کہ کون شاعر ادیب یا مقالہ نگار ذاتی زندگی میں متقی پرہیزگار ہے اور کون انگور کی بیٹی یعنی جام منہ سے لگائے بغیر اسٹیج پر نہیں آتے کون پنچ وقتہ نمازیں ہے اور کون دین اور عقائد پر تنقید کرنے والا کون موحد ہے اور کون ملحد دہریہ یا مشرک
البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے ؟
البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے یہ تو نصیرالدین شاہ صاحب سے پوچھنا ہوگا لیکن مجھے غصہ اس لئے آتا ہے کہ ہمارے اپنوں میں منافقت کوٹ کوٹ کر بھری ہے یا بھر دی گئی ہے ۔ بھر دی گئی ہے ! کیا مسلمان ہر معاملے میں دوسروں کے دست نگر ہیں ؟ مجھے ایسا ہی لگتا ہے۔ مذہب کے نام پر مشتعل کرنے کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ بعض مخصوص مذہبی بیانیے چلا کر چنگاری لگا دیجیۓ اور پھر دیکھیے بغیر سوچے سمجھے ایندھن بننے کے لئے لوگوں کا تانتا بندھ جائے گا ۔
مذہب کے معاملے میں بہت سے غیرمسلموں میں متشدد خیالات ہی نہیں بعض اوقات ان کی بعض حرکتیں بھی ( بالخصوص پچھلے پندرہ بیس سالوں) نہ صرف ہمیں بلکہ انصاف پسند برادران وطن کو بھی بہت ناگوار گزرتی ہیں۔ ایسے موقعوں پر ہم ان متشدد غیر مسلموں کو سیکولرازم کی تلقین کرتے ہیں! ہم انہیں کہتے ہیں کہ ہندوستان کی طاقت ‘کثرت میں وحدت’ ،’ پرامن بقائے باہم’ اور ‘شمولی سماج’ میں پنہاں ہے۔ اور یہ کہ اس ملک عزیز کا ایک جامع اور مانع دستور ہے اور اس دستور کا ایک اہم باب سیکولرازم ہے اور اس ملک کے ہر شہری نے اس دستور ہند کے پابند رہنے کا عہد کیا ہے۔ لیکن کیا ہمیں یہ زیب دیتا ہے کہ جب اپنی باری آئے تو دستور کے انہی اسباق کو طاق پر رکھ کر ہم مذہبی جنونیت کا مظاہرہ کریں !
دستور ہند کے مطابق سیکولر ریاست اور حکومت کسی بھی مذہب کی ترویج و ترقی اور اشاعت کے لئے کام نہیں کرے گی اور نہ ہی کسی مذہب کے نشرواشاعت کے خلاف کام کرے گی ۔ مذہب ایک خالص ذاتی معاملہ ہے اسی لئے اس ملک میں رہنے والے ہر شہری کو اپنی مرضی کے مذہب کی مکمل طور پر یا آدھی ادھوری اتباع کرنے کی آزادی ہے بشرطیکہ دوسرے شہریوں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائے ۔ اتنا ہی نہیں ہر شہری کو بے دین رہنے کا ، خدا کا انکار کرنے کا ،کفر کرنے کا ، شرک کرنے کا ، ایک خدا کے برعکس بہت سے معبودوں کی پوجا کرنے کا ، ملحد رہنے کا دہریہ رہنے کا حق ہے۔ حکومت اس کا مجاز نہیں ہے کہ وہ خدا میں یقین رکھنے والوں یا خدا کا انکار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی یا حوصلہ شکنی کرے۔
اگر ایسا ہے تو حکومت پر بے جا دباؤ ڈال کر سالانہ جشن اردو کے رد کرانے کے سبب بننے والوں کو آپ کس خانہ میں رکھیں گے ؟ حکومت کو کلین چٹ اس لئے دی جا سکتی ہے کہ ریاست میں انتخابات سر پر ہیں اردو نام والے ووٹ بینک کو نظر انداز کرے یا اصولی موقف اختیار کرتے ہوئے بغیر کسی تبدیلی کے پروگرام ہونے کا اعلان کرے ۔ کسی بھی ایک صورت میں ایک طبقے کی ناراضگی یقینی ہے۔ اس لئے سیف سائڈ غالباً یہی رہا ہوگا کہ کسی مخصوص شخص کی شرکت یا عدم شرکت کے پیچیدہ اور متنازع مسئلہ کو سرے سے ختم کر دیا جائے ۔
ویسے یہ ذکر کرنا بھی بے محل نہیں ہوگا کہ اردو ادب کو اسلامی ادب اور اشتراکی ادب کے خانوں میں بانٹنے کا عمل آزادی کے بعد شروع ہوا تھا اس بابت مولانا ڈاکٹر سعید احمد اکبر آبادی رح کی ادارت میں ماہنامہ برہان کے اداریے اور مضامین شاہد ہیں۔ لیکن کبھی ایسی نفرت کا مظاہرہ نہیں ہوتا تھا افکار و نظریات سماجی تعلقات پر حاوی نہیں ہوتے تھے۔
لوگوں کو اعتراض کس بات پر ہے صدارت کرنے والے کی ذاتی زندگی ، کفریہ کلمات، عقائد یا رندگی پر یا اس کے ادبی تخلیقات پر ؟ اگر ذاتی زندگی پر ہے تو یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے اس کی گرفت ہماری ذمہ داری نہیں ہے اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں اس زمین پر داروغہ مقرر نہیں کیا ہے ۔ جنت اور جہنم کی سرٹیفیکیٹ بھی دینے کا حق ہمیں حاصل نہیں ہے ۔ ہاں دین حنیف کی مستند کتابوں کی روشنی میں بظاہر راہ حق پر کون قائم اور راہ نجات سے کون بھٹکا ہوا ہے اس کی نشاندہی کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے ایمان کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ اگر اس کی تخلیقی خدمات پر کسی کو اعتراض ہے تو ہو نہ ہو یہ معاصرانہ حسد ہے۔
یہ تو سرکردہ ادباء کی بات ہوئی۔ رہی بات عوام کی جو مذہبی جنونیت کے شکار ہوتے ہیں تو عنقریب ان کو مرفوع القلم کا خطاب ملے گا اس لئے کہ جہاں جہالت ہے وہاں جنون ہے ۔