از:- ڈاکٹر سراج الدین ندوی
ناظم جامعۃ الفیصل،تاج پور بجنور
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دین اسلام کے تحفظ و بقا،مسلمانوں کی تعلیمی ترقی،ملک سے جہالت دور کرنے اور ہندوستان کی آزادی میں مدارس اسلامیہ اور علماء کا اہم رول رہا ہے۔جو اپنے وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے میں بھی مدارس نے بڑا رول ادا کیا ہے۔دارالعلوم دیوبند کا جب قیام عمل میں آیا تو اس میں ہندی اور سنسکرت پڑھانے کے لیے ایک پنڈت کا بھی تقررکیا گیا تھا۔ جب تحریک آزادی دم توڑ گئی اور ہندوستان پر انگریزوں کا تسلط پوری طرح قائم ہوگیااورمجاہدین آزادی،سید احمد بریلوی،سید اسماعیل شہید اور ان کے بہت سے ساتھی بالا کوٹ میں شہید کردیے گئے اور ان کی برپا کی ہوئی تحریک آزادی بارآور نہ ہوسکی تو اس تحریک آزادی کے جو باقیات الصالحات تھے جن میں مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ سرفہرست ہیں،انھوں نے انگریزی تسلط کے بعد اسلامی علوم،اسلامی تہذیب وثقافت اور اسلامی تمدن کی بقا و تحفظ کی یہ سبیل نکالی کہ مسلمانوں کو اب دینی تعلیم کے ذریعہ ان کی تہذیب و ثقافت کو زندہ رکھا جائے،اس بنیاد پر دارلعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا تھا۔جب دوبارہ تحریک آزادی شروع ہوئی تو دارالعلوم نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔یہ اب سے ڈیڑھ سو سال پہلے کی بات ہے۔اس وقت کا تقاضا یہی تھا۔
جب انگریزوں کے خلاف تحریک موالات (جو مہاتما گاندھی،مولانا ابوالکلام آزادؒ،مولانا حسین احمد مدنیؒ وغیرہم نے شروع کی تھی۔) نے زور پکڑاتو مسلمان اس میں پیش پیش تھے،چنانچہ ان کے ملبوسات،ان کی مصنوعات اور ان کی زبان کا بائکاٹ کیاگیا اور علماء نے فتوے دیے کہ ان کی زبان سیکھنا،بولنا،ان کا لباس پہننا،اور ان کے اطوار اپنانا یہ سب چیزیں حرام ہیں۔لیکن یہ فتویٰ وقتی طور پر تھا۔ہندوستان آزاد ہونے کے بعد اس فتوی اور اس تحریک کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی تھی،اس لیے کہ انگریز ملک چھوڑ کر جاچکے تھے۔علماء کو چاہئے تھا کہ آزادی کے بعد وہ اس فتویٰ کو درکنار کردیتے اور اپنے مدارس میں انگریزی،ہندی،سائنس اور دیگر عصری تعلیم کو شروع کردیتے اور ان علوم کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لیتے۔لیکن وہ اسی فتوے پر عمل کرتے رہے۔اس کا انجام یہ ہوا کہ مسلمان عصری علوم کو حاصل نہ کرسکے اور ان کا بڑا طبقہ حالات سے ہم آہنگ نہ ہوسکا۔
ظاہر ہے ہم علوم کو اسلامی اور غیر اسلامی میں تقسیم نہیں کرسکتے،یہ ایک غیر متجزیٰ چیز ہے۔نبی ؐ کے قول کے مطابق علم اور حکمت مسلمان کی گم شدہ چیز ہے جہاں پائے اسے حاصل کرے۔اللہ کے رسول ؐ نے تو ان مشرکین سے اپنے بچوں کو علم حاصل کرایا جو اسلام کو مٹانے اور مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے مکہ سے فوج لے کر آئے تھے۔ہم سب جانتے ہیں کہ آپؐ نے غزوہ بدر کے قیدیوں سے مسلمانوں کو تعلیم دلائی تھی۔علم کو ہم اسلامی اور غیر اسلامی خانوں میں تقسیم نہیں کرسکتے،ہر نافع علم حاصل کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کیوں کہ ملت اسلامیہ کی دینی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسروں کو نفع پہنچائے۔چنانچہ اللہ کے رسول ؐ نے ایسے علم سے پناہ مانگی ہے جو انسانوں کو نفع نہ پہنچائے۔(وعلم لا ینفع)اس کا الزامی نتیجہ یہ ہے کہ ہم وہ علم حاصل کریں جو انسانیت کے لیے نفع بخش ہو۔چنانچہ ہمارے سلف صالحین نے علم بناتات،علم ادویات،علم فلکیات میں اہم خدمات انجام دیں اور ہر وہ علم حاصل کیا جو نفع بخش تھا۔ہمارے مدارس کو یہ چاہئے تھا کہ وہ اپنے یہاں علوم نافعہ کا بھی اہتمام کرتے اور ایک توزن کے ساتھ اسلامی و عصری علوم پڑھاتے۔اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم ایک سطح تک تمام علوم کو ایک ساتھ پڑھائیں،جیسے موجودہ نصاب میں ہائی اسکول تک تمام بچوں کو یکساں علوم پڑھائے جاتے ہیں،اس کے بعد کوئی انجینئرنگ میں جاتا ہے،کوئی طب میں جاتا ہے کوئی ادب میں جاتا ہے۔لیکن دسویں تک تمام بچوں کو جملہ علوم پڑھانے ضروری ہیں۔اگر ہمارے علماء بھی یہ فیصلہ کرتے کہ ہم دسویں کلاس تک ہر بچہ کو تمام علوم پڑھائیں گے تو بہتر ہوتا۔اس کے بعد بچے اپنی استعدادو صلاحیت اور دل چسپی کے مطابق کسی تعلیمی شعبہ کا انتخاب کرتے،ان شعبوں میں ایک عالمیت کا شعبہ بھی ہوتااور بعض طلبہ عالمیت و فضیلت کرتے۔مگر وہ ہائی اسکول تک سارے علوم پڑھتے،آج ہمارے علماء کو یہ دقت پیش آتی ہے کہ وہ انگریزی میں ایک فارم تک نہیں بھرپاتے،انھیں یہ دقت پیش نہ آتی اور نہ وہ احساس کمتری کا شکار ہوتے۔ان کے پاس ضروریات زندگی کے لیے انگریزی،ہندی،سائنس کی بھی تعلیم ہوتی اور باقی علوم دینیہ میں بھی ان کو مہارت حاصل ہوتی۔اسی طرح فارسی اس وقت پڑھائی جاتی تھی جب وہ سرکاری زبان تھی،لیکن اب چونکہ ہندی سرکاری زبان ہے اور انگریزی بین الاقوامی زبان ہے تو عربی کے ساتھ ساتھ انھیں پڑھایا جانا چاہئے،ان دونوں زبانوں کے بغیر ایسا لگتا ہے کہ ہم پڑھے لکھے نہیں ہیں۔
مدرسہ کے قیام میں سب سے پہلے ہم یہ کرتے کہ سوسائٹی ایکٹ یا ٹرسٹ کے تحت مدرسہ کی ایک سوسائٹی یا ٹرسٹ رجسٹرڈ کرالیتے۔اسی طرح مدرسہ قائم کرتے وقت زمین کے کاغذات تحصیل سے رجسٹرڈ کراتے،اس کا 143حاصل کرتے،اسی طرح ہم NOSحاصل کرتے،یعنی مختلف سرکاری اداروں سے یہ سرٹیفکیٹ حاصل کرتے کہ مدرسہ کی تعمیرات قانون کے مطابق ہیں اور انھیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے،اسی طرح ہم بلڈنگ بنانے سے پہلے نقشہ پاس کرالیتے اوربلڈنگ کوڈ حاصل کرتے،اسی طرح ہم 12aاور80 gحاصل کرتے۔12aکا مطلب ہے کہ ہم ڈونیشن اور چندہ لینے کے مجاز ہیں،اور 80g کا مطلب ہے کہ جو فرد یا ادارہ ہمیں چندہ دیتا ہے تو اس کو اس کی وہ رقم ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتی ہے۔اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا کہ ہمیں کسی ادارے سے یا کمپنی سے بڑا تعاون بھی مل سکتا تھا۔پھر ہم مائناریٹی اسٹیٹس لیتے،اس طرح ہمارا ادارہ اقلیتی ادارہ ہوتا اور ہم انتظامی امور میں بڑی حد تک آزاد ہوتے۔اسی طرح ہمارے مدارس شروع سے ہی نظم و انصرام اورمالیات میں شفافیت کا اہتمام کرتے،ہر آمدنی کی رسید،ہر خرچ کا واؤچر بنایا جاتا۔سالانہ بجٹ بنایاجاتا،اس کے مطابق خرچ کیا جاتا،اکاؤنٹس کی جو ضروریات ہیں ان کا خیال رکھاجاتا،ڈے بک،کیش بک اور لیجر کا استعمال کیا جاتا،سالانہ حسابات آڈٹ کرائے جاتے، ظاہر ہے دین اسلام کے خلاف کوئی عمل نہیں ہے،بلکہ نظم و انصرام کا تقاضاہے۔
اگرہمیں بیرون ملک سے تعاون حاصل کرنا ہوتا تو ہم FCRA(Foreign ContributionRegulation Act)حاصل کرتے۔اس کے تحت ہم بیرون ملک سے قانونی طور پر چندہ لے سکتے ہیں۔اگر ہم ضروری دستاویزات رکھیں او ر حسابات میں بھی شفافیت رکھیں۔تو ہم اپنی مرضی کے مطابق نصاب تعلیم متعین کرسکتے ہیں اور نظم بھی اپنی ضرورت کے مطابق بنا سکتے ہیں،البتہ ہمیں قانونی طور پر اپ ڈیٹ رہنا چاہیے۔
اسی طرح ہمارے پاس تعلیمی اداروں سے متعلق ضروری رجسٹر اور فائلیں ہونا چاہئیں،مثلاً طلبہ کا داخلہ رجسٹر،طلبہ کا حاضری رجسٹر،ان کی ٹی سی فائل،اساتذہ کے تقررکی فائل،ان کا حاضری رجسٹر،اسٹاک رجسٹر،وزیٹرس رجسٹر،معائنہ رجسٹر وغیرہ۔اسی طرح ہمارے مدارس میں ایک اچھی لائبریری ہو،اس میں طلبہ کی تعلیمی ضروریات کے پیش نظر کتابیں ہوں،اسی کے ساتھ زندگی کے مختلف موضوعات اور علوم و فنون سے متعلق چنندہ کتابیں ہوں،فن واراندراج رجسٹر ہو،مطالعہ کرنے والوں کے لیے ایشو رجسٹر ہو۔
ٹرسٹ یا سوسائٹی کے بائیلاز کے مطابق ادارہ چلایا جائے،حسب دستور ٹرسٹ یا سوسائٹی کے اراکین کی میٹنگ ہونا چاہئے،پندرہ دن پہلے میٹنگ کا ایجنڈا جاری کیا جائے،میٹنگ کے منٹس تحریر کیے جائیں،اس کی روداد لکھی جائے،فیصلے ضبط تحریر میں لائے جائیں،ان کی توثیق چیر مین سے کرائی جائے،اگلی میٹنگ میں پچھلی میٹنگ میں لیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد کی رپورٹ پیش کی جائے اور مجلس سے توثیقی دستخط لیے جائیں،یعنی سوسائٹی اور ٹرسٹ کے جو اصول و ضوابط ہوں ان کے مطابق ہی انھیں چلایا جائے۔تو ان شاء اللہ بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔
سب سے اہم اور آخری بات یہ ہے کہ ہم طلبہ کو ایک ویژن دیں،انھیں ایک بلند مقصدزندگی دیں،ہمارے طلبہ صرف کتابیں پڑھتے ہیں۔ہم انھیں بتائیں کہ زندگی میں انقلاب کیسے لایاجاتا ہے،سیادت و قیادت کے کیا اوصاف ہیں۔گویا کہ ہم قائد پیدا کریں،آج زیادہ تر مدارس فارغین پیدا کررہے ہیں،ہمیں فارغین کے بجائے علماء وقائدین پیدا کرنا چاہئے تھے۔اگر ہم ایسا کرتے تو علامہ اقبالؒ کو یہ نہ کہنا پڑتا:
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی،نہ محبت،نہ معرفت،نہ نگاہ
ہماری خانقاہیں بھی اور خانقاہی نظام بھی عصرحاضر کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اپنے عقیدت مندوں کی تربیت کا ایسا نظم کرتا کہ وہ معاشرہ کی ضروریات کا ادراک کرتے ہوئے ملت اسلامیہ کی قیادت کرسکتے۔ہم تصوف او ر نظام تزکیہ کے ذریعہ بھی معاشرے میں بڑی تبدیلی لاسکتے ہیں جیسا کہ ہمارے بزرگوں نے اپنے اپنے وقت کے تقاضوں کے پیش نظر بڑی بڑی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔