از:- غلام مصطفےٰ نعیمی ہاشمی
روشن مستقبل دہلی
گذشتہ کئی مہینوں سے اتراکھنڈ میں مدارس کے خلاف سرکاری مہم چل رہی ہے۔اس مہم کے تحت اب تک دو سو سے زائد مدرسے بند کیے جا چکے ہیں۔جس رفتار سے یہ مہم جاری ہے امید ہے دیگر مدرسے بھی جلد ہی تالا بندی کا شکار ہو جائیں گے۔
حکومت کے اس اقدام کے خلاف جمیعۃ علماے ہند نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹ کھٹایا۔درخواست قبول ہوئی، صوبائی گورنمنٹ کو نوٹس بھی جاری ہوا لیکن تا حال مزید شنوائی نہیں ہو سکی جس کے باعث اہل مدارس سخت آزمائش کا شکار ہیں۔
تالا بندی کیوں؟
اتراکھنڈ سمیت پورے بھارت میں چلنے والے مدرسے دو طرح کے ہیں:
1۔مسلمانوں کے زیر انتظام ادارے
2۔حکومتی بورڈ سے منظور شدہ ادارے
جن اداروں کا نصاب و انتظام براہ راست مسلمانوں کے کنٹرول میں ہے انہیں اداروں کو حکومت کی طرف سے اویدھ [अवैध] یعنی غیر قانونی کہا جا رہا ہے۔
حکومتی بورڈ سے منظور شدہ مدارس کی تعداد 460 جب کہ مسلم منتظمہ مدارس کی تعداد لگ بھگ 500 بتائی جاتی ہے۔یہی پانچ سو مدارس حکومتی جانچ کے دائرے میں ہیں۔حکومت کی جانب سے مذکورہ مدارس کے خلاف درج ذیل الزامات عائد کیے جا رہے ہیں:
🔸 طلبہ کا ریکارڈ نہ ہونا۔
🔹آمدنی کے ذرائع کا پتا نہ ہونا۔
🔸آمد وخرچ کی تفصیل نہ ملنا۔
اس کے علاوہ سیاسی نوعیت کے اونے پونے الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں، جو حقیقت کم اور سیاسی پروپیگنڈہ زیادہ ہیں۔جن کا بنیادی مقصد خاص اہداف حاصل کرنا ہے۔اس لیے روہنگیا،بنگلہ دیشی ٹائپ الزام بھی اچھالے جا رہے ہیں۔
الزامات کی حقیقت
مدرسوں میں دو طرح کے طلبہ ہوتے ہیں، ایک وہ جو جز وقتی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ایسے طلبہ ناظرہ قرآن اور دینیات و اردو وغیرہ سیکھتے ہیں۔
دوسرے قسم میں وہ طلبہ ہیں جو کل وقتی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔یہ طلبہ حفظ قرآن، قرأت قرآن اور درس نظامی کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
الزام نمبر ایک کی حقیقت:
تقریباً سبھی مدارس میں دونوں طرح کے طلبہ کا رجسٹر میں اندراج ہوتا ہے۔شاید باید ہی ایسے ادارے ہوں جہاں طلبہ کا ریکارڈ نہ رکھا جاتا ہو۔گذشتہ کچھ وقتوں سے تسلسل کے ساتھ اہل مدارس سارے طلبہ و اساتذہ کا ریکارڈ ایل آئی یو(LIU) کے توسط سے حکومت تک پہنچاتے آ رہے ہیں۔اس لیے یہ کہنا کہ مسلم منتظمہ مدارس میں طلبہ کا ریکارڈ نہیں ہوتا، بے بنیاد الزام ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
الزام نمبر دو کی حقیقت:
مسلم زیر انتظام اداروں کا مالی انحصار مسلمانوں کی امداد اور عوامی چندے پر ہوتا ہے۔رمضان اور دیگر مواقع پر مسلمانوں کی امداد جمع کی جاتی ہے اور اسی سے سال بھر کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔زکاۃ و امداد کی ادائیگی اور وصولی خالص مذہبی نوعیت کی ہوتی ہے اس لیے سبھی اداروں میں باضابطہ چندہ دہندگان کی رسیدیں بنائی جاتی ہیں۔جو امداد مشترکہ طور پر وصول ہوتی ہے اسے بھی اجتماعی چندے کی شکل میں لکھا جاتا ہے۔باضابطہ سارے چندے کا حساب لکھا بھی جاتا ہے اور عوام الناس کے سامنے پیش بھی کیا جاتا ہے۔یہی زکاۃ و امداد مدرسوں کی آمدنی کے بنیادی ذرائع ہیں۔سالوں سے مدارس انہیں ذرائع آمدنی کے سہارے چل رہے ہیں۔یہ پہلو اہل مدارس نے کبھی چھپایا نہ آج اسے پوشیدہ رکھتے ہیں۔بارہا مدرسوں کی آمدنی کی تحقیق و تصدیق کی گئی لیکن ذریعہ آمدنی وہی نکلا جسے ہم نے بیان کیا۔آج بھی حکومت کسی بھی ادارے کا ذریعہ آمدنی چیک کر لے، وہ مسلمانوں کی امداد اور عوامی چندہ ہی نکلے گا۔
الزام نمبر تین کی حقیقت:
حساب و کتاب کی تفصیل نہ ملنے کی بابت اتنا کہنا ہے کہ یہ بات صحیح ہے کہ سبھی مدارس میں آمد و خرچ کے آڈٹ کا نظام نہیں ہوتا، مگر تقریباً سبھی اداروں میں اندرونی سطح پر آمد وخرچ کا سارا حساب و کتاب لکھا جاتا ہے۔حساب و کتاب کے بعد سارا پیسہ بینکوں میں جمع کر دیا جاتا ہے۔اور ماہ بہ ماہ بینکوں ہی سے رقم نکال کر مدارس کی ضرورتوں پر خرچ کی جاتی ہے اس طرح بغیر آڈٹ ہی سہی indirectly آمد و خرچ کی ساری تفصیل حکومت کے علم میں آ ہی جاتی ہے۔آڈٹ سے غفلت بھی کسی چھپاؤ یا خوف کی نہیں بل کہ سماجی مزاج کی بنیاد پر ہے۔چونکہ ہمارے یہاں ابھی تک کاروباری لائن میں بھی صد فیصد آڈٹ کا مزاج نہیں بن پایا ہے تو اہل مدارس ہی پر الزام کیوں؟ پھر یہ مدارس دیہات اور قصبوں تک پھیلے ہوئے ہیں اور قصبات و دیہات میں آڈٹ کا عمومی مزاج نہیں ہے۔اس فکر سے کوئی دکان دار اچھوتا ہے نہ کوئی کاروباری!
اس لیے آڈٹ کے ذریعے آمد و خرچ کی پوری تفصیل براہ راست بھلے ہی حکومت کو نہیں مل پاتی لیکن بالواسطہ ساری تفصیل حکومت تک پہنچا دی جاتی ہے۔پھر چونکہ مسلم منتظمہ ادارے عوامی ادارے ہوتے ہیں، جو براہ راست کسی سرکاری محکمہ سے متعلق نہیں ہیں، اس لیے بھی کسی کے ذہن میں یہ بات نہیں ہے کہ فلاں محکمہ میں سالانہ آمد و خرچ کا حساب جمع کرنا ہے۔اگر حکومت اس ضمن میں کوئی ضابطہ بناتی ہے تو اہل مدارس کو عمل کرنے میں کوئی دقت نہیں ہے۔
مدرسے اویدھ کیوں؟
مسلم منتظمہ کے تحت چلنے والے مدرسوں کو حکومت کی جانب سے اویدھ کَہ کر ان کی سماجی حیثیت کو مشکوک اور داغ دار بنایا جا رہا ہے۔اویدھ کا مطلب غیر قانونی ہوتا ہے، جب کہ مذکورہ مدارس پوری طرح قانونی حق کے تحت قائم ہیں۔دستور ہند کے بنیادی حقوق کی دفعہ (1)30 کے تحت ہر مذہبی کمیونٹی کو اپنی زبان کے مطابق مذہبی تعلیمی ادارے قائم کرنے کا قانونی حق حاصل ہے۔جیسا کہ دستور ہند کے بنیادی حقوق کے تحت لکھا ہے:
"All minorities, whether based on religion or language, shall have the right to establish and administer educational institutions of their choice”
(constitution of India page 14)
"تمام اقلیتوں کو، چاہے وہ مذہب کی بنیاد پر ہوں یا زبان کی بنیاد پر، یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کریں اور ان کا انتظام کریں۔”
اس دفعہ میں صاف صاف لکھا ہے کہ مذہبی اداروں کا "قیام اور انتظام” اقلیتوں کا بنیادی حق ہے۔مسلم آبادیوں میں جتنے بھی مدارس دینیہ قائم اور مُنتَظَم ہیں وہ اسی قانونی حق کی بنیاد پر ہیں۔اس دستوری تحفظ کے باوجود مذہبی اداروں کو اویدھ کہنا کہاں تک درست ہے؟
🔹زیادہ سے زیادہ ان مدرسوں کو حکومتی بورڈ سے غیر منظور شدہ (unrecognized) کہا جا سکتا ہے لیکن غیر قانونی کہنے کا کوئی جواز نہیں نکلتا۔
🔸مسلم منتظمہ مدارس کی تاریخ حکومتی منظور شدہ مدارس سے زیادہ پرانی بھی ہے اور روشن و تابناک بھی ہے۔مثلاً اتراکھنڈ مدرسہ بورڈ 2011 میں قائم ہوا، جس کے قیام کو 14 سال ہوگیے ہیں، جب کہ اتراکھنڈ میں اکثر مدرسوں کی تاریخ کم از کم پچاس یا سو سال پرانی ہے۔تحقیق کی جائے تو عہد مغل کے مدرسے بھی نکل آئیں گے۔جو ادارے صدیوں سے مذہبی تعلیم دیتے آ رہے ہیں، اچانک ہی وہ غیر قانونی کیسے ہو سکتے ہیں؟
🔹اگر ادارے کے انتظام و انصرام میں، رہائش یا عمارت میں کسی طرح کی کوئی خامی ہے، تو اسے درست کرنے کی تاکید و تنبیہ کی جا سکتی ہے، لیکن سیدھا غیر قانونی کہنا ان اداروں کی روشن تاریخ کو نظر انداز کرنا اور قوم مسلم کو ذہنی طور پر ہراساں کرنا ہے۔
🔸جس مدرسہ بورڈ سے منظور شدہ نہ ہونے کی بنیاد پر مدرسے بند کیے جا رہے ہیں اس بورڈ کے نصاب میں سرے سے ناظرہ قرآن، حفظ قرآن، قرأت قرآن وغیرہ شامل ہی نہیں ہیں۔جو چیز بورڈ کے نصاب کا حصہ ہی نہیں ہے آخر بورڈ اس چیز کی منظوری کس طرح دے گا اور اسے کس طرح اپلائی کیا جائے گا؟
🔹مارچ 2025 میں اتراکھنڈ مدرسہ بورڈ کے نائب رجسٹرار عبید اللہ انصاری نے صوبے کے چیف سیکرٹری کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے بڑے واضح لفظوں میں لکھا کہ؛
"دینی تعلیم، مذہبی شکشا حاصل کرنا بھارت کے دستور کے ذریعہ دیا گیا حق ہے…. ایسے اداروں کے خلاف سیل بند کیے جانے کی کاروائی نہ کی جائے”
(خط نمبر 62، 4 مارچ 2025)
اس واضح مطالبہ کے باوجود مسلسل دینی اداروں پر چھاپہ ماری اور تالا بندی کا ایکشن جاری ہے۔یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ بورڈ رجسٹرار تک کی بات کیوں نہیں مانی جا رہی ہے؟
افسوس!
دستوری تحفظ، صدیوں پرانی تاریخ اور بورڈ رجسٹرار کی وضاحت کے باوجود مدارس کے خلاف تالا بندی کی مہم بلا روک ٹوک جاری ہے۔یہ رویہ بے حد پریشان کن اور مسلمانوں کو سماجی اعتبار سے مشکوک اور کمزور کرنے والا ہے۔اور حال فی الحال اس پریشانی دور ہونے کے آثار بھی نظر نہیں آ رہے ہیں۔