از:- محمد سالم سَرَیَّانوی
اسلام دین فطرت ہے، اللہ تبارک وتعالی نے اس دین میں ان تمام چیزوں کو تفصیلی یا اجمالی طور پر بیان کردیا جن کی ضرورت مسلمانوں کو دنیامیں ہو سکتی ہے، زندگی کے شب ورزو سے متعلق رہنما ہدایات موجود ہیں، جن پر عمل کرکے خدا ورسول کی خوشنودی حاصل کی جا سکتی ہے اور دونوں جہان کی زندگیوں کو سنوارا جا سکتا ہے
موجودہ دور میں ہمارا مسلم معاشرہ بہت حد تک برائیوں اور خرابیوں کا آماجگاہ بنا ہوا ہے، ہر طرح کے جرائم اور گناہ پائے جاتے ہیں، جب کہ ان جرائم، گناہوں اور برائیوں پر شریعت کی جانب سے قدغن لگائی جا چکی ہے، مگرہماری بے حسی، نوجوانوں کی لاپرواہی اور بے دینی نے سب کچھ معاشرے میں فروغ دے رکھا ہے۔
آج کل ایک بڑی برائی جو بہت سی برائیوں کی جڑ اور بنیاد ہے نہایت تیزی سے ہمارے معاشرے میں سرایت کر رہی ہے اور مسلسل استحکام پیدا کر رہی ہے جس کا عنوان میں نے *’’نئی نسل میں ناجائز تعلقات کا رجحان‘‘* سے دیا ہے، سچ یہ ہے کہ اب کے نوجوانوں کا ایک طبقہ اس کو برائی سمجھنے کے بجائے فیشن سمجھنے لگا ہے، اسے لگتا ہے کہ یہ ہمارے کرنے کا کام ہے اور نہایت دل چسپی سے اس میں توجہ لیتا ہے، بہت سے نوجوان آج کل وبائی طور سے اس کے شکار ہیں اور ہو رہے ہیں، اس عمل میں صرف لڑکے ہی شامل نہیں ہیں؛ بل کہ لڑکیاں بھی شامل ہیں۔
آج بہت سے قریب البلوغ بچوں اور کچی عمر کے نوجوانوں میں لڑکیوں سے ناجائز تعلقات کا رجحان نہایت ہی تیزی سے فروغ پا رہا ہے، معاشرہ پر نظر ڈالیں گے تو صورت حال ایسی ملے گی کہ کوئی کسی لڑکی سے پیار کر رہا ہوگا، کوئی دوستی نباہ رہا ہوگا، کوئی اپنے جذبات کے مطابق زندگی ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہوگا،… اتنا ہی نہیں؛ بل کہ یہ رجحان اور غلط اقدام لڑکوں کی طرح لڑکیوں میں بھی بہت زیادہ پایا جارہا ہے، ان کے یہاں بھی لڑکوں سے تعلقات بنانا، بات چیت کرنا اور گپ شپ کرنا عام سی بات ہوتی جا رہی ہے، ’’گرل فرینڈ‘‘ اور ’’بوائے فرینڈ‘‘ کی وبا کسی زمانے میں صرف مغرب تک محدود تھی مگر اب یہ مشرق میں ہر ایک کے دروازے پر دستک دے رہی ہے، موبائل اور انٹر نیٹ نے اس کے لیے جو سہولت اور آسانیاں فراہم کردی ہیں ان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
اسلام نے بے حیائی پر سخت قسم کی پابندی لگائی ہے، حیا اور شرم کو فروغ دیا ہے، صرف بے حیائی ہی نہیں ؛ بل کہ بے حیائی کے اسباب بننے والے امور کو بھی ممنوع قرار دیا ہے اور ان پر سرزنش بھی کی ہے، اس سلسلے میں قرآن کریم کی متعدد آیات موجود ہیں، احادیث طیبہ میں بھی اس کا کافی تذکرہ ہے، لیکن ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم نے قرآن وحدیث سے اپنے تعلق کو کمزور کر لیا ہے یا ختم کرلیا ہے، جس کی وجہ سے آج برائیوں کے دلدل میں پھنسے ہیں اور پھنستے جا رہے ہیں۔
جب سے موبائل اور انٹرنیٹ کا زمانہ آیا؛ بالخصوص (5G) کی سہولت ملی اور انٹرنیٹ کے مواد تک تیز ترین رسائی کے اسباب پیدا ہوئے، تب سے بہت سے لوگوں نے علمی، دینی، معاشی اور دنیاوی اعتبار سے بہت سے منافع حاصل کیے اور اب بھی کر رہے ہیں، لیکن وہیں پر بے حیائی کے فروغ میں اس کا کردار بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، یوں کہہ لیں کہ اس سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد کم ہے، جب کہ غلط استعمال کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے، ہمارے مسلم معاشرے میں ایک سرسری جائزے کے مطابق غلط استعمال ہی نوجوانوں میں رائج ہے۔
فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام، اسنیپ چیٹ اور نہ جانے کون کون سے ایپ ہیں جنہوں نے تعلقات پیدا کرنے میں آسانیاں فراہم کر رکھی ہیں، یہ صرف تعلقات کی بات نہیں ہے؛ بل کہ یہ تعلقات آہستہ آہستہ جنسی بات چیت، جنسی مواد کی ترسیل اور پھر لائیو طور پر جنسیات کا تبادلہ کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہیں، یہاں تک کہ معاملہ ’’زنا‘‘ جیسے سنگین اور خطرناک جرم تک پہنچتا ہے، بعض ایسے بھی واقعات سننے میں آئے ہیں کہ ابتدائی تعلقات کے لیے بھائی نے بہن کا سہارا لیا ہے۔
اس نازک صورت حال کے جائزہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج مسلم معاشرہ کس رخ پر چل پڑا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس پر ابھی سے غور کرکے کام کیا جائے اور مثبت ومفید طریقوں کو بروئے کار لاکر نسل نو کو تباہی سے بچایا جائے۔
ناجائز تعلقات قرآن وحدیث کی روشنی میں
قرآن وحدیث میں غیر محرم سے تعلقات بنانے، غیر ضروری بات چیت کرنے، خلوت نشینی اختیار کرنے، دوستی کرنے اور غلط کام کرنے پر تنبیہات ارشاد فرمائی گئی ہیں اور مختلف طرح سے منع کیا گیا ہے، ان کو تفصیلی طور پر ذکر کیا جائے تو کس کوپڑھنے کے لیے وقت اور فرصت ہے؛ اس لیے حسب ضرورت چند ایک پر اکتفا کرکے اسباب وحل پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی، حالاں کہ یہ عنوان اس بات کا متقاضی ہے کہ تفصیل سے گفتگو کی جائے اور اس کے مختلف پہلؤوں پر روشنی ڈالی جائے۔
مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ وَلَا مُتَّخِذِیْ اَخْدَانٍ۔ (سورۃ المائدۃ:۵)
’’(وہ مرد) پاکدامنی اختیار کرنے والے ہوں، آزانہ طور پر شہوت رانی کرنے والے نہ ہوں اور نہ ہی چھپے طور سے آشنائیاں کرنے والے ہوں‘‘۔
مُحْصَنَاتٍ غَیْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ اَخْدَان۔ (سورۃ النساء:۲۵)
’’(وہ عورتیں) نکاح کے ذریعہ پاکدامن بنائی جائیں، آزادانہ طور پر شہوت رانی کرنے والی نہ ہوں اور نہ ہی خفیہ طور پر ناجائز آشنائیاں کرنے والی ہوں‘‘۔
یہ دونوں آیتیں مرد وعورت ہر ایک کو اس بات پر آمادہ کرتی ہیں کہ نکاح کا مقصد عفت وپاکدامنی حاصل کرنا ہو، ان دونوں کا مزاج بھی پاکدامنی والا ہو، کھلے طور پر غیر شرعی طریقہ سے شہوت پوری کرنے سے بچنے والے ہوں، اسی کے ساتھ چھپ کر اور خفیہ طور سے دوسروں سے دوستی اور تعلقات نبھانے والے نہ ہوں۔ آیت کے آخری ٹکڑے میں صاف طور سے چھپے اور خفیہ طور سے آشنائی کرنے اور دوستی نبھانے پر تنبیہ کی گئی ہے۔
یَا نِسَآئَ النَّبِیِّْ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِنَ النِّسَآئِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوْفًا۔ (سورۃ الأحزاب:۳۲)
’’اے نبی کی بیویو! اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، لہٰذا تم نرمی کے ساتھ بات نہ کیا کرو، کبھی کوئی ایسا شخص بیجا لالچ کرنے لگے جس کے دل میں بیماری ہو اور وہ بات کہو جو بھلائی والی ہو‘‘۔
گرچہ یہ آیت خاص طور سے زواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے بارے میں ہے لیکن حکم عام ہے، اس میں اجنبی مردوں سے بات چیت کرنے میں لچک اور نرمی اختیار کرنے سے صاف طور پر منع کیا گیا ہے؛ کیوں کہ اس کا نقصان بڑا ہے، نرمی اور لطافت کی وجہ سے دل میں محبت اور تعلقات کی حرص جاگنے لگے گی اور پھر بے حیائی اور غلط تعلقات پیدا ہو جائیں گے۔
ان آیات کے علاوہ سورہ نور کی آیت نمبر ۳۱-۳۲؍ میں اللہ تبارک وتعالی نے مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم دیا ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، ایسا کرنا سب کے لیے بہتر ہے۔
عن ابن عباس رضي اﷲ عنہما عن النبيﷺ قال: ’’لا یخلون رجل بامرأۃ ولا تسافرن امرأۃ إلا ومعہا محرم‘‘۔ (رواہ البخاري:۱؍۴۲۱، کتاب الجہاد، باب من اکتتب في جیش الخ، مکتبہ زکریا دیوبند)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تنہائی میں ہرگز کوئی مرد کسی عورت کے پاس نہ جائے اور نہ ہی تنہا کوئی عورت سفر کرے، الا یہ کہ کوئی محرم مرد اس کے ساتھ ہو‘‘۔
دوسری روایت میں ہے کہ جب کوئی مرد تنہائی میں عورت سے ملتا ہے تو ان کا تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ اب جب تیسرا شیطان ہوگا تو ظاہر ہے کہ وہ گناہ کی طرف ہی لے جائے گا اور بے حیائی کو فروغ دینے کی کوشش کرے گا۔
عن عمر رضي اﷲ عنہ عن رسول اﷲﷺ قال: ’’ألا لا یخلون رجل بامرأۃ إلا کان ثالثہما الشیطان‘‘۔ (رواہ الترمذي:۲؍۳۹، أبواب الفتن، باب في لزوم الجماعۃ، مکتبہ زکریا دیوبند)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں کہ ’’سنو! ہرگز کوئی مرد کسی عورت سے تنہائی میں نہ ملے، اگر وہ ملتا ہے تو ان کا تیسرا شیطان ہوتا ہے‘‘۔
شریعت میں اجنبی اور غیر محرم عورتوں سے ملاقات کی صاف لفظوں میں ممانعت کی گئی ہے، یہاں تک کہ ایک حدیث میں ’’دیور‘‘ سے بھی ملنے کی ممانعت ہے؛ کیوں کہ وہ بھی اجنبی ہے، جب کہ مشترکہ خاندانی نظام میں دیور سے سامنا ہونا عام سی بات ہے اور رشتہ میں ہونے کی وجہ سے بسا اوقات خدشات کا امکان کم ہو سکتا ہے، مگر پھر بھی آ نے سے منع فرمایا گیا اور ارشاد فرمایا گیا کہ ’’دیور‘‘ تو موت ہے، یعنی اس سے ہر حال میں بچنا لازم ہے، جیسے موت کو ناپسند کیا جاتا ہے ایسے ہی دیور سے ملنے کو ناپسند کرنا چاہیے۔
عن عقبۃ بن عامر رضي اﷲ عنہ أن رسول اﷲﷺ قال: إیاکم والدخول علی النساء، فقال رجل من الأنصار: یا رسول اﷲ! أفرأیت الحمو؟ قال: الحمو الموت۔ (رواہ البخاري:۲/۷۸۷، کتاب النکاح، باب لا یخلون رجل بامرأۃ، مکتبہ زکریا دیوبند)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم عورتوں کے پاس (تنہائی میں) جانے سے بچو، اس پر ایک انصاری صحابی نے عرض کیا کہ ’’دیور‘‘ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ دیور تو موت ہے۔
اس حدیث میں صراحت کے ساتھ ’’حمو‘‘ کا لفظ ہے، جس کے معنی شوہر کے بھائی یعنی ’’دیور‘‘ کے آتے ہیں، لیکن اس میں دوسرے رشتہ دار بھی داخل ہیں جو غیر محرم اور اجنبی ہیں، ان سے بھی عورت کے لیے احتیاط لازم ہے۔ اسی طرح ایسے افراد کے لیے لازم ہے کہ وہ غیر محرم عورتوں سے دوری اور احتیاط رکھیں۔
مسلم شریف میں اس روایت کے بعد ہے کہ حضرت لیث بن سعد سے نقل کیا گیا کہ انھوں نے فرمایا کہ ’’حمو‘‘ شوہر کا بھائی اور شوہر کے دیگر رشتہ دار جیسے چچا زاد بھائی وغیرہ ہیں۔
عن ابن وہب قال: سمعت اللیث بن سعد یقول: الحمو أخو الزوج وما أشبہہ من أقارب الزوج ابن العم ونحوہ۔ (مسلم:۲/۲۱۶، کتاب السلام، باب تحریم الخلوۃ بالأجنبیۃ والدخول علیہا، مکتبہ زکریا دیوبند)
اسباب کا تجزیہ اور حل
جیسا کہ اوپر لکھا گیا کہ یہ وبا اور فیشن لڑکوں اور لڑکیوں دونوں میں ہے، صرف معاملہ ایک طرف سے نہیں ہے، اس لیے اس کے اسباب مجموعی حیثیت سے کئی ایک ہو سکتے ہیں، اگر ان اسباب کا تدارک کر لیا جائے تو اس بلا پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ذیل میں اختصار کے ساتھ اسباب اور حل پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔
-
(1) بے دینی کا مزاج:
ایک مسلمان قرآن وحدیث اور خدا ورسول کے حکم کا پابند ہوتا ہے، وہ جانوروں کی طرح آزاد نہیں ہوتا ہے؛ بل کہ اس کی زندگی کا ہر شعبہ دین کے تابع ہوتا ہے، مگر اب یہ صورت حال عام مسلمانوں سے نکلتی جارہی ہے؛ جس کا نتیجہ بے دینی کی صورت میں ظاہر ہے، جس کو جو سمجھ میں آئے وہ کر لیتا ہے، نہ اس بات کی پرواہ ہوتی ہے کہ خدا کا حکم کیا ہے اور رسول کی سنت کیا ہے؟ آیا اس کا کرنا درست ہے یا پھر ناجائز ہے، یہ مزاج نئی نسل میں تیزی سے بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ سے بے دینی عام ہے۔
اس کا حل یہی ہے کہ ہر سطح پر دینی مزاج کو عام کرنے کی کوشش کی جائے، یہ بتایا کہ مسلمان خدا ورسول کے حکموں کا پابند ہوتا ہے، اس کے لیے چھوٹے بڑے پروگراموں کا انعقاد کیا جائے، مساجد کو دینی تربیت کی جگہ کے طور پر استعمال کیا جائے، گھروں میں خواتین کی تربیتی نشستیں ہوں، بچوں کو بھی ساتھ بیٹھایا جائے اور ہر ممکن طور پر دینی مزاج کے فروغ کی کوشش کی جائے، اگر اس طرح دینی مزاج کو فروغ دے دیا جائے تو اس سبب کا تدارک کیا جا سکتا ہے؛ کیوں ایسی صورت میں ہر مسلمان کوئی بھی کام کرنے سے پہلے یہ دیکھے گا کہ خدا ورسول کا کیا حکم ہے؟ اور پھر گناہوں سے بچنا آسان ہوگا، یہی مزاج حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا تھا۔
-
(2) والدین کی بے توجہی:
اس بے راہ روی کا ایک بڑا سبب والدین کی بے توجہی اور ان کی غفلت ہے، والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد کو تعلیم دیں، ان کو ادب سکھائیں اور ان کی دینی تربیت کریں۔ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ والد کا سب سے بہترین تحفہ اولاد کے لیے ’’حسن ادب‘‘ ہے۔ (ترمذی شریف) اگر والدین اس معاملے میں کوتاہ ہوں گے تو اولاد کی دینی تربیت کیسے ہوگی؟ پھر ان میں غلط عادتیں بہت جلدی جڑ پکڑ لیں گی، جن کی وجہ سے اولاد دینی اصولوں سے منحرف ہو جائے گی۔ آج کل اولاد کی بے راہ روی کے اسباب میں یہ بہت اہم سبب ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد پر نظر رکھیں، ان کو تعلیم کے ساتھ دینی تربیت دیں، اچھی باتیں سکھائیں اور غلط باتوں سے بچانے کی کوشش کریں۔قرآن کریم کی سورہ تحریم کے اندر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ خود کو اور اپنی اولاد کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ یعنی خود بھی اچھے اعمال کرو اور اپنی اولاد سے بھی کراؤ، خود بھی گناہ سے بچو اور ان کو بھی بچاؤ، جب والدین میں فکر ہوگی تو اس کا مثبت اثر اولاد پر پڑے گا۔
-
(3) آزادانہ تعلیمی نظام:
اس بے راہ روی کا ایک بڑا سبب آزادانہ تعلیمی نظام ہے، چاہے وہ مخلوط نظام ہو یا غیر مخلوط ہو، آج تعلیم کے نام پر اولاد کو آزاد کرنے کا مزاج عام ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے ان کے اندر مذہب سے بھی آزادی پیدا ہونے لگتی ہے، وہ دینی ماحول ومعاشرہ سے الگ ہونے لگتے ہیں اور پھر ان سب خرافات میں لگ کر غلط رخ پر چلنے لگتے ہیں۔آج ایسے واقعات معاشرے میں سننے میں آتے ہیں کہ اولاد نے تعلیم کے نام پر دینی اصولوں کو کنارے لگا دیا، اسے اب نہ شریعت سے مطلب ہے اور نہ خدا ورسول کے حکم سے، وہ بس نفس کا پجاری بن گیا ہے اور کواہش نفس کے مطابق ہی سارا کام کر رہا ہے۔
اس کا حل یہ ہے اولاد کو تعلیم دی جائے مگر ان کی فکر رکھی جائے، ان کو تعلیم کے نام پر آزاد نہ کیا جائے اور ان کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے، اگر کچھ غلط اور نامناسب لگے تو اچھے انداز سے تنبیہ کی جائے اور ان کو روکنے کی کوشش کی جائے۔
(4) موبائل اور انٹر نیٹ کا غلط استعمال:
آج موبائل اور انٹرنیٹ کا استعمال عام ہے، ہر کسی کے ہاتھ میں موبائل ہے، موبائل گرچہ بذات خود غلط نہیں ہے؛ مگر اس میں فحش مواد، غلط ترسیلات اور بے حیائی پر مشتمل امور کی کثرت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے استعمال کرنے والا خود کو آسانی سے بچا نہیں پاتا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اولاد کی پروش غلط ماحول اور بے دینی والے مزاج میں ہونے لگتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہی غلط چیزیں عادت بن جاتی ہیں، جن سے بچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
حل یہ ہے کہ اولاد کو بتایا جائے کہ موبائل اور انٹرنیٹ ضرورت اور فائدے کے لیے ہے، ان کو صرف اچھے مقاصد میں استعمال کیا جائے، اولاد کو بتایا جائے کہ اس میں اتنا زیادہ مصروف ہونا جس سے وقت اور صحت برباد ہونے لگے غلط ہے، اسی طرح ان کے موبائل اور انٹرنیٹ کی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے رہنا بھی چاہئے اور کوشش کرنا چاہیے کہ وہ غلط رخ پر موبائل کا استعمال کرنے سے بچیں۔ آج کل موبائل میں ایسے ایپ آتے ہیں جن کے ذریعہ اولاد کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جا سکتا ہے اور بعض سیٹنگوں کے ذریعہ غلط مواد تک پہنچنے سے ان کو روکا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ اور بھی کچھ اسباب ہو سکتے ہیں، مگر یہ اسباب عمومی اور صورت حال کو سمیٹے ہوئے ہیں، یہاں اسباب کے ساتھ حل بھی اس امید پر پیش کیا گیا ہے کہ ہم اس نہج اور رخ پر کام کرنے کی کوشش کریں اور معاشرے کو ایک بہترین صالح معاشرہ میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(5/ صفر 1447ھ مطابق 1/ اگست 2025ء جمعہ)