از:- ڈاکٹر سلیم انصاری
جھاپا، نیپال
جنریشن زی (Gen Z) موومنٹ کے بعد جب عبوری حکومت کی تشکیل عمل میں آئی، تو ایک بار پھر مسلمانوں کو کابینہ سے باہر رکھا گیا۔ یہ صورتحال نیپالی مسلمانوں میں مایوسی اور بے اطمینانی کا باعث بنی ہے۔ سوشل میڈیا اور کمیونٹی فورمز پر اس وقت مسلم نمائندگی اور حکومتی شمولیت کے سوال پر زوردار بحث جاری ہے۔ نوجوان قیادت اور تعلیم یافتہ طبقے میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ سیاسی عمل میں مسلمانوں کو ان کے جائز حصے سے محروم رکھا جا رہا ہے — اور یہ بیداری یقیناً خوش آئند ہے۔ مگر ضروری ہے کہ ہم صرف جذباتی ردِعمل پر نہ رہیں بلکہ زمینی حقیقتوں کو سمجھ کر عملی راستہ طے کریں: کیا فی الوقت وہ حالات واقعی براہِ راست وزارت یا کابینہ کی سطح تک رسائی کے لیے سازگار ہیں؟
نیپال کا آئینی اور سیاسی ڈھانچہ شمولیت (Inclusion) اور تناسبی نمائندگی (Proportional Representation) کے اصول پر مبنی ہے۔ اسی بنیاد پر مختلف کمیشنز، کوٹہ سسٹم اور پالیسی دفعات آئین میں شامل کی گئی ہیں۔ 2021 کی مردم شماری کے مطابق نیپال میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً پانچ فیصد ہے، جو ایک قابلِ ذکر مگر اقلیتی تناسب ہے۔
تاہم عملی سیاست میں شمولیت کا عمل اتنا سادہ نہیں۔ حالیہ کابینہ سازیوں اور عبوری حکومتوں پر مسلسل یہ تنقید رہی ہے کہ وہ شمولیت کے آئینی معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ بعض اوقات مسلم نمائندگی یا تو نظرانداز کر دی جاتی ہے یا محض رسمی حیثیت تک محدود رہتی ہے۔ یہی احساسِ محرومی برادری میں بڑھتی ہوئی بے چینی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ مسلم کمیشن نے بھی بارہا اپنی سفارشات حکومت کے سامنے رکھی ہیں، مگر ان پر خاطر خواہ پیش رفت نظر نہیں آئی۔
زمینی حقیقت یہ ہے کہ جب تک بڑی سیاسی پارٹیاں مسلم ووٹ بینک اور مقامی سیاست کو سنجیدگی سے نہیں سمجھتیں، محض "وزارت کا مطالبہ” ایک وقتی نعرہ بن کر رہ جائے گا۔ مسلم آبادی زیادہ تر مخصوص اضلاع اور ترائی کے علاقوں میں مرکوز ہے، اس لیے قومی سطح پر اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے دانشمندانہ حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں نیپال کے مسلمان کیا کر سکتے ہیں؟ یہ ایک اہم اور حقیقت پسندانہ سوال ہے، جس کا جواب صرف نعرے بازی سے نہیں بلکہ سوچے سمجھے عملی اقدامات سے دیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے چند بنیادی نکات غور طلب ہیں جن پر اجتماعی طور پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
سب سے پہلے، مذہب کی بنیاد پر ووٹ اور ساکھ بنانے کے بجائے وسیع سیاسی سمجھ اپنائی جائے۔ محض مذہبی شناخت کے نام پر امیدوار یا قیادت تلاش کرنے سے سیاسی اتحاد کمزور ہوتے ہیں۔ قومی سیاست میں مضبوط مقام حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے امیدوار اور پلیٹ فارم کو ترجیح دی جائے جو انصاف، مساوات اور قومی مفاد کے اصول پر کھڑے ہوں۔ اس سے مسلمان برادری کا کردار محدود مذہبی شناخت سے نکل کر ایک بااثر قومی شراکت دار کے طور پر ابھرے گا۔
دوسرا، براہِ راست الیکشن کے بجائے متبادل نمائندگی کے راستوں کا استعمال کیا جائے۔ بعض اوقات ہر حلقے سے انتخاب لڑنا ممکن یا مؤثر نہیں ہوتا۔ ایسے میں پارلیمانی فہرستیں (PR System)، کمیشنز، سرکاری ادارے اور خدمات کے شعبے بہترین متبادل ہیں جہاں سے نمائندگی حاصل کر کے اثر قائم کیا جا سکتا ہے۔ یہ راستے آئینی طور پر محفوظ اور دیرپا ہیں، اس لیے ان پر توجہ دینا زیادہ مفید ہوگا۔
تیسرا، سیکولر اور غیر مسلم رہنماؤں کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے جائیں۔ مسلمانوں کے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے وسیع النظر اور انصاف پسند رہنماؤں سے تعلقات قائم کریں جو مذہبی تقسیم کے بجائے قومی شمولیت پر یقین رکھتے ہوں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اقلیتوں نے ہمیشہ اتحاد، مکالمے اور مفاہمت کے ذریعے اپنے حقوق بہتر انداز میں حاصل کیے ہیں۔
چوتھا، مقامی سطح سے بنیاد مضبوط کی جائے۔ پالیکا (Palika)، ضلعی کونسلوں اور مقامی حکومتوں میں نمائندگی بڑھانا وقت کی ضرورت ہے۔ یہی وہ میدان ہے جہاں سے سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پڑتی ہے اور بعد میں یہی نمائندے قومی سطح تک پہنچ کر بڑی تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔
آخر میں، آئینی و قانونی اداروں میں سرگرم کردار ادا کیا جائے۔ مسلم کمیشن، انسانی حقوق کمیشن، اور دیگر سرکاری یا نیم سرکاری اداروں میں فعال شمولیت سے اپنی سفارشات اور مطالبات منظم انداز میں حکومت تک پہنچائے جا سکتے ہیں۔ یہ راستہ احتجاجی شور سے کہیں زیادہ پائیدار اور مؤثر ثابت ہوتا ہے۔
یوں اگر نیپال کے مسلمان ان پہلوؤں کو عملی حکمتِ عملی میں ڈھال لیں تو نمائندگی کے دروازے خود بخود کھلنا شروع ہو جائیں گے۔
آخر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ شور اور احتجاج کے بجائے حکمت و تدبیر زیادہ اثر رکھتی ہے۔ وزارتوں میں شمولیت، حکومتی پالیسیوں میں کردار، اور فیصلہ سازی کے عمل میں نمائندگی — یہ سب جائز مطالبات ہیں، مگر انہیں مرحلہ وار اور حقیقت پسندانہ حکمتِ عملی کے ساتھ پیش کرنا ہوگا۔ جب نیپال کے مسلمان اپنی موجودگی کو منظم، پُرعزم اور حکمتِ عملی کے ساتھ ظاہر کریں گے تو کابینہ اور وزارت میں شمولیت کا راستہ خود بخود ہموار ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بصیرت، صبر، اور دانائی عطا کرے تاکہ ہم اپنی برادری کے سیاسی و سماجی مستقبل کو مثبت انداز میں تعمیر کر سکیں۔