سنبھل تا بریلی :کیا یہ کوئی تجربہ ہے

از:- ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی

گذشتہ دنوں عید میلادالنبی کے موقع پر کانپور سے شروع ہوا ناموس رسالت کا معاملہ پورے ملک میں ہیجان کا سبب بنا ہوا ہے ۔مختلف صوبوں میں جگہ جگہ جمعہ کی نمازوں میں اور اس کے علاوہ بھی جلوس، مظاہروں اور احتجاج وغیرہ کا سلسلہ جاری ہے ۔جواب میں ہندوتو اوادی طاقتوں نے بھی مختلف انداز سے ایک تحریک شروع کر دی اور معاملہ فرقہ وارانہ تقسیم تک پہنچ گیا۔ سڑکوں پر جاری مظاہروں کے ساتھ سوشل میڈیا میں نفرت انگیز پروپیگنڈے کا سیلاب امنڈ آیا ہے۔سیاسی اور سماجی طبقات میں بھی بحث ہو رہی ہے کہ کیا اہم مذہبی شخصیات سے عقیدت کا اظہار ملک میں جرم بن گیا ہے یا یہ کسی سیاسی تحریک کا حصہ بھی ہو سکتا ہے؟ اسی دوران بریلی کے مشہور و معروف دینی ،سماجی اور سیاسی رہنما مولانا توقیر رضا صاحب نے بھی ایک بڑے عوامی مظاہرے کی کال دے دی اور گزشتہ جمعے کو نماز کے بعد کچھ شر پسند عناصر نے ڈی ایم کو میمورنڈم سونپنے کے لیے جانے والی بھیڑ اور پولیس پر پتھراؤ شروع کر کے پورے علاقے میں بدامنی پھیلا دی ۔ مولانا توقیر رضا صاحب کے ساتھ ان کے کئی ساتھی اور دیگر لوگ بھی مختلف دفعات کے تحت جیل رسید کر دیے گئے ۔ یوگی حکومت کی پہچان بن چکے بل ڈوزر نے مولانا کے بہت سے رفقاء کے مکانات اور تجارتی اداروں کو آنا فانا مسمار کر دیا اور اب پورے بریلی شہر کے مسلمان خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔

اس سے قبل گزشتہ سال سنبھل میں بھی تقریبا اسی انداز سے بدمنی کا آغاز ہوا کچھ دائیں بازو کی ہندوتوا تنظیموں نے اچانک ضلعی عدالت میں سینکڑوں سال پرانی جامع مسجد سنبھل کے سروے کا دعوی کیا اور فورا سے بیشتر وہ درخواست قبول کر کے اگلی صبح منہ سویرے ہی سروے کا آغاز بھی ہو گیا ۔ظاہر ہے کہ یہ ایک حیرت انگیز عمل تو ہے ہی، عموما ہماری چھوٹی بڑی عدالتوں میں اتنی تیز کاروائی کسی بھی کیس میں نہیں ہوتی کہ چند گھنٹے کے اندر ایک درخواست داخل بھی ہو، اس پر حکم بھی نافذ کر دیا جائے اور اگلےچند گھنٹوں میں ہی اس حکم پر عمل درآمد بھی ہو جائے، وہ بھی ایک قدیم اور تاریخی عبادت کے تنازع میں ! جبکہ عام طور پر عبادت گاہوں اور مذہبی مقامات کے سلسلے میں مقامی انتظامیہ اور عدالتیں محتاط رویہ اختیار کرتی ہیں ۔ ایسے میں ایک اچانک فیصلے سے حیرت زدہ ہو جانا اور سڑکوں پہ ا ٓجانا بھی ایک فطری رد عمل تھا۔ پولیس اور مقامی انتظامیہ اس صورت حال سے بخوبی واقف ہوگی ۔ چنانچہ سنبھل میں وہ فساد ہوا جس کی امید وہاں کی پولیس کو بھی یقینا رہی ہوگی اور اس سے نمٹنے کی منصوبہ بندی بھی کی گئی ہوگی۔ سینکڑوں مسلمان گرفتار ہوئے، درجنوں مکانات مسمار ہوئے ، قریب کی دیگر عبادت گاہیں بھی مسمار ہوئیں ،مقامی ایم اورایم ایل اے پر بھی مقدمات درج ہوئے اور بڑی تعداد میں خوفزدہ مسلمانوں کو ہجرت بھی کرنی پڑی ۔کاروبار متاثر ہوئے اور نہ صرف ملک بلکہ ساری دنیا میں سنبھل فرقہ ورانہ منافرت کا استعارہ بن گیا۔ کچھ اسی انداز سے اب بریلی میں بھی ہو رہا ہے۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ دو سال قبل رام پور اسمبلی حلقے کے ضمنی انتخاب کے وقت بھی بڑی تعداد میں مقامی پولیس انتظامیہ نے بہت سخت رویہ اختیار کیا تھا اور بڑی تعداد میں وہاں کی مسلمانوں کو خوفزدہ کر کے ووٹ ڈالنے سے روک دیا گیا تھا چنانچہ اس انتخاب میں بہت کم تعداد میں پولنگ ہوئی اور بی جے پی نے آسانی سے وہ انتخاب جیت لیا ۔رام پور کے لوگ آج بھی اس دہشت کو یاد رکھتے ہیں۔

مذکورہ بالا تین مثالیں گذشتہ ۱۱ سال سے ملک میں جاری فرقہ ورانہ منافرت کی تازہ مثالیں ہیں۔ وگرنہ اس قسم کی ہزاروں دیگر مثالیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں جو اس اثنا میں پیش آتی رہی ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ اتفاقی طور پر ہو رہا ہے یا کسی منصوبہ بند سازش کا نتیجہ ہے۔

ملک میں ار ایس ایس کے 100 سالہ جشن کا سلسلہ جاری ہے ۔ اتفاقا تنظیم کی سیاسی شاخ بی جے پی اس وقت ملک میں حکمرانی کے منصب پر فائز ہے۔ اس صدی میں یہ پہلا موقع ہے کہ ۲۰۱۴ میں سنگھ کی پاررٹی کومکمل اکثریت کے ساتھ حکومت سازی کا موقع ملا ۔گو کہ 2024 میں 10 سالہ اکثریت کے بعد ایک بار پھر اس جماعت کو اقلیتی سرکار بنانے پر مجبور ہونا پڑا ۔لیکن اس دوران ملک کے سواد اعظم کو بھرپور طریقے سے ایک پیغام دے دیا گیا کہ ار ایس ایس کا نظریہ بھارت کی تقدیر بن چکا ہے۔ 800 سال کی غلامی کے بعد ایک بار پھر ہندو آزاد ہو کر حکمران بن چکا ہے ۔1925 میں ٓار ایس ایس کی تشکیل اسی نظریے کے تحت ہوئی تھی جو اب اپنے نظریے کو کامیاب سمجھتی ہے ۔چنانچہ ملک کے دیگر طبقات خصوصا مسلمانوں کو یہ تاثر دینے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ اب حکمران نہیں بلکہ ایک مغلوب امت بن چکے ہیں ۔ہر چند کے سنگھ کے نظریہ ساز اپنی عوامی تقریروں میں یہ اظہار کرتے رہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو بھی ملک میں برابر کا شہری سمجھتے ہیں اور سب کے مشترکہ تعاون سے بھارتی قوم کی ترقی کے خواہاں ہیں لیکن اس کے ساتھ کچھ شرائط بھی عائد کی جاتی ہیں ،مثلا مسلمان یہ تسلیم کریں کہ ہندوستان کا مسلم حکمرانی کا زمانہ غلامی کا زمانہ تھا اور یہ حکمران دراصل حملہ اور تھے جنہوں نے مقامی آبادی کو ہزار سال تک غلام بنا کے رکھا ۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اس زمانے کے حکمرانوں سے اظہار برات کریں اور ان پر ندامت کا اظہار کریں ،ان کے ذریعے بنائی گئی عبادت گاہوں اور اداروں کو متنازع سمجھیں ، ان سب کو برضا ورغبت ہندوتو اودیوں کے حوالے کر دیں ورنہ اب زبردستی بھی ان کو چھینا جا سکتا ہے۔ نیز یہ کہ وہ فلاح و بہبود کے لیے الگ سے کسی سرکاری سکیم کا مطالبہ نہ کریں بلکہ جاری سکیموں کے تحت ہی جتنا مل جائے اس پر صبر کریں، اسلام کو محض ایک مجموعہ عبادات سمجھیں اور گھر بیٹھ کر ان عبادات کو انجام دیں، اسلام کو بحیثیت نظریہ ماننا چھوڑ دیں اور امت کی حیثیت سے دیگر ممالک کے مسلمانوں کے معاملات میں کوئی رول انجام نہ دیں ۔یہ اور اس طرح کے دیگر بہت سی شرائط سنگھ پریوار کی مختلف ذیلی تنظیموں کی جانب سے عائد کی جاتی رہی ہیں ۔ساتھ ہی خواہش یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے ارباب حل و عقد سنگھ کی قیادت کے ساتھ ہندو مسلم تعلقات کے مستقبل پر گفت و شنید بھی کریں ۔مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ جو طبقات ملک میں ایک ہزار سال سے ساتھ مل جل کر خوشی خوشی رہتے چلے آرہے ہیں ان کو اب اچانک اس گفت و شنید کی ضرورت کیوں پیش آگئی ! حیرت ان لوگوں پر بھی ہوتی ہے جو اس گفتگو کی پیشکش کو قبول کرتے ہیں مگر پوچھتے نہیں کہ اس کی ضرورت کیا ہے اور کس کو ہے ؟میرا خیال یہ ہے کہ ملک میں عوامی طور پر یہ ضرورت کسی کو بھی نہیں ہے، صرف سنگھ کےنظریہ سازوں کو ہی یہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ وہ اپنے دور اقتدار میں ہی ۔اپنے نظریات کو سب سے تسلیم کروا لیں

یہ بھی دیکھیں: آر ایس ایس سو سالہ جشن

یہ حالات بتاتے ہیں کہ ملک ایک شدید طبقاتی کشمکش میں مبتلا ہو گیا ہے۔ ایک جانب مسلمان کہیں نہ کہیں اندیشوں اور خدشات میں مبتلا ہیں اور اپنے سماجی مستقبل کے تحفظ کے لیے کوشاں ہیں اور غلط یا صحیح طریقے سے اپنی پہچان کو بچانے کی کوشش کر رہے،وہیں دوسری جانب سنگھی تنظیمیں اپنے نظریے کی مکمل تنفیذ کو لے کر ابھی تک مطمئن نہیں ہیں اور چاہتی ہیں کہ جلد از جلداپنا ہدف حاصل کر لیں اور اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو بے قرار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک کسی بھی عام انتخاب میں بی جے پی کو ووٹ کے اعتبار سے کوئی واضح اکثریت حاصل نہیں ہو سکی یعنی 145 کروڑ کی آبادی والے ملک میں ان کے ہاتھ ابھی تک 23 کروڑ سے زیادہ ووٹ نہیں لگا ہے ،محض ووٹوں کی شاطرانہ تقسیم اور دیگر انتخابی ہتھکنڈوں کے ذریعے ہی وہ اقتدار حاصل کر سکے ہیں ۔ ملک کے ہندو ،مسلمان، دلت، قبائلی اور دیگر اقلیتوں کےتقریبا 70 فیصد عوام نے ابھی تک سنگھ کے نظریے کو قبول نہیں کیا ہے ۔یہی سنگھ پریوار کی ناکامی بھی ہے اور سب سے بڑی پریشانی بھی ہے کہ اقتدار پر مکمل کنٹرول ہونے کے باوجود نظریاتی سطح پر وہ ابھی تک قابل قبول نہیں بن سکے ۔
سنگھ سے وابستہ حکمران جماعت یہ اعلان کر چکی ہے کہ وہ 2047 تک ملک کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت’’ وشو گرو ‘‘بنا نے کا ہدف رکھتی ہے، یعنی بھارت اقتصادی، سماجی ،تعلیمی، معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے ساری دنیا کی رہنمائی کرنے کی صلاحیت حاصل کر لے گا ۔یہ اگرمحض نعرہ نہیں ہے حقیقی ہدف ہے تو پھر ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کی کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔ ایک ترقی یافتہ ملک بننے کے لیے لازمی ضرورت ہے کہ ملک کا ہر شہری ایمانداری اور مکمل امن و سکون کے ساتھ ملک کی ترقی میں برابر کا حصہ بھی لے اور اس ترقی کے ثمرات کا برابر کا شریک بھی ہو ۔عالمی رہنما بننے کے لیے جو عالمی ضابطے مقرر ہیں ان پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم ابھی تک فرقہ وارانہ ہم اہنگی ،سماجی حیثیت، تعلیمی معیار ،روزانہ فی کس آمدنی پینے کے پانی کی فراہمی ،روز مرہ غذائی دستیابی ،نقص تغذیہ ،بچوں کی شر ح اموات، خواتین کے تحفظ وغیرہ جیسے معیارات حاصل کرنے کی دوڑ میں کافی پیچھے ہیں، ان معیارات کو حاصل کرنے کے لیے ہر سطح پر شدید محنت کی ضرورت ہے ۔لیکن اگر عوام کے مختلف طبقات کے مابین رسہ کشی اور تشکیک کا ماحول قائم رہے تو یہ شدید محنت بھی کسی کام نہ ا ٓسکے گی۔

بریلی ،سنبھل ،رامپور اور اب میرٹھ جیسے واقعات اس ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں کوئی بھی طبقہ اگر خود کو بھارتی قومیت کا امین وعلمبردار سمجھتا ہے تو اسے اس تلخ حقیقت کاراک بھی کرنا پڑے گا ۔ اگر کوئی طبقہ اس سے صرف نظر کرتا ہے تو اسے کسی حال میں بھی قوم پرست تو نہیں کہا جا سکتا۔ سنگھ پریوار کا اصل کنفیوژن یہی ہے، وہ اپنے نظریے کی تنفیذ کی تدبیر کرتے ہوئے ان حالات کا معترف رہے ،یا قوم پرستی کا بھرم قائم رکھنے کے لیے ان واقعات کو روکنے کی قرار واقعی تدبیر کرے؟

یہ واقعات ان معنوں میں سنگھ پریوار کا ایک تجربہ بہرحال ہیں کہ جس قوم کو وہ اپنا سابق حکمراں سمجھتے ہیں اس قوم میں صبر وبرداشت اور اپنی پہچان برقرا رکھنے کی کتنی سکت باقی رہ گئی ہے نیز اس سکت کو توڑنے کے لئے ابھی کتنی اور قوت درکار ہوگی۔بہرحال سنگ کا نظریہ اور تجربہ کچھ بھی ہو بحیثیت محب وطن قوم مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ امتحان کے اس گھڑی میں ثابت قدمی اور استقلال کا مظاہرہ کریں اور جس طرح جنگ آزادی کے دوران ہمارے اسلاف نے بڑی بڑی قربانیاں دے کر ملک کو آزاد کروا لیا تھا اسی قوت اور صبر کے ساتھ ان حالات کا بھی مقابلہ کرتے ہوئے اپنی توجہ اور توانائی کو کسی بھی سازش کا حصہ بنے بغیر ملک کے ہمہ جہت ترقی کے لیے استعمال کرتے رہیں۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔