اردو اور مدرسہ کا رشتہ

از:- شاہدعادل قاسمی ارریہ

اردو اور مدرسہ کا رشتہ "چولی دامن کا ساتھ” جیسا ہے،اب اگرکوئ "حیاشرم کا پاک دامن چاک کردے” تو انھیں بھلا کیسے سمجھایا جاۓ کہ یہ رشتہ لازم ملزوم کا ہے جو جزولاینفک ہے،ہاں اگر انھیں آسان زبان میں یہ بتایا جاۓ کہ اردو کا مدرسہ سے گہرا مترتایااستھائ سمبندھ ہے تو شاید کچھ پلہ پڑجاۓ۔

برسوں پرانی روش اور قدیم خلش آج کل پھر موضوع بحث ہے،ایکشن کاری ایکشن اور عمل کا رد عمل بھی پرانا فارمولہ ہے۔ اس لیے تیرونشتر اور اتہام والزام کا بازار بھی گرم ہے،مدرسہ اور مدرسے کا مولوی ویسے بھی آج کل کچھ لوگوں کی مرغوب غذا ہے، اس لیے وہ اپنے دہن وکام کو سیرابی بخش رہےہیں اور مدرسے کی اردو دوستی پر اپنی دشمنی نبھارہے ہیں ،مدرسے کی گاڑھی اردو،مدرسے کی مخرج والی اردو، مدرسے کی مذہب والی اردو،مدرسے کی مذہبی صحافت،مدرسے کی گرامر والی اردو،مدرسے کی بحور،قافیہ،اوزان اور اضافت والی اردو،مدرسے کی متضاداور مترادف والی اردو،مدرسے کی تلفظ اور خوش خط والی اردو نہ جانے مدرسوں سے منسوب کس کس نام سے پکارے جانے والی اردو کی دہائی دی جارہی ہے،فضلاۓ مدارس کی اردو تربیت پر پابندی،اردو تعمیر وترقی پر پابندی،اردو دسترس پر پابندی،اردو درس وتدریس پر پابندی،اردو تحصیل پر پابندی،اردو کے بڑے مراکز میں انٹری پر پابندی،فضلاۓ مدارس کے لیے عصری علوم گاہوں اور یونیورسٹیوں میں ایڈمیشن پر پابندی کا مطالبہ اور مذاکرہ نے اردو آبادی میں پھر سے ایک ہیجان پیدا کردیا ہے،ستم بالاۓ ستم تو یہ ہورہا ہےکہ ایک مدرسہ پروڈکٹ صنف نازک میدان میں علم بغاوت لئے کھڑی ہے،وہ فارغین مدارس کی اعلی تعلیم کے حصول پر سینہ سپر ہے،نازک فنگر سے فارغین مدارس کے لئے بریکر کھینچ چکی ہے،اپنی کم فہمی اورلاعلمی کی وجہ سے فضلاۓ مدارس کو فقط اردو طالب علم سمجھ بیٹھی ہے،جب کہ انھیں واقف ہی نہیں بلکہ چیلینج کیا گیا ہے کہ فارغین مدارس صرف اردو ڈپارٹمنٹ میں ہی نہیں بلکہ مختلف شعبوں میں قسمت آزمائی کررہے ہیں الحمدللہ ہر جگہ اپنی نیک نامی کوبھی اپنے نام ثبت کررہے ہیں،انگنت ہیں جو سخت مقابلہ جاتی امتحانات میں نمایاں نمبرات سے کامرانی حاصل کر چکے ہیں، محترمہ کا جب ایک میگزین سے دلی مراد اور من کو شانتی نہیں ملی تو ایک اردو روزنامہ میں ٹپک پڑی،ناقصات العقل والی بات پر میرا گمان اٹل ہے اس لیے زیادہ ناک بھوں کو زحمت دینا مناسب نہیں،ایک طرف یہ خدشہ بھی ہواکہ محترمہ کہیں کسی شاخسانہ کا اسیر تو نہیں ہوگئیں یا کہیں کسی کی ہدف اور نشانے کے لیے استعمال تو نہیں ہوگئ، لیکن استعجابی کیفیت اس وقت مزید ہوئ جب کچھ سیداور سردار صنف سے منسلک لوگ بھی اس حمام میں کود پڑے،اس پس منظر میں تو جنبش قلم ضروری ہوگیا، الرجال قوامون علی الناس* پر میرا ایمان مکمل ہے لیکن کچھ رجال کے رجل وعقل پر جب احساس برتری یا فتور اکبر چڑھ جاۓ تو اس کا دفاع ضروری ہے،انھیں بتانا ہوگا کہ جس فارغین مدرسہ کی آپ سبکی کرارہے ہیں یا جنھیں آپ عصبیت کی عینک سے دیکھ رہے ہیں اس کو میزان عدل میں رکھنا ہوگا،انھیں منصفانہ اور غیر جانب دارانہ نظریہ سے پرکھنا ہوگا،یہ نہیں کہ کسی مشنری کو خوش کرنے یا کسی اقتدار کی بارگاہ میں تقرب حاصل کرنے کے لیے آپ کسی کا بلیدان دے دیں گے،آپ جن کی انٹری پر نو انٹری کی ڈی مانڈ کررہے ہیں، یا کسی کی حق تلفی کی یوجنا بنا رہے ہیں وہ آپ کے لیے کھوٹا سکہ ہوگا،وہ وقتی گیم اور کم لائف والا فیصلہ ہوگا،کیوں کہ وہ مدارس جہاں کی ترسیل علم کا ذریعہ اردو،وہ مدارس جہاں کے نصاب وسلیبس کا دارومدار اردومیں ،وہ مدارس جہاں کے سارے نظام اردومیں ،وہ مدارس جہاں کی درس وتدریس اردومیں،وہ مدارس جہاں کے ماخذومصادر کا انتقال اردو میں،وہ مدارس جہاں کی عام بولی اردو میں،وہ مدارس جہاں کے پڑھنے پڑھانے والوں کی زبان اردو،وہ مدارس جن کا بیش بہا خزانہ اردو میں اور اس پر آپ کو اردو کے تئیں بے اعتمادی تف ہے ایسی سوچ پر،حیف ہے ایسی عقل وخردپر،اردو کا بڑا منصب دار،اردو کا بڑا نوکرشاہ،اردو روزی بوٹی کا اعلی ذمہ دار جب اردو کے تئیں ایسی تنگ نظری اور دوہری مزاجی کا حامل ہوگا تو بھلا اردو کی بقاء اور تحفظ کیوں کر ممکن ہوگا?،جب ایک اردو پریمی ملاؤں کی اردو سے اتنا خوف زدہ ہوگا تو بھلا وہ اردو کی بات زعفرانی ٹولیوں میں کیسے کرے گا? جب ایک عظیم عہدہ دار اردو کے محسنوں کے خلاف غیروں سے مدد کی گہار لگاۓگا تو بھلا اردو کی آبیاری کیسے ممکن ہوگی? بھلا ان معترضین کو کون سمجھاۓ کہ مدارس نے اردو کے تئیں کل بھی کلیدی کردار انجام دیا ہے اور آج بھی کارہائے نمایاں انجام دے رہا ہے،مولانا عبد الحق دہلوی،مولانا اسماعیل میرٹھی،مولانا حالی،مولانا شبلی،مولانا آزاد،مولانا نذیر ،مولاحسین آزاد،سید سلیمان ندوی،حبیب الرحمان شیرانوی،حفظ الرحمان سیوہاروی، عامر عثمانی،عبد الحلیم شرر،مجروح سلطان پوری،مولانا مناظر حسن گیلانی،مولانا عبد الماجد دریابادی،مولانا اشرف علی تھانوی،مولانا احمدرضاخان بریلوی،مولانا سید ابوالاعلی مودودی،مولانا علی میاں ندوی،انجم مانپوری،علامہ شفیق جون پوری سے لے کر آج کے بڑے بڑے ادباء، فصحاء،شعراء ،نقاد اور صنف ادب کے مختلف پہلوؤں کے شناور ہیں جو اردو زبان وادب کی ترویج واشاعت میں مصروف عمل ہیں ،کچھ صاحب چشم ہیں جنھیں اپنی فہم وفراست کا بڑا گمان ہے،جو بڑی ڈھٹائی سے کہہ جاتے ہیں کہ مدرسوں میں اردوزبان وادب کا کوئ مستقل ڈیپارٹمنٹ نہیں ہے، اس لیے مدرسوں سے کوئ ادیب یا نقاد پیدا نہیں ہوسکتا ہے، بھلا ان کور فہمیوں کو کون سمجھاۓ کہ بر صغیر کے اکثر وبیشتر مدارس انٹر میڈیٹ سطح کے ہیں، اب کوئ ان ٹھنڈ روم میں بیٹھے مشیروں سے پوچھے کہ بھلا انٹر کالج سے کوئ انٹر میڈیٹ پاس کرکے بڑا سائنٹسٹ یانامی فلاسفر بن سکا ہے، ام کا جواب یقینا نفی میں ہوگا،برصغیرمیں ایسے بھی مدارس قیام پذیر ہیں جہاں اردوزبان وادب کا مظام بدرجہ اتم موجود ہے،کئ ریاستوم میں بھی ایسےمدارس ہیں ہاں جہاں فاضل اردو (ایم، اے) معیار کی تعلیم ہے، وہاں اردو زبان وادب کا بھی نصاب مروج ہے،صوبۂ بہار کے ملحق مدرسہ جو عالم اور فاضل اسٹینڈرڈ کے ہیں،جن کا انسلاک والحاق مولانا مظہر الحق عربی فارسی یونیورسٹی سے ہے وہاں اردوزبان وادب کی تعلیم کا بہترین نظم ہے، اس لیے آنکھ بند کرکے ایک ہی لاٹھی میں سبھوں کو ہانکنا انصاف نہیں ہے،بلکہ عدل اور اعتدال سے کام لینا ہوگا، اردو فروغ کےلیے مدارس سے شائع ہونے والے اردو ترجمان اور سرکاری ونیم سرکاری کے تعاون سے چھپنے والے ماہ ناموں،رسالوں،جریدوں اور مجلوں کا سرکولیشن کا بھی تھوڑا موازنہ ہوجاۓ،گزشتہ صدی اور موجودہ صدی کا بھی معیار اشاعت دیکھ لیا جاۓ،تسلی کیلئے قدیم دور کے روزناموں، اخباروں،ماہ ناموں اور رسالوں ومجلوں کی صورت دیکھ لیں کتابت سے ادارت تک میں مدرسوں کی ہی بڑی کھیپ ملے گی اور یہ صورت حال آج بھی بھی ہے، اردو کمپوزر سے لیکر ادارت تک مدرسہ فارغین کی ہی اکثریت دکھے گی،ان تمام دلائل وشواہد کے باوجود مدرسےکی اردودوستی پرسوال اتھانا تجاہل عارفانہ یا بزبان سخت بے جا ہٹ دھرمی ہی کہا جاسکتا۔

یہی تقابل جب ہم ان اداروں کے بیچ کریں جہاں حکومت کی ایک ماہ پر کروڑوں کا صرفہ آتا ہے،جہاں ہر سہولیات ومراعات کا نظم ہے، اس کا نتیجہ صفر ہے،اس کے دعویدار خود اردو رسم الخط کے لیے تڑپ رہے ہیں،وہاں کی فضا خود اردو سے متعفن بن رہی ہے،وہاں خود اردو احساس کمتری میں مبتلا ہے،وہاں کی اردو خود زبوں حالی کا شکار ہے،وہاں کے معلم ایک دو پیراگراف میں خود ہانپتے کانپتے نظر آتے ہیں،وہاں کی روٹی ٹوڑنے والے خود کے تلفظ پر شرمندہ ہیں،وہاں کے بڑے ذمے دار خود رومن یا دیوناگری کے محتاج ہیں،وہاں کی املااور نقل نویسی خود خودکشی کررہی ہیں،وہاں کی خوش خطی اور وہاں کی خوش کلامی خوددم توڑ رہی ہے،اردو سےلاکھوں کمانے والے ایک پھوٹی کوڑی اس کی آبیاری میں صرف نہیں کرپارہے ہیں،اردو کے ایچ اوڈی ، اردو کے صدر شعبہ اور اردو کے لکچررہیں لیکن ان کے گھر میں اردو کا ایک اخبار تودور اردو کی نیم پلیٹ تک آویزاں نہیں ہے،ان کا گھرانہ دس ڈیٹ اور ہاۓ ہیلو کا مجسمہ ہے وہ تو بھلا ہو اہالیان مدارس کا جن کے گھروں سے ب ت ث کی آواز آج بھی نکل رہی ہے،جن کے منبر ومحراب سے آج بھی اردو بولے جارہے ہیں، جن کے گنبدومینار سے آج بھی اردو میں اعلانات نشر ہورہے ہیں،اس کے بنسبت سرکاری اداروں کی صورت حال کا جائزہ لیں تو سمجھ میں آئیگا کہ یہاں اردو پروفیسر اور اردو لکچرر کہلانے میں بھی لوگ ہچکچاتے ہیں،احساس کمتری اور معیاری گراوٹ کے خیال سے ہم آہنگ ہیں کچھ ہیں جو مخلص اور اردو کے تئیں ایماندارانہ کوشش کررہے ہیں۔

مدارس اسلامیہ میں اردو زبان کو بڑی اہمیت حاصل ہے،عربی زبان کے بعد اگر اسلامیات کسی زبان میں زیادہ محفوظ ہے تو وہ اردو زبان ہی میں ہے اور مدرسے کا نظام تدریس،نظام خطابت،رابطہ عوام کے لیے اہالیان مدارس اسی زبان کا سہارا لیتے ہیں،یہ زبان مدارس کی معاون زبان ہے اس لیے مدرسہ کی اردودوستی پر سوال اٹھانا ایک احمقانہ قدم ہی ہوسکتا ہے،ایک تخریبی اور عداوتی مشن کا حصہ ہی ہوسکتا ہے،کیوں کہ یہ مدرسوں کی ہی دین ہے جہاں سے آج بھی اردو ترقی پذیر راہ پر گامزن ہے،آپ اردو کو شاہی درباروں،nدبستانوں،خونقاہوں اور بازاروں میں بھی پھلتے پھولتے دیکھا ہے لیکن جو فیض رسانی مدرسوں سے ہوئ ہے وہ کہیں سے نہیں ہوئ ہے،آج بھی مدرسوں کی لائبریاں اردو دستاویزات سے بھری پڑی ہیں،آج بھی مدرسوں کے دفاتر اردو اخباروں اور رسالوں سے مزین ہیں،آج بھی مولویوں کے ہاتھوں میں اردو اخبارات دیکھے جاتے ہیں،آج بھی مدرسوں کے بچے اردو کی آبیاری کے لئے وقف ہیں اور مجھے امید ہے یہ انسیت مدتوں رہیں گی۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔