از:- ڈاکٹر یوسف رام پوری
فی زمانہ مدارس کے بہت سے فارغ التحصیل طلباء کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طرف رخ کرتے ہوئے نظر ارہے ہیں۔ان میں سے کتنوں نے ملک کے کئی اہم مقابلہ جاتی امتحانات میں گزشتہ چند برسوں کے دوران سرفرازی بھی حاصل کی ہے تاہم ان میں سے اکثریت ایسے طلباء کی ہے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق اردو زبان و ادب کی تعلیم و تدریس سے ہے۔تعلیمی اداروں کے علاوہ دیگر ان سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں جہاں مختلف صورتوں میں اردو کے کام کاج ہوتے ہیں ان میں بھی فارغین مدارس کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
سوال یہاں یہ قائم ہوتا ہے کہ اخر مدارس کا پس منظر رکھنے والے طلبہ اردو کے مختلف کاموں کو بخوبی سر انجام دینے کے متحمل کیسے ہو جاتے ہیں یا ہو سکتے ہیں جبکہ مدارس کے تعلیمی نظام کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہاں صرف دینیات کی تعلیم دی جاتی ہے۔اس بات کے عرف عام میں مشہور ہونے یا مدرسے کے تعلیمی نظام سے عدم واقفیت کے سبب فارغین مدارس کی بابت کچھ لوگوں کی طرف سے یہ مفروضہ بھی سامنے اتا رہتا ہے کہ مدارس کے طلباء عصری و سماجی علوم اور اردو ادب سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے اردو ادبیات سے ہم اہنگ نہیں ہو پاتے اور نہ ہی وہ اردو کے خلقیے کو جان پاتے ہیں لیکن جب ان طلباء کی امتحانات میں کامیابی یا اردو زبان و ادب کے حوالے سے ان کی خدمات پر نظر ڈالی جاتی ہے تو یہ مفروضہ خود بخود دم توڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
اردو کے مختلف میدانوں مثلا زبان و ادب نثر و نظم،تعلیم و تعلم،صحافت و کتابت، تصنیف و تالیف اور تحقیق و تخریج میں طلبائے مدارس کی کامیابی کی وجہ دراصل ان کا وہ تعلیمی بیک گراؤنڈ ہے جو مدارس کی چہار دیواری میں درس نظامی کے سائے تلے تیار ہوتا ہے لیکن اس دعوے کو مدلل و محقق کرنے کے لیے ضروری ہے کہ طلبائے مدارس کی صلاحیتوں اور یونیورسٹیوں کے ذریعے تیار کردہ اردو کے نصاب اور فی نفسہ اردو ادب پر غائرانہ نگاہ ڈالی جائے۔
بی اے( پروگرام/ انرز )سے لے کر ایم اے اردو تک جو نصاب کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے ان میں شعری اور نثری اصناف شامل ہیں، بالفاظ دیگر شعری اصناف میں غزل، نظم، رباعی،قصیدہ،مثنوی، مرثیہ ، اور نثری اصناف میں داستان، ناول، افسانہ، ڈرامہ، خاکہ، انشائیہ وغیرہ کو ترجیحی طور پر زیر تدریس لایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مزید کچھ شعری و نثری ذیلی اصناف کے ساتھ اردو زبان و ادب کی تاریخ،آغاز و ارتقا، اردو زبان کی لسانی تشکیل ، اردو زبان کے مزاج ،اردو زبان کے اسالیب، قواعد ،ہیٔتیں،صنعتیں، اردو تنقید اور ان سے متعلق شاعروں ،نثر نگاروں ،تخلیق کاروں، ناول نگاروں، افسانہ نگاروں اور تنقید نگاروں وغیرہ سے بھی طلباء کو متعارف کرایا جاتا ہے تاکہ طلباء اردو زبان و ادب کے مزاج، پس منظر اور خلقیے سے بھی واقف ہو سکیں اور اگے چل کر متعلقہ موضوعات پر پی ایچ ڈی بھی کرسکیں۔
پی اے اردو انرز اور ایم اے اردو کے نصاب کی یہ جھلکیاں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مذکورہ نصاب یا اردو ادب میں کلاسیکی شاعری یا اردو کے مقبول ترین شعراء کے یہاں لفظیات و تراکیب کے برتاؤ اور ان کے کلام کے اندر موجود معانی و تعبیرات کے بحر ذخار میں وہی شخص غوطہ زن ہو سکتا ہے جس کے پاس لغوی و اصطلاحی معنی اور مصادر و مشتقات کی معلومات ہو۔ ذرا نو طرز مرصع، عجائب القصص اور فسانہ عجائب جیسی داستانوں کا مطالعہ کر کے دیکھیے ،عربی و فارسی اور مختلف زبانوں کے الفاظ وتراکیب کا ہجوم قدم قدم پر نظر ائے گا حتی کہ ان میں عربی و فارسی کہاوتوں اور شعروں کی بھرمار بھی دکھائی دے گی۔ اس صورتحال کو سامنے رکھ کر ہم اولا مدرسے کے تعلیمی نظام اور طلبائے مدارس کی صلاحیتوں کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔ بعدزاں اسکول کے بیک گراؤنڈ والے طلبہ کی استعداد پر بھی نظر ڈالیں گے۔
مدارس کے تعلیمی نصاب میں فارسی کی پہلی، گلزار دبستان ،گلستاں،کریما،پندنامہ ،بوستاں کو بالاستیعاب اساتذہ کے ذریعے پڑھایا جاتا ہے۔ یہ کتابیں مدارس کے طلباء کو کسی حد تک فارسی کی تراکیب و لفظیات ،مبادیات شعریات اور تعبیرات سے ہم اہنگ کر دیتی ہیں۔ عربی کے لغوی علوم و نظام سے واقفیت کے لیے میزان الصرف اور علم الصیغہ اور نحوی علم کے لیے نحومیر،ہدایت النحو، کافیہ اور شرح جامی جیسی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ اسی لیے مدارس کے طلباء پلک جھپکتے ہی عربی الفاظ و مصطلحات کی اصلیت و ماہیت کو سمجھ لیتے ہیں اور معنی بھی اخذ کر لیتے ہیں جبکہ اسکولی سطح پر اردو میں عربی و فارسی الفاظ کو جاننے کے لیے ایسا کوئی نظام موجود نہیں ہے ۔علاوہ ازیں ہندوستان کے دینی مدارس میں پڑھائے جانے والے تمام علوم( فقہ, اصول فقہ, حدیث, تفسیر, علم کلام ,علم منطق وغیرہ کا ذریعہ تعلیم بھی اردو ہی ہوتا ہے, اساتذہ صاف وشفاف اردو میں تکلم کرتے ہیں، دوران درس عربی، فارسی اور اردو کے اشعار بھی سناتے رہتے ہیں۔طلبہ اساتذہ کی تقریریں اور تمام درسی باتیں اردو میں لکھتے ہیں۔ خالص اردو بولتے ہیں،اساتذہ اورطلبائے مدارس کوبہت سے فارسی واردو کے اشعار ازبر ہوتے ہیں۔جس کی وجہ سے اردو ان کے ذہن پر اس طرح ثبت ہو جاتی ہے کہ اس کا حصہ بن جاتی ہے ۔عملی تحریری تربیت کے لیے مدارس میں دیواری پرچے بھی نکالے جاتے ہیں۔ خوش خطی، املا کی درستگی یہاں تک کہ کسی حد تک عبارت ارائی اور مضمون نویسی کی صلاحیت بھی ان کے اندر خواہی نہ خواہی پیدا ہو جاتی ہے۔اس کے برعکس اسکولی نظام تعلیم میں اردو کے حوالے سے طلبہ کے لیے اتنی گنجائشیں نہیں ہوتیں۔ طلباء کا بھی عمومی رجحان ہندی،انگریزی، ریاضی، سائنس وغیرہ کی طرف ہوتا ہے اس لیے ان کی اردو ہینڈ رائٹنگ اکثر مکڑی کی ٹانگوں کی طرح ہوتی ہے۔ ایک سطر میں املاکی کئی کئی غلطیاں پائی جاتی ہیں ۔تلفظ کا تو کہنا ہی کیا ہے ۔اردو میں اس قدر کمزور طلباء جب کالج اور یونیورسٹیوں میں ادب پڑھنے کے لیے اتے ہیں تو ان کے سامنے لاچارگی و بے بسی اور ادھر ادھر جھانکنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہوتا۔
طلبائےمدارس میں ادبی لیاقت پیدا ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ درس نظامی میں القراۃ الواضحہ،نفحۃ العرب ،مقامات حریری، دیوان متنبی اور سبع الملقات جیسی خالص ادبی و شعری کتابوں کو جگہ دی گئی ہے تاکہ وہ امراؤ القیس، لبید بن ربیعہ، زہیر بن ابی سلمی، عنترہ بن شداد العبسی، حارث بن حلزہ،عمروبن کلثوم، اعشی القیس، حسان بن ثابت ،کعب بن زہیر، عبداللہ بن رواحہ ،جریر ،اخطل ،فرزدق،ابو نواس اور متنبی کی شاعری کو اس کے اصل متن و تشریح کے ساتھ پڑھیں اور اپنے اندر شعر و شاعری کا ذوق اور ادب کی اعلی صلاحیت پیدا کرلیں ۔شعر و شاعری اور ادب عالیہ کے ایسے پرکشش نظام سے اسکولی طالب علم محروم رہتے ہیں۔
اردو ادب کی عمارت جس لسانی ڈھانچے پر قائم ہے اس میں عربی و فارسی کی حیثیت سیمنٹ کی ہے اس کے بغیر اردو ادب کی عمارت پختہ نہیں ہو سکتی۔ اردو کے بڑے بڑے ادیبوں پر اس نقطہ نظر سے ایک غائرانہ کیا طائرانہ ہی نظر ڈال لیجئے سب عربی و فارسی سے کسی حد تک واقف کار دکھائی دیں گے۔ سر سید احمد خان مولانا حالی، مولانا محمد حسین ازاد، شبلی, مولانا ازاد, جوش, اقبال، حسرت میں کیا کوئی ایسا ہے جو فارسی و عربی سے نابلدہو۔ طلبائے مدارس کی ادب سے واقفیت، اردو سے دلچسپی اور عربی و فارسی دانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ملک کی چند ایک یونیورسٹیوں نے برج کورس کرا کے ان کے لیے بھی بی اے اور ایم اے اردو میں داخلے کے لیے دروازے کھول دیے کہ وہ ضرورت کی حد تک عصری علوم سے بھی اشنا ہو جائیں اور اردو زبان و ادب میں بھی اپنا کریئر بنا لیں۔ مدارس کے ان طلباء نے جے ار ایف اور نیٹ کے امتحانات میں کامیابی درج کرائی جبکہ ان امتحانات میں ایک پیپر اردو کے علاوہ دیگر بہت سے عصری موضوعات پر مبنی ہوتا ہے۔
لسانی مباحث کے علاوہ ادب کی تفہیم یا اردو ادب سے قربت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اردو ادب میں پڑھائے جانے والے ان موضوعات و مضامین کابھی جائزہ لے لیا جائے جو اردو نثر و شاعری میں بکثرت پائے جاتے ہیں یا جن سے اردو کا خمیر اور خلقیہ تیار ہوتا ہے۔ اس حوالے سے سب سے پہلے ہم تصوف کے موضوع پر بات کر لیتے ہیں جسے اردو نثر اور شاعری دونوں میں خوب برتا گیا۔ ظاہر ہے کہ تصوف کا موضوع طلبائے مدارس کے لیے نیا نہیں ہوتا ۔ وہ صوفیاوبزرگان دین اور ان کے کلام سے بہت حد تک واقف ہوتے ہیں اور بہت سے عملی طور پر تصوف کی گزر گاہوں سے بھی گزرتے ہیں۔ اردو کی شعری اصناف قصیدہ ،مثنوی، مرثیہ،غزل،رباعی وغیرہ میں اسلام، اسلامی تاریخ ،اسلامی شخصیات، اسلامی تہذیب و معاشرت ،پندو نصیحت وموعظت کے موضوعات پر بھی طبع آزمائی کی گئی ہے اور ان سے مدارس کے طلباء کا گہرا واسطہ ہوتا ہے۔ مرثیے میں تو کربلا، خاندان حسین، توحید، رسالت غرض اسلامی تاریخ و موضوعات پر ہی بالعموم بات ہوتی ہے، مثنوی کی بات کریں تو مثنوی کے اجزائے ترکیبی میں حمد و مناجات، نعت اور منقبت جیسے اجزاء بھی شامل ہیں جن کا تعلق راست طور پر خدا ،رسول اور اسلامی شخصیات سے ہے ۔مثنوی سحر البیان میں حمد و نعت اور منقبت کے 100 اشعار اور قطب مشتری میں ڈھائی سو سے زیادہ اشعار سے اردو شاعری میں اسلامی موضوعات کے برتاؤ کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اردو قصائد کی تفہیم بھی مدارس کے طلبہ کے لیے اتنی دشوار نہیں ہوتی اس لیے کہ وہ عربی قصائد کو پڑھ کر اتے ہیں اور اردو قصائد میں الفاظ کی گھن گرج اور تراکیب کا طمطراق دوسرے پس منظر رکھنے والے لوگوں کے لیے بہت زیادہ دشوار ہوتا ہے لیکن مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کے لیے یہ اتنا دشوار کن مرحلہ نہیں ہوتا گویا کہ مثنوی، مرثیہ ،قصیدہ ایسی اصناف ہیں جن پر مدرسے والوں کی گرفت دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اسانی سے ہو جاتی ہے جہاں تک اردو کی مشہور صنف غزل کی بات ہے تو غزل میں بالعموم عشق حقیقی اور عشق مجازی،دنیاکی بے ثباتی اور حالات حاضرہ وغیرہ کی باتیں ہوتی ہیں جو ان کے لیے نئی نہیں ہوتیں۔ راقم کا خیال ہے کہ مدرسے کے فارغین عشق حقیقی اور عشق مجازی کو کمیونزم ،سوشلزم، ڈارونزم اور سیکولرزم کو سمجھنے والوں کے مقابلے میں زیادہ سمجھتے ہیں، اس لیے کہ مذہب کی تعلیم بھی ان کے پاس ہوتی ہے اور عربی قصائد میں وہ حسن و عشق کے معاملات بھی پڑھ کر اتے ہیں۔ اردو شاعری میں بہت بڑا ذخیرہ طنزیہ شاعری کا ہے اور ظاہر ہے کہ طنزیہ اور ہجویہ شاعری میں اخطل، فرزدق،جریر اور متنبی کی نظیر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی گویا کہ طنزیہ و ہجویہ شاعری کی تفہیم کی صلاحیت بھی مدارس کے طلباء میں پہلے سے موجود ہوتی ہے۔ جہاں تک بات سماجی و معاشرتی علوم و معاملات کی ہے تو مدارس میں ایسی کتابیں داخل نصاب ہیں جن میں عائلی خاندانی معاشرتی اجتماعی معاملات پر بہت گہرائی کے ساتھ بحث کی گئی ہے حتی کہ تمدنی تہذیبی سیاسی قانونی اقتصادی اور طبی سطح پر بھی قران و حدیث میں ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے جس کو تفصیل و تشریح کے ساتھ مدارس میں پڑھایا جاتا ہے۔ میڈیکل سأئنس یاطب سے بھی طلباء مدراس کو زیادہ شغف ہوتا ہے، اسی لیے زیادہ تر اطباء و حکماء انہیں میں سے نکلتے رہے ہیں۔اردو شاعری میں حب الوطنی اور گنگا جمنی تہذیب ملتی ہے لیکن یہ ایسا موضوع نہیں جس کی تفہیم باشندگان ہند کے لیے مشکل ہو ۔الحاد و لادینیت کی شاعری بھی اردو میں موجود ہے لیکن عقیدہ توحید و رسالت کے تحت مدرسے میں الحاد اور اس کی مختلف شکلوں پر بہت گہری بحثیں ہوتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے ملحدین کے الزامات ، طنز اور اشارات کو مدرسے والے اچھی طرح سمجھتے ہیں چاہے وہ نثر میں کیے جائیں یا شاعری میں۔
اگر سائنسی اور تکنیکی نقطہ نظر سے اردو کے شعر و ادب کا جائزہ لیا جائے تو اس کی نمائندگی اردو میں بہت کم دکھائی دیتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ مدارس کے طلباء اس طرح کی تحریروں اور شعروں کی تفہیم میں اسکولی بیک گراؤنڈ کے طلبہ سے پیچھے رہ جائیں لیکن اس طرح کا شعری و نثری سرمایہ تو ہمارے اردو ادب میں چند فیصد بھی نہیں ہے ۔زیادہ تر حصہ تو انہی موضوعات و مضامین پر مبنی ہے جو مدارس کے طلباء کی گرفت سے باہر نہیں ہے، اس لیے وہ اردو ادب کے میدان میں آسانی سے کامیاب و بامراد بھی ہو جاتے ہیں۔ مولانا حالی، مولانا اسماعیل میرٹھی، شبلی، مولانا قاسم نانوتوی، سید سلیمان ندوی، عبد السلام ندوی، عامر عثمانی، علی میاں ندوی،ندوی مولانا مناظر احسن گیلانی، مفتی کفایت اللہ، قاری محمدطیب اور ابو الکلام قاسمی جیسے ادیبوں اور شاعروں کی ایک طویل فہرست تیار کی جا سکتی ہے جنہوں نے اردو زبان و ادب کو مالا مال کیا۔
چند دہائیوں قبل کے اسکولوں میں بھی اردو کی تعلیم کا اچھا نظام تھا لیکن وقت کے ساتھ وہ زوال پذیر ہوتا چلا گیا فی الوقت اسکول کے طلباء کی صورتحال یہ ہے کہ وہ اردو صرف ایک مضمون کے طور پر پڑھ کر اتے ہیں اور اس میں بھی بالعموم مہارت و دلچسپی نہیں رکھتے حد تو یہ ہے کہ ان کی صرف اردو ہی کمزور نہیں ہوتی بلکہ دیگر مضامین میں بھی وہ کمزور ہوتے ہیں جو قدرے بہتر ہوتے ہیں وہ اردو کے علاوہ کوئی اور سبجیکٹ منتخب کر لیتے ہیں ۔دیکھا گیا ہے کہ کمزور صلاحیت والے اسکولی طلباء ہی اردو کی طرف اتے ہیں اس لیے ان کے بارے میں زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے کہ اردو زبان و ادب کے تعلق سے ان کی صلاحیتوں کو کیسے نکھارا جائے۔ عین ممکن ہے کہ نئی ایجو کیشن پالیسی کے نفاذ کے بعد صورت حال بہتر ہو جائے کیونکہ اس میں ابتدائی تعلیم کے مادری زبان میں حاصل کرنے بات کی گئی ہے۔اس کے علاوہ ایک شکل یہ ہو سکتی ہے کہ بارہویں کے بعد ان کے لیے کسی ایسے کورس کو متعارف کرایا جائے جس میں ان کی لسانی بنیاد کو مضبوط کرنے پر توجہ دی جائے ۔نیز جن موضوعات و مضامین ،تصورات و نظریات اور اصطلاحات کا استعمال اردو ادب میں ہوتا ہے ان سے بھی انہیں متعارف کرایا جائے تاکہ وہ اردو ادب کے میدان میں بہتر سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں اور اردو ادب کے سرمائے سے استفادہ کرنے کے لائق بن سکیں۔