✍️ محمد عادل امام قاسمی
صوبۂ بہار میں ایک بار پھر انتخابی گہما گہمی اپنے عروج پر ہے، ہر پارٹی عوام کے دل جیتنے کے لیے بلند بانگ وعدے اور نعرے لگاتی ہے، مگر یہ تلخ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ انتخابی نتائج کے بعد یہ سب وعدے ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں، اور عوام کے حصے میں مایوسی و محرومی کے سوا کچھ نہیں رہتا. افسوس کہ بیشتر پارٹیاں سیکولرزم کے نام پر ووٹ مانگتی ہیں، مگر اقتدار میں آتے ہی ان کا چہرہ بدل جاتا ہے اور وہ کسی خاص نظریے یا طبقے کی خوشنودی کے لیے وہ سب کچھ کرنے لگتی ہیں جس سے ملک کی جمہوری روح اور سیکولر اقدار مجروح ہوتی ہیں. اس دوغلے رویّے کا سب سے بڑا نقصان ہمیشہ مسلمانوں اور دیگر کمزور طبقات کو اٹھانا پڑا ہے.
پچھلے انتخابات میں بہار کی سیاست نے جو منظر دیکھا، وہ عبرت کا نشان ہے. نتیش کمار نے اقتدار کی خاطر اصول، وعدے اور عوامی اعتماد کو پامال کر کے سیاست کو تماشا بنا دیا، ان کے اس رویے نے عوام میں بے اعتمادی کی ایسی فضا پیدا کر دی ہے، جس نے جمہوریت کے وقار کو ہلا کر رکھ دیا. اب وقت ہے کہ بہار کی عوام بالعموم اور مسلمان ووٹر بالخصوص آنکھیں کھولیں، ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کریں، اور ووٹ دیتے وقت جذبات نہیں بلکہ شعور و بصیرت سے کام لیں. یاد رکھیے! ووٹ ایک امانت ہے، یہ ہر پانچ سال میں ایک بار ہمیں ملنے والا شاندار موقع ہے، مگر اس ایک ووٹ سے اگلے پانچ سال کی تقدیر طے ہوتی ہے. اس موقع پر ہمیں یہ غور کرنا ہوگا کہ کن پارٹیوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی سیاست کی، کس نے مذہب کو بنیاد بنا کر ہمیں نشانہ بنایا، اور کن سیاسی گروہوں نے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں مسلمانوں کے خلاف قوانین کی حمایت کی؟ وقف ترمیمی بل اور اس جیسے کئی دوسرے قوانین اس بات کی مثال ہیں کہ بعض طاقتیں اسلام کے مذہبی اصولوں، اداروں اور تشخص کو مجروح کرنے پر تلی ہوئی ہیں.یہ قوانین دراصل ہمارے مذہبی وقار اور سماجی شناخت پر حملہ ہیں۔ حالانکہ اس جمہوری ملک کا دستور ہمیں اپنے مذہب پر مکمل آزادی کے ساتھ عمل کرنے کی ضمانت دیتا ہے.
2025 کے ان انتخابات میں بعض سیاسی و سماجی حلقوں میں ‘مسلم وزیر اعلیٰ’ یا ‘نائب مسلم وزیر اعلیٰ’ کا نعرہ زور پکڑ رہا ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ محض ایک سیاسی شوشہ ہے. موجودہ ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بات زیادہ قابلِ توجہ نہیں، اصل ضرورت ایماندار، بااصول، اور انصاف پسند قیادت کی ہے۔ جب تک ہمارے نمائندے دیانت و جرات کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے، عہدے اور لقب کوئی معنی نہیں رکھتے،اگر یہ چیز ہمیں حاصل ہوجاتی ہے تو پھر آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا.فی الحال مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے فیصلوں میں دور اندیشی، اتحاد اور حکمت سے کام لیں، ہمیں اپنے ووٹ کو وقتی مفاد یا لالچ کے بجائے ملت کے مجموعی مفاد کے لیے استعمال کرنا چاہیے. یاد رکھیے! ابھی پانی سینے تک پہنچ چکا ہے، اور اگر ہم نے اب بھی خوابِ غفلت سے بیداری اختیار نہ کی تو وہ وقت دور نہیں جب پانی سر سے اوپر چلا جائے گا اور پھر پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہ رہے گا. اس لیے سچے، دیانت دار اور باکردار قیادت کا انتخاب کیجیے! ایسے امیدوار کو ووٹ دیجیے جو آپ کے وجود ، تشخص، اور مستقبل کے تحفظ کی بات کرے. الغرض یہ کہ، بہار کی سیاست اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ اگر آج ہم نے صحیح فیصلہ کیا تو نہ صرف ہمارا حال بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی محفوظ ہو سکتا ہے.
اللہ تعالیٰ بہار کی عوام کو بصیرت و شعور عطا فرمائے، اور ہمارے ووٹ کو دین، ملت، اور قوم کی عزت و سربلندی کا ذریعہ بنائے.(آمین)