تحریر: مسعود جاوید
در مدحِ آں غزل
مکرم سیفی صاحب کا سوال (ذیل میں تصویر اور کیپشن)
بہت حد تک معقول ہے کہ نام نہاد سیکولر "مسلم پرست” "مسلمانوں کی خوشنودی کے لئے کام کرنے والی” سیاسی جماعتوں کی صفوں میں آبادی کے تناسب سے تو کیا ایک فیصد بھی مسلم نمائندگی کیوں نہیں ہے !
دراصل یہ اور اس قبیل کے بعض دوسرے مسائل آزادی کے بعد سے کافی پیچیدہ رہے ہیں یا بنائے گئے ہیں ۔ قانون ساز ایوانوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کا مسئلہ ہو یا سیاسی جماعتوں کی مرکزی کمیٹیوں اور پالیسی ساز نشستوں میں مسلمانوں کی موجودگی کا مسئلہ،۔۔۔۔۔ ہر جگہ حاشیہ پر ہوتے تھے اور اب حاشیہ پر بھی نہیں! ۔۔۔۔۔ اس کا ایک ریڈی میڈ جواب یہ ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور سیکولرازم کا مفہوم یہ ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہے بالفاظ دیگر ریاست اور حکومت مذہب کے نام پر کسی کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں کرے گی ۔۔۔۔۔ یہ ملک عزیز مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرے گا۔۔۔ یہی وہ مفہوم ہے جس کی بنیاد پر مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کا مطالبہ نہیں کیا جاتا ہے یا اربابِ حل و عقد کی جانب سے نہیں مانا جاتاہے۔
ریزرویشن دینے میں قانونی پیچیدگی تو سمجھ میں آتی ہے ( گرچہ اس کا حل بھی ڈھونڈا جا سکتا ہے) لیکن سیکولر پارٹیوں کی تشکیل میں کون سی پیچیدگی ہے سوائے اس فضول کی بات کے کہ اس سے اکثریتی طبقہ کے ان کے ووٹرز ناراض ہو جائیں گے۔ لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ وہ کتنی بھی کوشش کر لیں اکثریتی طبقہ کی بڑی تعداد کے دلوں میں بی جے پی کا جو درجہ ہے وہ غیر بی جے پی کو کبھی حاصل نہیں ہوگا۔ اس کے باوجود یہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کو نظر انداز کرتی ہیں اس لئے کہ انہیں معلوم ہے یہ اور جائیں گے کہاں ۔ یہ تو اپنے ایک مشن پر بغیر کسی فیس کے سختی سے کاربند ہیں اور وہ ہے بی جے پی مخالف مشن۔ آبادی کے تناسب سے سیاسی ایوانوں میں نمائندگی کے لئے ٹکٹ ملے نہ ملے انہیں کچھ فرق نہیں پڑتا ۔
اگر فرق پڑتا تو یہ انصاف پسند حقیقی سیکولرازم کے حامی برادران وطن کے ساتھ مل کر اپنی سیاسی جماعت تشکیل کرتے اور نام نہاد سیکولر جماعتوں کا متبادل بن کر ابھرتے ایسی پارٹی جو بلا تفریق مذہب ،ذات، علاقہ ، جنس، خواندگی اور خاندانی وراثت ، ہر ایک کو شامل کرتی ہر ایک کے لئے اٹھ کھڑے ہونے کے لئے کیڈر بناتی۔