وقف ترمیمی بل2024:
شریعت پر ریاستی یلغار اور آئینی بقا کی جنگ

از:-؛ڈاکٹر محمد اعظم ندوی


یہ بل محض قانون سازی نہیں، ایک ذہن سازی ہے، ایسا ذہن جو ریاست کو سماج پر بالادست، اکثریت کو اقلیت پر حاکم، اور زبردستی تھوپے گئے قانون کو انسانی ضمیر پر غالب دیکھنا چاہتا ہے، وقف ترمیمی بل 2024 دراصل آئینی روح کے خلاف ایک مسلسل مہم کا حصہ ہے، جو مذہبی آزادی کو خود ساختہ ضابطوں کی زنجیروں میں جکڑ کر، اقلیتوں کے تشخص کو بتدریج تحلیل کرنے کی گہری سازش کا حصہ ہے۔

وقف کا ادارہ محض املاک کا انتظام نہیں، ایک تہذیبی بیانیہ ہے، اس بیانیہ میں عبادت، خدمت اور تسلسل کے وہ عناصر شامل ہیں جو کسی قوم کے تمدنی شعور کو زندہ رکھتے ہیں، وقف کا تصور اس اعتراف پر مبنی ہے کہ کچھ مال ایسا ہے جو انسان کی ملکیت میں نہیں، بلکہ اس کی روحانی وابستگی میں ہوتا ہے، ریاست جب ایسے ادارہ پر اپنی گرفت مضبوط کرتی ہے تو وہ صرف زمین نہیں چھینتی، ایک روحانی رشتہ کو منقطع کردیتی ہے۔

یہ تصور کوئی نیا نہیں، اسلامی تاریخ میں وقف کا ادارہ علم، فلاح، عدل، اور تمدن کی علامت رہا ہے، عباسیوں کے دور میں وقف کے ذریعہ کتب خانوں، ہسپتالوں، اور مسافر خانوں کا نظام قائم ہوا، سلطنت عثمانیہ میں ہزاروں تعلیمی ادارے، شفا خانے، اور عوامی فلاحی ادارے وقف کی بنیاد پر کھڑے تھے، قاہرہ، دمشق، بغداد اور استنبول کی گلیوں میں وقف کی خوشبو ہر تعلیمی اور تمدنی ادارہ سے آتی تھی، برطانیہ میں بھی چرچ املاک کے لیے الگ ادارے موجود ہیں، جن میں ریاستی مداخلت کا تصور تک نہیں، ہندوستان میں بھی وقف کا نظام مغلیہ دور سے ریاستی معاونت سے نہیں بلکہ عوامی اعتماد سے چلتا رہا ہے۔

حکومت برطانیہ کے دور میں وقف پر قانون سازی کی گئی، لیکن اس کی روح سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی، 1810 میں Bengal Regulation XIX اور دیگر ریاستوں میں بھی اسی جیسا قانون، اور پھر 1913 کا Mussalman Short title and Wakf Validating Act اس کی مثالیں ہیں، انگریزوں نے تجارتی مقاصد کے لیے ضرور متبادل راستے نکالے، لیکن شریعت کے بنیادی اصولوں کو قانون کی سطح پر چیلنج نہیں کیا، اس کے برعکس موجودہ ترمیمی بل میں براہِ راست شریعت کی روح پر وار کیا گیا ہے، جو کہ غیر معمولی تشویش کا باعث ہے۔

بل میں یہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت کسی بھی متنازعہ جائیداد کی ملکیت کا فیصلہ کرے گی، یہ شق بذاتِ خود وقف کے اصولوں کو منسوخ کرتی ہے؛ کیوں کہ وقف شدہ مال کسی انسان یا ادارہ کی ملکیت نہیں ہوتا، بلکہ وہ ’حبس فی سبیل اللہ‘ ہوتا ہے، اسے متنازعہ قرار دے کر ریاستی تصرف میں دینا فقہی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

یہی پیغام تھا جو لوک سبھا کے ایوان میں گونجا جب ممبر پارلیمنٹ جناب اسدالدین اویسی صاحب نے، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر کی حیثیت سے، بل کی کاپی پھاڑ کر اپنے غصہ کا اظہار کیا، اویسی نے اسے صرف ایک قانونی سقم نہیں، بلکہ اقلیتوں کی توہین قرار دیا، ان کے الفاظ میں یہ اقدام گاندھی جی کے جنوبی افریقہ میں احتجاج سے مشابہ ہے، اویسی صاحب کا یہ طریقہ جذباتی ضرور تھا، مگر اس کے پیچھے جو سچائی تھی، وہ ناقابلِ تردید ہے: یہ بل آئین کی روح کے خلاف تو ہے ہی، مسلمانوں کی مذہبی خود مختاری کے خلاف ایک باقاعدہ حملہ ہے۔

اب یہ بل راجیہ سبھا میں جائے گا، جہاں حکومت کو اپنی اکثریت کے بل پر اس کی منظوری کی امید ہے، اگرچہ اپوزیشن جماعتیں اس کی سخت مخالفت کر رہی ہیں، لیکن زمینی حقائق یہی ہیں کہ اب اس بل کو روکنے کے لیے عددی طاقت تو حاصل  ہے نہیں، اس لیے ایک ہمہ گیر فکری مزاحمت کی ضرورت ہے۔

یہ بل درحقیقت ایک خاموش استیصال ہے، جس میں اقلیتوں کو بتایا جا رہا ہے کہ اب ان کے دینی ورثہ پر بھی ان کی گرفت باقی نہیں رہی، وقف بورڈز کی خود مختاری چھیننا، ان کے انتظام میں سرکاری افسران کو دخیل کرنا، اور جائیدادوں کے استعمال کو حکومتی اجازت سے مشروط کرنا، دراصل مذہبی اداروں کو بیوروکریسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ہے۔

قانون کی حکمرانی (Rule of Law) صرف ضابطوں کی بالادستی کا نام نہیں بلکہ اس اصول کا نام ہے کہ قانون سب پر یکساں ہو، اور وہ بنیادی حقوق کا محافظ ہو، لیکن جب قانون خود کسی خاص طبقہ کو کمزور کرنے کے لیے استعمال ہو تو وہ قانون نہیں رہتا، سیاسی ہتھیار بن جاتا ہے، یہی اس بل کی سب سے خطرناک جہت ہے۔

اکثریت پسندی (Majoritarianism) جب آئین کی شکل اختیار کر لے تو اقلیت صرف گنتی کا مسئلہ نہیں رہتی، وہ ایک تہذیبی سوال بن جاتی ہے، یہ بل اسی سوال کو مستقل بنا دینے کی کوشش ہے، اس کا پیغام صاف ہے: تمہاری شریعت، تمہارا نظم، اور تمہارا نظریہ — سب کچھ اب ریاست کی اجازت کا محتاج ہے۔

عدالتوں میں اس بل کے خلاف موقف مضبوط بنیادوں پر قائم کیا جا سکتا ہے، سپریم کورٹ کے متعدد فیصلے—جیسے S.A. Syed v. State of Maharashtra (1966)، اور T.M.A. Pai Foundation v. State of Karnataka (2002)— اقلیتوں کو اپنے مذہبی اداروں کے انتظام کا مکمل اختیار تسلیم کرتے ہیں، آئین کے آرٹیکل 26 کے تحت ہر مذہبی گروہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہبی امور خود چلا سکے؛ لہٰذا ریاست کی مداخلت آئینی حدود سے متجاوز ہے۔

پالیسی کی سطح پر مسلمانوں کو عدالتوں کے راستہ ایک جامع، متبادل تجویز پیش کرنی چاہیے، مثلاً وقف بورڈز میں حساب وکتاب کا ایک آزاد، خود مختار آڈٹ نظام قائم کیا جائے، شریعت سے ہم آہنگ ایک نگران کونسل، جس میں معیاری ماہرینِ قانون، مفتیان کرام، اور مالیاتی ماہرین شامل ہوں، جو شفافیت اور دیانت داری کو یقینی بنائیں، حکومت اگر واقعی شفافیت کی خواہاں ہے تو اسے اقلیتوں کے مذہبی اداروں میں دخل دینے کے بجائے انہیں مؤثر ادارہ جاتی مدد فراہم کرنی چاہیے۔

یہ جد وجہد صرف علماء یا وکلاء کی ذمہ داری نہیں، پوری ملت کی اجتماعی ذمہ داری ہے، ہر وہ شخص جسے وقف کی حقیقت، امت کے مزاج، اور آئین کے وقار سے لگاؤ ہے، اسے اس مہم میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، خاموشی اب جرم  اور  بے عملی اب گناہ سمجھی جائے گی

ہمیں شور سے نہیں، شعور سے لڑنا ہے، ہمیں فتووں سے نہیں، فہم سے مقابلہ کرنا ہے، وقف کا دفاع صرف فقہی نہیں، تمدنی فریضہ ہے، اور یہی فریضہ آج ہمیں آواز دے رہا ہے، اس کی پکار تاریخ میں درج ہوگی یا ہمارے سکوت سے دفن—یہ فیصلہ ہمارے عمل پر ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔