مسلمانوں کے خلاف نفرت کا سیلاب،ملک ایک اور تقسیم کی راہ پر!
از:- سرفرازاحمد قاسمی حیدرآباد
‘حکومت کفر کے ساتھ تو قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم و نا انصافی کے ساتھ قائم نہیں رہ سکتی،یہ قول دراصل خلیفہ رابع،داماد رسول حضرت علی المرتضی کی جانب منسوب ہے،ہندوستان میں ان دنوں اقلیتوں اور خاص طور سے مسلمانوں کے ساتھ جوکچھ ہورہا ہے اور جوسلوک کیاجارہاہے،اس پس منظر میں حضرت علی رض اللہ عنہ کے اس قول کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے،ہندوستان بھر میں مسلمانوں کے خلاف گذشتہ کچھ برسوں سے نفرت وتعصب کی آندھی آئی ہوئی ہے اور یہ اسوقت عروج پر ہے،اب ملک میں مسلمانوں کےلئے پانی سرسے اونچا ہوتا جارہا ہے اور انھیں غلام بنانے کی پوری کوشش کی جارہی ہے،یہ حقیقت ہے کہ ظلم وبر بریت کے ساتھ کوئی بھی ملک زیادہ دیر تک باقی نہیں رہ سکتا اور نہ اسے ٹوٹنے سے بچایا جاسکتاہے،آج بھارت کے جو حالات ہیں اسے سمجھنے کےلئے امریکی تھنک ٹینک کی یہ حالیہ رپورٹ پڑھئے
بھارت میں مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریر میں 74 فیصد اضافہ،مسلمان بڑا ہدف بن گئے،ایک امریکی تھنک ٹینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں ملک کی مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے والی نفرت انگیز تقاریر میں 2024 میں’حیران کن‘ اضافہ ہوا ہے،اس رپورٹ نے 220 ملین سے زیادہ مسلم آبادی کو اپنے مستقبل کے بارے میں بےچین کردیاہے،غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق انڈیا ہیٹ لیب (آئی ایچ ایل) نے ایک رپورٹ میں کہا کہ یہ خطرناک اضافہ’حکمران بی جے پی اور وسیع تر ہندو قوم پرست تحریک کے نظریاتی عزائم کے ساتھ گہرا تعلق ہے،گزشتہ سال بھارت میں انتخابات کے دوران ناقدین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی پر ہندو اکثریت کو متحرک کرنے کے لئے مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کو غیر معمولی سطح تک بڑھانے کا الزام لگایا،ناقدین کے مطابق ان بیانات کا مقصد ہندو اکثریت کو متحرک کرناتھا،مودی نے اپنی ریلیوں میں مسلمانوں کو’گھس پیٹھیا،(درانداز)کہا اور یہ دعوی کیا کہ اگر اپوزیشن جماعت کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ ملک کی دولت مسلمانوں میں تقسیم کردے گی،آئی ایچ ایل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے والی نفرت انگیز تقاریر کے واقعات کی تعداد 2023 میں 668 سے بڑھ کر 2024 میں 1165 ہو گئی، جس میں حیرت انگیز طور پر 74.4 فیصد اضافہ ہوا،رپورٹ کے مطابق 98.5 فیصدنفرت انگیز تقاریر میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا،جن میں سے دو تہائی سے زیادہ واقعات بی جے پی یا اس کی اتحادی حکومتوں کے زیر کنٹرول ریاستوں میں پیش آئے،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چونکہ 2024 عام انتخابات کا سال تھا اس لئے اس نے نفرت انگیز بیانات کے رجحانات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا،تحقیق کے مطابق 98.5 فیصد نفرت انگیز تقاریر مسلمانوں کے خلاف کی گئیں اور ان میں سے دوتہائی سے زائد بیانات ان ریاستوں میں دیئے گئے جہاں بی جے پی یا اسکے اتحادیوں کی حکومت ہے،رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ سب سے زیادہ خطرناک اضافہ ان تقاریر میں ہوا جن میں عبادت گاہوں کو منہدم کرنے کی حمایت کی گئی،رپورٹ کے مطابق بی جے پی رہنماؤں نے 450 سے زائد نفرت انگیز تقاریر کیں،جن میں سے 63 خود مودی کی تھیں،رپورٹ میں کہاگیا کہ مسلمانوں کو خاص طور پر ہندوؤں اور بھارتی قوم کےلئے حقیقی خطرے کے طور پر پیش کیاگیا اور سب سے زیادہ خطرناک اضافہ ان تقاریر میں ہوا جن میں عبادت گاہوں کو منہدم کرنے کی حمایت کی گئی،ہندو بالا دستی کے حامیوں نے مسلمانوں سے مذہبی مقامات واپس لینے کے مطالبے کو مزید شدت دی،یہ رجحان اسوقت مزید بڑھ گیا جب وزیراعظم مودی نے گزشتہ سال کے انتخابات سے قبل ایودھیا میں عظیم الشان رام مندر کا افتتاح کیا،یہ مندر اس جگہ تعمیر کیاگیا ہے،جہاں صدیوں پرانی بابری مسجد موجود تھی،جسے ہندو شدت پسندوں کے ہجوم نے 1992 میں شہید کردیاتھا،انڈیا ہیٹ لیب کے تجزیے کے مطابق نفرت انگیز مواد پھیلانے کےلئے فیس بک،یوٹیوب اور ایکس سب سے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز رہے اور انتخابات کے دوران بی جے پی کے بڑے رہنماؤں کی 266 اقلیت مخالف نفرت انگیز تقاریر کو یوٹیوب،فیس بک اور ایکس پر بیک وقت پوسٹ کیا گیا،یہ تقاریر بی جے پی اور اسکے رہنماؤں کے آفیشل اکاؤنٹ کے ذریعے شیئر کی گئیں،انڈیا ہیٹ لیب، واشنگٹن میں قائم سینٹر فار دی اسٹڈی آف آرگنائزڈ ہیٹ (سی ایس او ایچ) کا حصہ ہے،جو ایک غیر منافع بخش تھنک ٹینک ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کثرت میں وحدت کا وہ خوبصورت چمن ہے جہاں مختلف مذاہب کے لوگ اپنی تہذیب،ثقافت اور زبانوں کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ برسہا برس سے مل جل کر رہتے آئے ہیں،اس ملک کا عظیم ورثہ گنگا جمنی تہذیب ہے جو نہ صرف ہندو اور مسلم ثقافتوں کے حسین امتزاج کی نمائندگی کرتا ہے،بلکہ اس کی جڑیں اس ملک کی صدیوں پرانی تاریخ میں بھی پیوست ہیں لیکن بدقسمتی سے حالیہ برسوں میں کچھ طاقتیں اس گنگا جمنی تہذیب کی فطری ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی مسلسل کوششیں کررہی ہیں،حکمراں پارٹی کے قائدین کی جانب سے آئے دن کچھ نہ کچھ اشتعال انگیزی کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف ملک بھر میں نفرت کے ماحول کو گرم کرنے کی سازشوں کا سلسلہ معمول کی بات بن چکی ہے،خاص طور پر عیدوں اورتہواروں کے موقع پر مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرنا اب عام ہو گیا ہے، جس کی ایک تازہ مثال ہولی تہوار بھی ہے،ہولی کے موقع پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانا اور برادران وطن کو ان کے خلاف اکسانے والے بیانات دینا ایک انتہائی افسوس ناک اور غیر جمہوری عمل ہے،آج کے دور میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور یکجہتی نفرت کی بھینٹ چڑھتی جا رہی ہے،مسلمانوں کے خلاف نفرت کا سیلاب ملک کو ایک اور تقسیم کی جانب لے جا رہا ہے،ایک وقت تھا جب وطن عزیز میں مختلف مذاہب اور فرقوں کے لوگ ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہوتے اور ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرتے تھے،ہندو مسلم کے فرق سے بالاتر ہو کر لوگ دیوالی،ہولی اور دیگر مذہبی تہواروں میں شریک ہوتے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ خوشیاں بانٹتے تھے،محبت کے رشتے کو مضبوط کرتے تھے لیکن آج یہ سب ماضی کی یادیں بن کر رہ گئے ہیں،ہندوستان میں مختلف تہوار اور رنگ برنگی تہذیبیں صرف مذہبی مواقع نہیں تھے بلکہ یہ باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے کا اہم ذریعہ تھے،ایک دوسرے کے مذہبی و ثقافتی معاملات کا احترام کرنا ہماری قدیم روایات کا حصہ تھا،ان تہواروں کے دوران ایک دوسرے کے ساتھ مسکراہٹیں اور خوشیاں بانٹنا ہماری جمہوریت اور ثقافت کی خوبصورتی تھی جسے اب بالکل ختم کردیا ہے،اتر پردیش سے لے کر اترا کھنڈ،مدھیہ پردیش اور بہار سے لے کردلی،گجرات اور مہاراشٹر تک ہر جگہ تعصب،تنگ نظری اور اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز بیانیے کا سیلاب پورے ملک میں جاری ہے،جس کا مقصد مسلمانوں کو ہراساں کرنا اور ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا ہے،بی جے پی حکومت کی سربراہی میں اقلیتوں اورمسلمانوں کے ساتھ جو رویہ اپنایا جا رہا ہے وہ ریاست کے آئینی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے،یو پی کے وزیراعلی یوگی کی قیادت میں پولیس اور انتظامیہ کا طرز عمل بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری کے طور پر دیکھا جا رہا ہے،سنبھل کے پولیس افسر کا یہ کہنا کہ جو لوگ ہولی کے رنگوں سے پریشان ہیں وہ گھروں میں رہے،ایک سرکاری عہدے دار کے لئے انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز بیان ہے،اس کا مقصد مسلمانوں کو یہ باور کروانا ہے کہ انہیں اپنی مذہبی آزادی کے اظہار کے لئے اس ملک میں کوئی جگہ نہیں دی جا سکتی،یو پی کے وزیر رگھو راج سنگھ کا یہ بیان کہ مسلمان مرد ہولی کے دوران ترپال کے حجاب پہنیں،اتر پردیش کے بلیا میں کیتکی سنگھ کا یہ بیان کہ مسلمانوں کےلئے میڈیکل کالج میں علیحدہ عمارت ہونی چاہئے،ایک نئی قسم کی تفریق اور نسلی عصبیت کو جنم دیتا ہے جو درحقیقت مذہبی ہم آہنگی کو ختم کرنے اور تقسیم کی خلیج کو گہرا کرنے کی دانستہ کوشش ہے،بلیا کے بانس ڈیہہ سے خاتون رکن قانون ساز اسمبلی کا یہ بیان واضح کرتا ہے کہ بی جے پی حکومت کے نمائندے علیحدگی پسندانہ نظریات کو فروغ دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے،یہ محض زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتاہے جسکے نتائج نہایت بھیانک ہوسکتے ہیں،اتر پردیش میں جس طرح مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے وہ ایک ایسی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے جو اقلیتوں کو دبانے اور انہیں بے یار و مددگار بنانے کے ایجنڈے پر کاربند ہے،یوگی حکومت نے متعدد مواقع پر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اکثریتی طبقے کے انتہا پسند عناصر کو خوش کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے،بی جے پی کا ایجنڈا صرف سیاسی فائدے کے لئے مذہبی منافرت کو ہوا دینا ہے،یہی وجہ ہے کہ جب کوئی پولیس افسر یا کوئی وزیر اقلیتوں کے خلاف متعصبانہ بیان دیتا ہے تو حکومت اسے خاموش کروانے کے بجائے اس کے دفاع میں کھڑی ہو جاتی ہے،سنبھل پولیس افسر کا بیان اور یوگی آدتیہ ناتھ کا اس کی حمایت کرنا اسی پالیسی کا تسلسل ہے،مسلمانوں کو گھروں میں قید کرنے اور انہیں ان کی مذہبی آزادی سے محروم کرنے کی کوشش درحقیقت ایک ایسے ماحول کی تیاری ہے جہاں مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر کمزور کیا جا سکے یہ معاملہ محض زبانی بیانات تک محدود نہیں بلکہ ان کے عملی اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں مختلف علاقوں میں مساجد کے اماموں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے نماز جمعہ کے اوقات میں تبدیلی کریں تاکہ ہولی کی رنگ ریلیاں بے روک ٹوک جاری رہ سکیں،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ملک کا آئین تمام شہریوں کو مساوی حقوق فراہم کرتا ہے تو پھر ایک مخصوص طبقے سے یہ مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے مذہبی فرائض کو ثانوی حیثیت دے اگر یہی رویہ برقرار رہا تو مستقبل میں کیا کوئی بھی اقلیتی کمیونٹی اپنے مذہبی آزادی کو محفوظ سمجھ سکے گی؟ مسئلہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ اس طرز حکمرانی سے پورے ہندوستانی سماج کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے،اگر آج مسلمانوں کو الگ کالج، الگ ہسپتال،الگ لباس، اور الگ عبادات کے اصول تھوپے جا رہے ہیں تو کل کسی اور اقلیت کو نشانہ بنایا جائے گا،ہندوستانی معاشرے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ایسے بیانات پر سخت قانونی کارروائی کی جائے مگر جب ریاستی حکومت خود ان نظریات کو ہوا دے رہی ہو تو عدل و انصاف کی امید رکھنا محض خام خیالی کے سوا اورکچھ نہیں ہے۔
بھارت میں مسلمان ایک معاہدے کے تحت ہے،اس ملک میں یگر قوموں کے ساتھ مسلمانوں کا اشتراک ایک معاہدے کی حیثیت رکھتاہے،اسی معاہدے کے نتیجے میں بھارت کا سیکولر دستور مرتب کیاگیا،آزادی کے بعد جب یہ ملک تقسیم ہوا تو اسوقت مسلم لیڈران نے اندیشے ظاہر کئے تھے لیکن ہم سے کہا گیا اور وعدہ کیا گیا کہ اس ملک میں آپ کو مکمل آزادی حاصل ہوگی،آپ بلاروک ٹوک اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے زندگی گذارسکیں گے،تمام بنیادی حقوق آپ کو حاصل ہونگے،لیکن آج ملک میں کیا ہورہاہے؟نہ یہاں مسلمانوں کو انصاف مل رہا ہے نہ آزادی مل رہی ہے،نہ دستور میں دئیے گئے حقوق مل رہے میں ایسے میں ہمارے پاس کونسا راستہ بچتاہے؟ملک کے حالات جب اتنے سنگین ہوچکے ہیں تو پھر یہاں مسلمانوں کا مستقبل کیاہے؟ملک کی جو حقیقت ہے اسے تسلیم کرنا پڑے گا،جب غریب اور امیر کےلئے الگ الگ نظام ہو،ملک میں عدل وانصاف کا جنازہ نکالا جارہا ہو،عدل فروخت ہونے لگے،انصاف عنقاء ہوجائے لوگوں کا اعتماد عدلیہ سے ختم ہونے لگے تو ہمیں یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ملک انتہائی مشکل حالات سے گذر رہاہے،دانشور،سمجھدار اور سنجیدہ لوگوں کو ضرور ان حالات کا جائزہ لیکر اسکا سدباب کرنا چاہئے تاکہ ملک متحد اور مضبوط رہے،آج جب مسلم تنظیمیں وقف بل کے خلاف آواز اٹھارہی ہیں اور تحریک چلارہی ہیں توانھیں پوری قوت کے ساتھ یہ سوالات بھی اٹھاناچاہئے،بھارت کی عدلیہ اور سول سوسائٹی پر بھی یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بڑھتی ہوئی فسطائیت کے خلاف مضبوط آواز اٹھائیں اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم کریں،اگر اس روش کو نہ بدلا گیا اور اس میں سدھارنہ لایا گیا تو ملک کو ایک اور تقسیم سے کوئی نہیں روک سکتا،اس طرح کی چیزیں ملک کے جمہوری ڈھانچے کو کھوکھلا اورمنتشر کر دے گی اور وہ ہندوستان جو کبھی اپنے سیکولرازم اور کثرت میں وحدت پر فخر کرتا تھا ایک تنگ نظر اور انتہا پسند ریاست میں تبدیل ہو جائے گا،بھارت کےلوگوں کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ہندوستان کی اصل طاقت اس کی گنگا جمنی تہذیب میں ہے جہاں ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر احترام اور محبت کے ساتھ رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے تہواروں میں شرکت کرتے ہیں یہی ہندوستان کا حقیقی چہرہ ہے،اگر یہ سب ختم ہوگیا تو یہ ملک کی بڑی بدقسمتی ہوگی اور پھر ملک کے مستقبل کی کوئی گارنٹی نہیں دی جاسکتی ہے،مسلمان اگر زندہ قوم ہے تو پھر انھیں پوری مضبوطی کے ساتھ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم ابھی زندہ ہیں اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے سرگرم بھی۔
(مضون نگار،معروف صحافی اورکل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)