از:- محمد سالم سَرَیَّانوی
اہل غز_ہ اور اہل فلس_طین جن حالات ومشکلات سے دوچار ہیں اور جس انتہائی درجہ کے مظالم کے شکار ہیں وہ روز روشن کی طرح واضح ہیں، ابھی حالیہ دو تین دنوں میں جس طرح کے مصائب اور بربریت ودہشت گردی کا ان لوگوں نے سامنا کیا ہے وہ آخری درجہ کی بربریت اور دہشت گردی ہے، لغت میں اس کی حقیقی تعبیر تلاش کی جائے تو لغت جواب دینے سے قاصر ہوگی، مسلسل بمباریوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی شدت کے ساتھ انسانی بدن کا ہوا میں بلند ہونا جس کی بہت سی ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں ، وہ اتنی بھیانک اور قیامت خیز ہیں کہ ان کو دیکھنا مشکل ہے، عجیب وغریب منظر ہے جس کا تصور کم از کم ہمارے اس زمانے میں تو متصور نہیں تھا۔
اور یہ سب کچھ اس قوم اور اس کے ساتھ شریک دوسری اقوام کی طرف سے ہورہا ہے، جو بزعم خود انسانیت کے علم بردار اور ٹھیکے دار ہیں، جن کا نعرہ ہے کہ ہم دنیا میں امن وامان اور انسانیت نوازی کے لیے کوشاں ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے جو ہمارے سامنے ہے۔
اہل غز_ہ اور اہل فلس_طین ایک لمبے زمانے سے مشکلات کے سایے میں زندگی گزار رہے ہیں، ان کی زندگی کی مشکلات محض اسلام اور مسلمان کے ہونے کے ناطے ہے، مشکلات ومصائب ڈھانے والے وہ لوگ ہیں جن کو قرآن نے ’’اشد عداوۃ للذین آمنوا‘‘ سے تعبیر کیا ہے، یعنی کہ مسلمانوں سے سب سے زیادہ نفرت ودشمنی رکھنے والے یہود ہیں، ان یہود کی سرشت اور ڈی این اے میں نفرت، عداوت، دشمنی، قتل وغارت گری اور خون ریزی کوٹ کوٹ کر داخل ہے، یہ ان کی آبائی وراثت ہے، ان کے آبا نے جب انبیاء تک کو نہیں چھوڑا تو عام مسلمانوں کی صورت حال ہی الگ ہے، سورہ آل عمران کی آیت نمبر 21 میں اللہ تعالی نے اس بات کو بیان فرمایا ہے۔
اِس وقت غز_ہ کے جو حالات ہیں ان سے ہر مسلمان فکر مند ہے، درد وکڑھن ہر کوئی محسوس کررہا ہے، ہر کوئی ایک ناقابل بیان تکلیف سے دوچار ہے جس کی حقیقت کو ذکر کرنا بھی مشکل ہے، ان سخت حالات میں مایوسی ونا امیدی کی فضا بھی قائم ہورہی ہے، حالات کو دیکھ کر اس قدر تکلیف ہورہی ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں گو مگو کی کیفیتیں پیدا ہورہی ہیں اور بعضوں کے دلوں میں شکوک وشبہات بھی پیدا ہورہے ہیں۔ جب کہ مشکلات ومصائب میں ہی اصل ایمان واستقامت کا جائزہ اور امتحان ہوتا ہے، اللہ تعالی سے تعلق اور رشتے کو پرکھا جاتا ہے، عام حالات میں آزمائشیں نہیں ہو پاتی ہیں۔
اہل غز_ہ کی صورت حال یہ ہے کہ وہ مشکلات ومصائب کو اصل جھیلنے والے ہیں، جن حالات سے وہ دوچار ہیں ہم ان کا حقیقی ادراک تو درکنار حقیقی تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں، لیکن پھر بھی وہ نا امید اور مایوس نہیں ہیں، بل کہ وہ ایمان واستقامت کا استعارہ بنے ہوئے ہیں، جس استقامت اور پامردی کا انھوں نے ثبوت دیا ہے اور مسلسل دے رہے ہیں، ہم لوگوں سے تو شاید اس کا امکان ہی نہیں ہے، اہل غز_ہ کے ایمان واستقامت کی موجوہ صورت حال خیر القرون اور حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی زندگی سے ملتی ہے، اہل غز_ہ کو شوق شہادت ہے، ایمان سے عشق کا تعلق ہے اور وہ ان تمام مشکلات وحالات میں شہادت پیش کرتے ہوئے خدا سے جا ملتے ہیں۔
ہم لوگ جو وہاں سے دور ہیں، موجودہ حالات سے کشمکش کی صورت سے دوچار ہیں اور مایوسی سرایت کررہی ہے، مایوسی دو طرف سے ہے، ایک تو یہی کہ آخر ایمان واستقامت کے بعد اتنی مشکلات کیوں؟ دوسرے مسلم ممالک کی بے حسی اور بے بسی، اتنی طاقت، اسباب اور تعداد کے باوجود بحیثیت امت مسلمہ اہل فلسطین اور اہل غز_ہ کا تعاون نہیں ہے، یہ مسلم ممالک اپنی دنیا میں ہی مگن ہیں، ان کو ’’انما المؤمنون اخوہ‘‘ کا سبق ہی یاد نہیں ہے، انھیں یہ بھی یاد نہیں ہے کہ مسلمان قوم بحیثیت مسلمان ایک جسم کے مانند ہے، اگر کسی عضو میں تکلیف ہو تو سارے بدن کو درد اور تکلیف محسوس ہوتی ہے۔
عام مسلمان جن کو وہاں کی مشکلات دیکھی نہیں جاتیں وہ ان کے تعاون سے بھی قاصر ہیں، ان کے پاس وہ اسباب نہیں ہیں جن سے ان کی مدد کر سکیں، بس بے بسی ہی بے بسی ہے، ایسے میں دور رہ کر جو بھی کرنا ممکن ہواس کے کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے، خواہ وہ ظلم کے خلاف لکھنے سے ہو، بائیکاٹ سے ہو، دوسروں کو ظلم کے خلاف آمادہ کرنے سے ہو، صدقہ وخیرات کرنے سے ہو یا دعا کرنے سے ہو، جو کچھ میسر ہو وہ کرنا چاہیے۔ اور یہ بھی سوچنا چاہیے کہ امت مسلمہ پر حالات ومصائب کا آنا کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ تو شروع سے جاری ہے، انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی زندگیاں نمونہ ہیں، حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی زندگیاں اسوہ ہیں، خود اللہ رب العزت نے حالات ومشکلات کے حوالے سے ارشاد فرمایا ہے کہ اہل ایمان اس قدر آزمائے گئے کہ وہ خدا کی مدد سے مایوس ہونے لگے، مگر پھر اللہ کی مدد آئی۔ سورہ بقرہ کی آیت میں یہ مضمون ارشاد فرمایا گیا ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مایوس ہونے کے بجائے اللہ تعالی کی ذات سے بھروسہ رکھنا چاہیے، اس کی مدد بہر حال شامل ہوگی، ساتھ ہی جنت میں داخلہ کے لیے مشکلات ومصائب کو جھیلنا اور برداشت کرنا بھی پڑے گا، جیسے کہ اہل غز_ہ کررہے ہیں۔ سورہ بقرہ کی آیت درج ذیل ہے:
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوْا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَأْتِکُمْ مَثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ مَسَّتْہُمُ الْبَأْسَآئُ وَالضَّرَّآئُ وَزُلْزِلُوْا حَتَّی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہُ مَتَی نَصْرُ اللّٰہِ اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ۔ (البقرہ:۲۱۴)
ترجمہ: کیا تم گمان کرتے ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤگے، حالاں کہ تم پر اب تک ان لوگوں جیسے حالات نہیں آئے جو لوگ تم سے پہلے گزرے ہیں، ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں اور انھیں ہلا ڈالا گیا، یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ ایمان رکھنے والے بول اٹھے کہ ’’اللہ کی مدد کب آئے گی؟‘‘ یاد رکھو! اللہ کی مدد نزدیک ہے۔
اِ س وقت وطن عزیز کے حالات بھی پہلے سے ناگفتہ بہ ہیں اور مسلسل ناسازگاری کی طرف بڑھ رہے ہیں؛ اس لیے ہمیں بھی چوکنا رہنے اور آگے آنے والے حالات سے نمٹنے کے لیے ہر دو سطح یعنی باطنی اور ظاہری سطح پر تیار رہنے کی ضرورت ہے، خدا ورسول کے سے تعلق کی مضبوطی اور اسباب وآلات کے تحت اپنی حفاظت کا انتظام کرنا لازمی ہے۔ اس کے لیے بہت دور جانے کی ضرورت نہیں، بل کہ اپنی ذات سے شروع کرکے دوسروں تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اہل غز_ہ کی غیبی مدد فرمائے اور ان کی حفاظت کے لیے اپنے شایان شان انتظام فرمائے اور ہ سب کو اپنی مرضیات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائیـ۔ آمین