از:- معصوم مرادآبادی
شہرہ آفاق دینی درس گاہ ندوۃ العلماء کے ناظم مولانا سید رابع حسنی ندوی 13/اپریل 2023 کو ہم سے جدا ہوگئے۔ان کے انتقال سے پوری ملت سوگوار ہے۔ وہ بلاشبہ ایسی شخصیت تھے، جن کی موجودگی ملت اسلامیہ کے لیے نعمت سے کم نہیں تھی، لیکن موت ایک ایسی حقیقت ہے جس نے دنیا کے عظیم ترین اور حسین ترین انسانوں کو بھی نہیں بخشا، مولانا رابع حسنی تو حکم ربی کے تحت برسوں سے اس کی تیاری کررہے تھے۔ انھوں نے رمضان کی مبارک ساعتوں میں داعی اجل کو لبیک کہا۔جن لوگوں نے ان کی نمازجنازہ اور تدفین کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، وہ اس کی گواہی دیں گے کہ اللہ کے نیک بندوں کا سفر آخرت کیسا ہوتا ہے۔
نہایت نازک خد وخال کے مالک مولانا سید رابع حسنی کو میں نے جب بھی اور جہاں بھی دیکھا تو مجھے ان کی شخصیت، وضع قطع، گفتگو، نشست و برخاست میں مولانا علی میاں کا پرتو ہی نظر آیا۔ یوں تو وہ رشتے میں مولانا علی میاں کے بھانجے تھے، لیکن مولانا علی میاں چونکہ لاولد تھے، اس لیے انھوں نے مولانا رابع حسنی کی تربیت اپنی صالح اولاد کی طرح کی تھی۔ وہ سائے کی طرح ان کے ساتھ رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کی شخصیت ایک ہی سانچے میں ڈھل گئی تھی، یہاں تک کہ گفتگو اور لب ولہجہ بھی ایک جیسا تھا۔
میں نے اپنی صحافتی زندگی میں مولانا علی میاں کو جتنا دیکھا، اتنا میں مولانا رابع کو نہیں دیکھ پایا۔ دراصل شاہ بانو معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کی جو تحریک مولانا علی میاں کی قیادت میں شروع ہوئی تھی، اسے میں نے ایک اخبار نویس کے طور پر بہت قریب سے دیکھا۔ دہلی، بمبئی، لکھنؤ اور حیدرآباد میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی میٹنگوں میں مجھے علی میاں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔یہ میری صحافتی زندگی کا ابتدائی دور تھا۔میں نے ان کی شخصیت میں جو رچاؤ،گہرائی، معاملہ فہمی،دوراندیشی، نرمی اور ملائمت دیکھی وہی مولانا رابع صاحب کا بھی خاصہ تھی۔ وہ انتہائی منکسرالمزاج تھے اور چھوٹوں کے ساتھ بڑی شفقت کاسلوک کرتے تھے۔اللہ کے برگزیدہ بندوں کی طرح نگاہ ہمیشہ نیچی رکھتے تھے، لیکن سر بلند۔ انھوں نے اپنی زندگی میں شاید ہی کبھی کسی کی دل آزاری کی ہو۔ ان کی اس خوبی کا بعض لوگوں نے ناجائز فائدہ بھی اٹھایا۔
ان کے انتقال سے ندوہ کو تو نقصان ہوا ہی،خود مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی یتیم ہوگیا۔ اب شاید ہی کوئی ان جیسا انسان اس کی قیادت کا اہل ہوسکے۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کی داغ بیل جن اکابرین نے ڈالی تھی وہ بڑے خداترس اور گوشہ نشین لوگ تھے۔ شہرت و ناموری سے ہمیشہ دور رہتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ سنبھل میں 1986 میں دینی تعلیمی کونسل کا اجلاس تھا۔ جس کی صدارت مولانا علی میاں فرمارہے تھے۔ میں ایک رپورٹر کے طور پر وہاں موجود تھا۔ جب میں نے اپنے کیمرے سے اسٹیج کی فوٹو لینے کی کوشش کی تو ایک صاحب نے مجھے ٹوکا کہ تصویر اتارنا جائز نہیں ہے۔ میں نے خاموشی سے اپنا کیمرہ بند کرکے رکھ لیا۔ آج دیکھتا ہوں کہ ہمارے علماء اخبارات میں تصاویر کی اشاعت کو اپنی معراج سمجھنے لگے ہیں۔مولانا رابع صاحب ہمیشہ اپنا چہرہ رومال سے ڈھکے رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کوئی تصویر ایسی نہیں ہے جسے دیکھ کر یہ گمان ہو کہ وہ تصویر کھنچوانے کے لیے کھڑے ہیں۔
مولانا سید رابع حسنی ندوی کی ولادت یکم اکتوبر1929 کورائے بریلی کے تکیہ کلاں میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے خاندانی مکتب رائے بریلی میں ہی مکمل کی۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے دار العلوم ندوۃ العلماء میں داخل ہوئے۔ 1948ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء سے فضیلت کی سند حاصل کی۔ 1949ء میں تعلیم مکمل ہونے کے بعد دار العلوم ندوۃ العلماء میں معاون مدرس کے طور پر تقرر ہوا۔ اس کے بعددعوت و تعلیم کے سلسلہ میں 1950 اور 1951 کے دوران سعودی عرب میں قیام رہا۔ان کی تربیت تاریخ کے عظیم انسانوں کے ہاتھوں ہوئی۔ایک طرف جہاں انھیں مولانا علی میاں کی سرپرستی حاصل تھی تو وہیں دارلعلوم دیوبند میں انھیں جن عبقری علمائے کرام سے شرف تلمذ حاصل ہوا، ان میں مولانا حسین احمد مدنی اورشیخ الحدیث مولانا محمدزکریاجیسی شخصیات شامل ہیں۔
1955ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء کے کلیۃ اللغۃ العربیۃ کے وکیل اور 1970ء میں عمید کلیۃ اللغۃ مقرر ہوئے۔ عربی زبان کی خدمات کے لیے انڈیا کونسل اترپردیش کی جانب سے اعزاز دیا گیا، اس کے بعد اسی سال صدارتی اعزاز بھی دیا گیا۔
1993ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم بنائے گئے، 1999ء میں نائب ناظم ندوۃ العلماء اور 2000ء میں مولانا ابو الحسن علی حسنی ندوی کی وفات کے بعد ندوۃ العلماء کے ناظم مقرر ہوئے۔ جون، 2002ء میں حیدرآباد، میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سابق صدر قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی وفات کے بعد متفقہ طور پر صدر منتخب ہوئے۔ان کا یہ دور صدارت بڑی آزمائشوں کا رہا۔
مولانا سید رابع حسنی ندوی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے چوتھے صدرتھے،نیز آپ عالمی رابطہ ادب اسلامی ریاض (سعودی عرب) کے نائب صدر اور رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے رکن اساسی بھی تھے۔آپ عربی اور اردو زبانوں میں تقریباً 30 کتابوں کے مصنف تھے۔
مولانا رابع حسنی ندوی ہمارے مذہبی قائدین کی اس صف کے آخری آدمیوں میں ایک تھے، جن کے تقوے وطہارت پر ہمیں ناز ہوسکتا ہے۔ان کے مزاج کی نرمی کا فائدہ اٹھاکر بعض لوگوں نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے پلیٹ فارم کا بے جا استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔آج اسلامیان ہند کو اپنی مذہبی شناخت اور پرسنل لاء سے متعلق جو چیلنجز درپیش ہیں، انھیں حل کرنا ہرکسی کے بس کا رروگ نہیں ہے۔ صالح اور بلند کردار قیادت کی آخری صف دنیا سے رخصت ہوا چاہتی ہے۔ ایسے لوگ مسلمانوں کی مذہبی اورسیاسی قیادت کے دعویدارہیں، جن پر اعتبارکرنا مشکل ہے۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ ملت مظلوم کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے اور مولانا رابع حسنی صاحب کی قبر کو نور سے بھردے۔آمین
وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا