خالدانورپورنوی کے قلم سے
قسط نمبر۱۔
‘ ‘میری ماں کہاں ہے،مجھے میری ماں چاہئے،ماں تو کہاں ہے ‘ ‘زخموں سے چور،لرزتے ہونٹ، کپکپاتے بدن، ایک معصوم فلسطینی بچہ نے روتے، بلکتے، سسکیاں لیتے،اسپتال کے ڈاکٹرسے یہ جملے کہے،وین امی ، وین امی،اس لفظ کو سنتے ہی ہماری آنکھیںنم ہوگئیں،جذبات بے قابو ہوگئے،کلیجہ منہ کو آنے لگا،جگرشق ہوا چاہتا ہے ، بلکہ جس کے اندر بھی انسانیت کی رمق موجود ہے،اس معصوم فلسطینی بچہ کے سوال کو سن کر اس کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے، کوئی پتھردل ہی ہوگاجسے احساس نہیں ہوگا،پتہ ہی نہیں کیسے وہ ظالم لوگ ہیں جو ان معصوموں پر بم برساکرچین کی نیند سوجاتے ہیں؟۔
ایک اور معصوم فلسطینی ہے،عمر چارسے پانچ ماہ ہے،باپ کے گودمیں ہے،ماں کو تلاش کررہاہے،باپ کی آنکھوں میں آنسو،دل دردسے پھٹا جارہا ہے، لیکن اس بے زبان معصوم کو یہ جواب دینے کی اس میں ہمت نہیں ہے کہ اب تمہاری ماں اس دنیامیں نہیں ہے،اس طرح کے ہزاروں واقعات ہردن پیش آرہے ہیں،یہ دنیا ہردن دیکھتی ہے،حقوق انسانی کے علمبرداروں کے سینے میں شاید فلسطینوں کے لئے دل نہیں ہے،عالمی منظر نامے میں سپرپاور کہلوانے والوں کی زبانیں گونگی ہوگئی ہیں،ادھر دیکھو!ایک بچہ کھڑاہے،بیڈ پر ماں ہے ، عمرکوئی پانچ سال کے قریب ہے،لیکن لگتاہے،اس کی ماں بھی اب دنیامیں نہیںہے،یتیم اور بے سہارہ پانچ سال کایہ معصوم آپ سے،ہم سے،دنیائے انسانیت سے،عالم اسلام سے سے پوچھ رہاہے،میری ماں کا کیا قصور کیاتھا؟اب میں کس کے سہارے رہوں گا،کون ہے جومیراسہارہ بنے گا؟۔
لاشوں کی سیڑھی پر چڑھ کر بھاشن دیتے اور اپنی سیاست چمکاتے تو بہت دیکھاہے،لیکن پہلی بار دنیائے انسانیت نے ہزاروں لاشوں کے بیچ ڈاکٹروں کو پریس کانفرنس کرتے بھی دیکھ لیا، ادھر بھی بچے،ادھر بھی بچے ، کٹے ہوئے سر بچے،منہدم عمارتوں کے نیچے بچے،کفن میں لپٹے ہوئے بچے،خون سے لہولہاں ماؤں کے گود میں بچے،شہیدماں،باپ کی لاشوں سے چمٹے ہوئے بچے،پانی کی ایک ایک بوند کوترستے ہوئے بچے،ہاتھ ہے ، تو پیر نہیں ،پیر ہے،تو چہرہ نہیں ہے،جسم ہے،لیکن جل کرراکھ ہوچکاہے،جن کی عمریں کھیلنے،کودنے کی تھی،وہ خون میں تڑپ ،تڑپ کر جان کردے رہے ہیں، ڈاکٹروں نے کیمرہ زوم کرکے دنیاکو دکھایاتو دنیائے انسانیت کانپ اٹھی، ہزاروں،لاکھوں کی تعدادمیںفلسطین کے الاہلی اسپتال میں کفن میں ملبوس بے یارو مددگار معصوم بچے ہیں،کل جسے ان کے ماں ،باپ نے یہ سوچ کر اپنے لہولہاں بچوں کو اسپتال میں ایڈمیٹ کیاتھاکہ ان کامکمل علاج ہوگا ، شفایابی ملے گی،صبح کو نہ بچہ ہے،نہ اسپتال ہے،اور نہ ان کے ماں،باپ ہیں،شام کے سات بجے اسپتال میں ہی بموں کی بارش ہوتی ہے،اور پل بھرمیں سب کچھ تباہ وبرباد ہوجاتاہے،چاروں طرف صرف لاشوں کاایک سمندر ہے ،اوروہ لاشیں سوال کررہی ہیں،ہمارا قصورکیاتھا؟۔
غزہ اب پوری طرح تباہ ہوچکاہے،جہاں کل تک خوبصورت عمارتیں تھیں،آج وہاں کھنڈرات ہیں ، پرکشش، جاذب اور پرشکوہ مکانات جوکل تک لوگوں کی توجہ کامرکز تھے،آج وہاں روح فرسا،دردناک مناظر ہیں ، اور یہ سب اسرائیل کی دہشت گردی کاایک چھوٹا سانمونہ ہے،لیکن اس کے باوجود جوبائیڈن امریکی صدر ،نیتن یاہو سے گلے ملتے ہیں،پیٹھ تھپتھپاتے ہیں،اس کو کلین چٹ دیتے ہیں،اوردنیائے انسانیت خاموش تماشائی ہے،اس کامطلب واضح ہے کہ انسانیت یاتو مرچکی ہے،یاکسی مغربی طاقتوں کے سامنے سجدہ ریز ہوچکی ہے!۔
جنگیں اس سے قبل بھی دنیابھرمیں ہوتی رہی ہیں،لیکن اس کے اصول کایہ لازمی حصہ ہے کہ بالقصد عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایاجاسکتاہے،لیکن یہاں پر اسرائیل نے حماس کے خلاف جنگ میں نہ صر ف یہ کہ عام شہریوں ،بچوں،نوجوانوں کو نشانہ بنایا،بلکہ 17 اکتوبرکی شام الاھلی اسپتال میں ہی بموں ،راکٹوں اور ٹینکوں کی بارش کردی،ایک ہی وقت میں پانچ سو سے زائد معصوم فلسطینی شہید ہوگئے،اس میں زیادہ ترمعصوم بچے تھے ، یہ سلسلہ تھما نہیں ہے،دیگراسپتالوں کے قریب بھی یہ سلسلہ جاری ہے،رپورٹ کے مطابق ہرپندرہ منٹ میں ایک بچہ،اور ایک دن میں سو بچے دہشت گرد اسرائیل کی بمباری میں شہید ہورہے ہیں،اور جوزندہ ہیں، ان کے لئے پانی، بجلی ، دیگرزندگی گذارنے والی ساری اشیاء کی سپلائی بند کردی گئی ہے، امریکہ، جرمنی، فرانس ، اٹلی ، انگلینڈ جیسے مغربی ممالک نے اسرائیل کی اس بربریت کی کھلے عام حمایت بھی کردی ہے،یعنی دنیاکو انسانیت کا پاٹھ پڑھانے والی طاقتوں نے انسانیت کے خلاف اس جنگ میں خود کو حصہ داربنالیاہے،ایسے میں عالم اسلام کی ذمہ داری ہے کہ وہ سلطان صلاح الدین کا کردار پیش کرنے میں بخالت سے کام نہ لیں۔