از:- سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد
وقف ایکٹ کےذریعے مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور وقف املاک کے انتظامی حقوق میں واضح مداخلت کی جا رہی ہے،جو نہ صرف آئینی اصولوں کے خلاف ہے، بلکہ مسلمانوں کے مذہبی عقائد پر براہ راست ایک بڑا حملہ ہے یہ قانون مسلمانوں کی مذہبی خود مختاری کو سلب کرنے اورمسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش بھی ہے،آئینی اقدار کے دعویداروں نے رات کی تاریکی میں یہ سیاہ ایکٹ منظور کر کے یہ ثابت کر دیا کہ انہیں نہ عوام کی رائے کا احترام ہے اور نہ ہی آئین کی روح کی کوئی پرواہ ہے،رات کی تاریکی میں گواہوں کے ہجوم کے بغیر بحث کی روشنی سے دور عجلت اور بے دردی کے ساتھ وقف ترمیمی بل پاس کیا گیا،دعوی جمہوریت کا اور فیصلے شب خون کے انداز میں کئے گئے،راجیہ سبھا میں 8 گھنٹوں کی بحث کے بعد جب اپوزیشن نے وقت کی توسیع کی مزاحمت کی تو اسے کسی رسمی عمل کی طرح نظر انداز کردیا گیا، ایوان زیریں اور ایوان بالا دونوں کو ایوان مکر میں بدل دیا گیا اور پھر اچانک وقت بڑھا کر رات کی خاموشی میں ووٹنگ کرائی گئی،لوک سبھا میں 288 ووٹوں کی اکثریت ہو یا راجیہ سبھا میں 128 ووٹوں کا زور، یہ صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ جمہوریت پر شب خون ہے،ایوان میں چیخ چیخ کر بولنے والے ارکان کی آوازیں اس امر کی غمازی کرتی رہیں کہ فیصلے پہلے ہو چکے ہیں،بحث صرف ایک رسمی خانہ پوری کے سوا کچھ بھی نہیں ہے،یہ اس نظام کی بدنصیبی ہے کہ جہاں اقلیتوں کے حقوق ان کے دینی اور سماجی تشخص اور ان کے اداروں پر شب خون مارنے کو تاریخی اصلاح کا نام دے کر تالیاں بھی بجائی جا رہی ہیں اورانھیں مشتعل کرنے کےلئے ایوان میں جے ایس آرکے نعرے بھی لگائے جارہے ہیں،بی جے پی حکومت نے جس ڈھٹائی کے ساتھ اس قانون کو منظور کیا وہ محض وقف ایکٹ کی تضحیک نہیں بلکہ ہندوستان کے آئین،اس کے سیکولر ڈھانچے اور اقلیتوں کے آئینی حقوق کا سرعام تمسخر ہے،غیر مسلم ممبران کی وقف بورڈ میں شمولیت کی لازمی شرط ہو یا زمین دینے والوں کے لئے عملی مسلمان ہونے کی پانچ سالہ تصدیق یہ سب کچھ اس سازش کی نشانیاں ہیں جو مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری میں تبدیل کرنے کی طرف قدم بقدم بڑھ رہی ہے،حکومت نے اس بل کے ذریعے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ نہ صرف اقلیتوں کے مذہبی اداروں کو کنٹرول میں لینے کا ارادہ رکھتی ہے بلکہ وہ اس عمل کو آئندہ مزید اقلیت دشمن قوانین کی بنیاد بنانا چاہتی ہے، آج وقف نشانے پر ہے تو کل گرجا گھروں اور گرو دواروں کی باری ہے،بی جے پی کو یہ گمان ہے کہ اسے عوام کی تائید حاصل ہے مگر وہ یہ بھول جاتی ہے کہ عوام فقط ووٹ نہیں ہوتے وہ جذبات، تاریخ، ثقافت اور شناخت کا مجموعہ ہوتے ہیں جب یہ شناخت چھینی جاتی ہے،جب یہ جذبات مجروح کئے جاتے ہیں تو تحریکیں جنم لیتی ہیں آج اگر پارلیمنٹ کے دونوں ایوان بی جے پی کے مرضی سے قانون سازی میں مصروف ہیں تو کل عوام اپنی مرضی سے اقتدار کے ایوانوں کا نقشہ بدلنے کا ہنر بھی رکھتے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ یہ بل ایک آئینی سانحہ ہے،ایک جمہوری زخم ہے اور ایک مذہبی جارحیت ہے مگر تاریخ گواہ ہے کہ جو زخم صبر سے سہے جاتے ہیں وہ وقت کے ساتھ چراغ مزاحمت بن جاتے ہیں،بی جے پی شاید یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ تین طلاق کے بعد وقف پر وار بھی کامیاب ہوگا اور آگے یکساں سول کوڈ کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی مگر تاریخ گواہ ہے کہ ظلم چاہے قانونی جامہ میں لپٹا ہوا ہو،دیر پا نہیں ہوتا،یہ قانون اس ملک کے آئین پر ایک سیاہ دھبہ ہے ایک ایسا بدنما داغ جو برسوں تک سیاسی بصیرت،عوامی شعور اور اقلیتی حقوق کی پامالی کا حوالہ رہے گا، کل جب تاریخ لکھی جائے گی تو یہ ذکر ضرور ہوگا کہ ایک شب جب سارا ملک سو رہا تھا اورگہری نیند کی آغوش میں تھا تو جمہوریت نے اپنے ہی شہریوں کے حقوق کی قبر پر ہاتھ سے آخری مہر لگا دی تھی،سوال صرف وقف کی جائیدادوں کا نہیں رہا بلکہ یہ مسلمانوں کی زمین،ان کی شناخت، ان کے آئینی وقار اور ان کے وجود پر براہ راست حملہ ہے اور جب حملہ اس درجہ گہرا ہو تو پھر مزاحمت بھی اسی شدت سے ابھرتی ہے،ملک کے بھر کے مختلف شہروں میں اتنی بڑی تعداد میں سڑکوں پر عوام کا یہ سیلاب صرف ایک قانونی ترمیم کے خلاف غصے کا اظہار نہیں بلکہ یہ ایک قوم کی اجتماعی بے بسی،کرب اور جمہوریت کے تماشے میں تماشائی بننے سے انکار کا بیانیہ تھا،دو اپریل 2025 کو ہندوستانی جمہوریت کے ماتھے پر ایک اور سیاہ دھبہ ثبت کر دیا گیا وقف ترمیمی بل 2025 کے نام پر اقلیتوں کے حقوق پر کھلی ڈاکہ زنی کی بنیاد رکھ دی گئی،اقلیتی امور کے وزیر کرن رجو نے پارلیمنٹ میں اس بل کا زہر الود مسودہ پیش کرتے ہوئے دعوی کیا کہ اس کا مقصد وقف املاک کے نظم و نسق کو بہتر بنانا ہے لیکن درحقیقت ان کے الفاظ جھوٹ،فریب اور بدنیتی سے لبریز تھے یہ محض ایک قانون نہیں بلکہ مسلمانوں کی جائیدادوں پر سرکاری قبضے کی ایک منظم سازش،ریاستی جبر اور اکثریتی استبداد کا کھلا مظہر ہے،یہ متنازع قانون جو گزشتہ سال بھی پارلیمنٹ میں بحث کےلئے پیش کیا گیا تھا مگر اپوزیشن کی شدید مخالفت کے باعث اسے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی یعنی جے پی سی کے سپرد کردیا گیا تھا،جے پی سی نے اس پر متعلقہ افراد اور تنظیموں سے ارا طلب کی مسلمانوں کی بھاری اکثریت نے اس بل کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے یکسر مسترد کر دیا، تاہم حکومت کی بدنیتی اس بات سے عیاں ہے کہ جے پی سی نے صرف متاثرہ فریقین کی نہیں بلکہ غیر متعلقہ افراد،تنظیموں اور اداروں سے بھی رائے طلب کی،ایسے عناصر جن کی آرا حکومت کے طے شدہ ایجنڈے کے مطابق تھیں،یوں ایک منظم حکمت عملی کے تحت ایسی تجاویز اکٹھی کی گئی جو اس متنازع بل کے حق میں جاتی تھی،نتیجتا جے پی سی نے بظاہر چند معمولی ترامیم کے ساتھ اپنی رپورٹ اسپیکر کو پیش کی لیکن درحقیقت ان ترامیم نے بل کو مزید سخت اور زیادہ متنازع بنا دیا۔
خود کو مسلمانوں کا ہمدرد اور بہی خواہ کہنے والی جنتا دل متحدہ اور تیلگو دیشم پارٹی کے رہنما نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو مسلمانوں سے دھوکہ اور دغا کرتے ہوئے بل کی حمایت میں کھڑے ہو گئے یہ وہی نتیش کمار ہیں جو مسلمانوں کے ہمدرد بننے کی اداکاری کرتے نہیں تھکتے تھے لیکن جب موقع آتا ہے تو ہندوتوا کی گود میں جا بیٹھتے ہیں،چندرا بابو نائڈو نے بھی اسی دوغلے پن کا ثبوت دیا جو کبھی سیکولر ہونے کا ڈھونگ رچاتے تھے،آج مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ زہریلی قانون سازی کی حمایت میں کھڑے نظر آرہے ہیں،وقف جیسے حساس اور مذہبی معاملے پر قانون سازی میں تیلگو دیشم پارٹی،جنتا دل یونائٹیڈ،راشٹریہ لوک دل،ایل جے پی اور دیگر چند جماعتوں کی اس بل کی تائید نے وہ نقاب نوچ پھینکی ہے جوانہوں نے دہائیوں سے اقلیتوں کی ہمدردی کے نام پر اوڑھ رکھی تھی،
سیکولرازم کی ڈھونگ رچانے والی جماعتیں بھی جب اپنے فائدے کی بات آتی ہے تو مسلمانوں کو یا انکے مفادات کو قربان کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں،مسلمانوں سے ہمدردی کا جھوٹا دکھاوا کرنے والے سیکولر سیاسی قائدین اس معاملے میں برابر کے شریک اور ذمہ دار ہیں بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا رول زیادہ خطرناک رہا ہے۔
تا ہم بی جے پی حکومت کی اس بدنیتی کو بے نقاب کرتے ہوئے کانگرس کے رکن پارلیمنٹ گوربھ گوگوئی نے یہ دو ٹوک اعلان کیا کہ یہ بل اقلیتی امور کی وزارت نے تیار نہیں کیا ہے بلکہ اسے کہیں اور سے ڈکٹیٹ کیا گیا ہے انہوں نے حکومت کو آئینہ دکھاتے ہوئے یاد دلایا کہ برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد میں مسلمانوں نے اپنی جانیں نچھاور کی،خون بہایا،سولی کےپھندےکو چوما اور آج انہی کی اولاد سے ان کا حق چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے گوگوئی نے بی جے پی کی منافقت کو عیاں کرتے ہوئے کہا کہ جب ہمارے آباؤ اجداد آزادی کی جنگ میں سرفروشاں کر رہے تھے،تب تم انگریزوں کی جوتیاں چمکا رہے تھے،معافی نامہ لکھ رہے تھے،ڈی ایم کے کے رکن پارلیمنٹ اے راجہ نے بھی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ بل اتنا ہی انصاف پر مبنی تھا تو اسے کسی مسلم رکن پارلیمنٹ سے کیوں نہیں پیش کرایا گیا، بی جے پی کی بدنیتی اس بات سے عیاں ہے کہ وہ ایک اقلیتی برادری کے خلاف قانون سازی کررہی ہے لیکن اس برادری کا ایک بھی نمائندہ اس عمل میں حصے دار نہیں ہے،حقیقت یہ ہے کہ یہ بل بی جے پی کی اس گھناؤنی پالیسی کا حصہ ہے جو عرصہ دراز سے مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے پر تلی ہوئی ہے،مسلم دشمنی میں اندھی ہو چکی مودی حکومت نے اس بل کے ذریعے یہ بھی یقینی بنایا ہے کہ وقف بورڈ میں غیر مسلم ممبران کو زبردستی شامل کیا جائے تاکہ مسلمانوں کی جائیدادوں پر غیروں کا تسلط قائم کیا جا سکے،آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بجا طور پر کہا ہے کہ یہ بل محض ایک قانونی ترمیم نہیں بلکہ کھلی جنگ ہے جو مسلمانوں کے خلاف چھیڑ دی گئی ہے،وقف املاک مسلمانوں کی امانت ہیں،لوک سبھا میں غیر مسلم اراکین پارلیمان کی تائید نے یہ ثابت کردیا کہ ملک کے مسلمان یہاں تنہا نہیں ہیں اورضرورت پڑنے پر آج بھی جمہوری اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے والے افراد ملک میں موجود ہیں،مسلمانوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے مذہبی امور سے واقف ہیں،لوک سبھا میں مباحث کے دوران مسلم اراکین پارلیمان بیرسٹر اسدالدین اویسی،مولانا محب اللہ ندوی،عمران مسعود،عمران پرتاپ گڑھی،محمد جاوید،جناب ای ٹی محمدبشیر،انجینئررشید،سیدنصیرالدین،اقرا حسن،ضیاءالرحمن برق،وغیرہ نے بھی وقف معاملے پر مسلمانوں کے موقف کا پرزور دفاع کیا لیکن جب اے راجہ اکھلیش یادو،گوربھ گوگوئی، چندر شیکھرآزاد،ہنومان بینی وال،مہواموئترا، کنی موزی،سنجے سنگھ،منوج جھا کے علاوہ دیگر غیر مسلم ارکان ایوان میں مسلمانوں کے ساتھ کھڑے نظر آئے اوراخیر تک ڈٹے رہے،امت مسلمہ ہندیہ کو انکا احسان مند ہونا چاہیے،ایوان میں موجود غیر مسلم ارکان پارلیمان جنہوں نے وقف بل کی پرزورمخالفت کی اورکھل کر مسلمانوں کے موقف کی حمایت کرتے رہے،ملک کے موجودہ ماحول میں اقلیتوں کے ساتھ کھڑے ہو کر فرقہ واریت کو مسترد کیا،یہ تمام لوگ بہرحال ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں،ان لوگوں نے حقیقت میں مسلمانوں کے حقوق کی آوازاٹھائی ہے،آزاد ہندوستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے،جب ایوان میں اور مسلمانوں کی تائید میں اراکین پارلیمان کی اتنی بڑی تعداد نے ان کے حق کی بات کہی ہے،بابری مسجد کی شہادت یا رام مندر کی تعمیر کے وقت ارکان پارلیمان کی اتنی بڑی تعداد کھل کر کبھی مسلمانوں کے موقف کی حمایت نہیں کی تھی اور نہ طلاق ثلاثہ پرقانون سازی کے دوران مسلمانوں کو اس قدر غیر مسلم اراکین کی تائید ملی تھی،جو تائید وقف ترمیمی بل پر مباحث کے دوران ملی ہے،یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں کے بنیادی مسائل سے واقف سیکولر ذہن کے حامل غیر مسلم ارکان پارلیمان اب بھی ہندوستان کے سیکولر کردار کی برقراری کی جدوجہد میں ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں،ایسے میں اپوزیشن جماعتوں کو مزید طاقت فراہم کرنا اور انھیں مضبوط بنانا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے،مسلمانوں کے لئے ابھی یہ موقع غنیمت ہے اور ابھی ہمیں مایو س ہونے کی ضرورت نہیں ہے،مسلمانوں کےلئے وقف ایکٹ کی منظوری ایک نوشتہ دیوار سے کم نہیں ہے،انھیں یہ نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے،
اب جب کہ یہ بل قانون کی شکل اختیار کرچکا ہے، کئی افراد اور مختلف تنظیموں کی جانب سے سپریم کورٹ میں اسے چیلنج بھی کردیاگیا ہے،اور سپریم کورٹ نے اس مقدمہ کی سنوائی کےلئے 16 اپریل کی تاریخ طے کردی ہے،عدالتی اور قانونی لڑائی ضرور اہمیت کی حامل ہے اور یہ کام شروع بھی کر دیا گیا ہے لیکن اس بل کی منظوری کے بعد مسلمانوں کی مشترکہ اور مؤثر حکمت عملی مرتب کرنا ضروری ہے، مؤثر حکمت عملی کے ذریعہ ہی مخالفین کے عزائم کو ناکام اور ان کے منصوبوں کو خاک میں ملایا جا سکتا ہے ایک جامع اور مؤثر حکمت عملی کے ذریعے اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے جو وقف ایکٹ کی منظوری سے پیدا ہوئی ہے،دستور اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک طویل لڑائی کے لئے ابھی سے تیاری کرنا اشد ضروری ہے،ایک جامع اور منظم جدوجہد کی ضرورت ہے،یہ جدوجہد مسلمانوں کے تشخص کو بچانے کی کوشش ہونی چاہئے،اور منظم انداز میں اس معاملے میں پیروی کی جانی چاہیے،عدالتوں میں ڈٹ کر دلائل دئیے جانے چاہیے اور یہ کوشش کی جانی چاہیے کہ اس قانون کو ہرحال میں عدالتوں کی مدد سے روکا جائے،اسکے لئے جب تک کوئی مشترکہ حکمت عملی نہیں بنائی جاتی اس وقت تک درخواست بازی یا قانونی کشاکش کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہونے مشکل ہیں،ایسے موقع پر مختلف ملی تنظیموں اور ہمدرد سیاسی قائدین کا اجلاس بھی منعقد کیا جانا چاہیے اوراس قانون کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے حکمت عملی کا تعین کیا جانا چاہیے،ممکن ہو سکے تو قانونی اور دستوری دائرہ کار میں رہتے ہوئے احتجاج کا راستہ بھی اختیار کیا جانا چاہیے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ صرف ایک محاذ پر مقابلہ آرائی کافی نہیں ہے، کئی محاذوں پر جدوجہد کی جانی چاہیے، جس کا حق ہمیں دستور دیتا ہے،حکومت کو اس کے منمانی اور مسلم مخالف فیصلے کرنے کی مکمل آزادی بالکل نہیں دی جانی چاہیے اس کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کیا جانا ضروری ہے جب تک مسلمان اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کا راستہ اختیار نہیں کریں گے اور خود حالات کا سامنا کرنے کے لئے آگے نہیں آئیں گے اس وقت تک دوسروں پر تکیہ کر کے ہم کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے،سیکولر ذہن رکھنے والے قائدین اور سیاسی جماعتوں کواعتماد میں لیکرمشترکہ جدوجہد میں کامیابی کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں،اس معاملے میں سیاسی اختلافات اور عداوتوں کو فراموش کرتے ہوئے کام کیا جانا چاہیے،اس موقع پراپنے اپنے پرستاروں کو خوش کرتے ہوئے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے جدوجہد کا حصہ بننے والوں سے بھی چوکس رہنے کی ضرورت ہے تاکہ ملت کے اجتماعی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہ ہونے پائے،وقف بل پاس ہوتے ہی ملک میں مساجد اور مدارس کا سروے شروع ہو چُکا ہے،ملت کے رہنمایان اور ملی قیادت کو اس حوالہ سے فوری گائڈ لائن اور ہدایات جاری کرنی چاہئے،اس بل کوقانونی شکل اختیار کرنے سے قبل ہی فرقہ پرست طاقتیں اور عناصر سرگرم ہو چکے ہیں اور وقف املاک کو نشانہ بنانے کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں،ایسے میں ہمیں بھی اپنے حقوق کا تحفظ کرنے دستوری اور قانونی جدوجہد کو اختیار کرنا ہوگا اور ہمیں اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے تیار رہناہوگا،اجتماعی کاوشوں کے ذریعے ملت کو نقصان سے دوچار کرنے کے عزائم اور منصوبوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے،اس سلسلے میں حالات کی سنگینی کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے،اب تک ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف بھگوا تنظیموں اور سنگ پریوار کے قائدین کی جانب سے زہر کھولا جاتا تھا کھل کر مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچانے اور ان کے خلاف قانون سازی کرنے کے بجائے بالواسطہ اقدامات کیے جاتے تھے تاہم اب خود مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں قانون منظور کردیا ہے،مسلمانوں سے ہمدردی کا جھوٹا دکھاوا کرنے والے مسلمانوں کے صفوں میں بھی کچھ دلال موجود ہیں جو بل کی تائید و حمایت کر رہے ہیں،مسلمانوں کو اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے بہت پہلے چوکنا ہوجانا اور جاگ جانا چاہیے تھا اور جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا اپنے وجود کا احساس دلانا چاہیے تھا،کم ازکم اب تومسلمانوں کو اپنے حقوق کا تحفظ کرنے خود کمربستہ ہونے کی ضرورت ہے،دستور اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حقوق کے لیے جدوجہد کی جانی چاہیے،مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کےلئے سڑکوں اور چوراہوں پر احتجاج کیا جاسکتا ہے کچھ گوشے ایسے ہیں جو احتجاجی راستے کو سبوتاژکرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایوان میں ہوئے فیصلے کو کسان برادری نے سڑکوں پر احتجاج کرکے اور سینکڑوں جانوں کی قربانی دیکر واپس لینے پر مجبور کردیا تھا،کیا ہم کسانوں کی طرح متحد ہوکر پوری طاقت کےساتھ اپنا احتجاج درج کراسکتے ہیں؟کیونکہ دنیا کا ہرانقلاب قربانی چاہتاہے،بغیر قربانی کے کسی انقلاب کا تصور خام خیالی ہے،جتنی زیادہ تاخیر ہوگی اتنی ہی زیادہ قربانی کی ضرورت ہوگی،ہمیں ان صورتحال کا جائزہ لیکر ہمہ گیر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے کیا ہم اسکے لئے تیار ہیں؟
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق ومغرب میں تیرے دورکا آغاز ہے
مضمون نگار معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں