ہم جان بھی بچائیں گے اور تخت بھی

ہم جان بھی بچائیں گے اور تخت بھی

از:- محمد ہاشم خان

فرطوت نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ جہاں پناہ یہ پیغام لے کر میں نہیں جا سکتا، باغیوں کی آپ سے نفرت اور آپ کے لیے میری محبت دونوں میرے قتل کا موجب ہوسکتے ہیں۔ اے میرے رب! یہ تونے مجھے کس مصیبت میں ڈال دیا ہے، یا تو آدمی نفرت میں مارا جاتا ہے یا تو محبت میں اور میں تو دونوں طرف سے مارا جا رہا ہوں، مجھے نہیں لگتا کہ تاریخ حیوانی میں ایسی کوئی مثال پہلے سے موجود ہے، مجھے اس برزخی عذاب سے بچا لے میرے رب۔ اندر سے اسے اپنے اجداد کی آواز سنائی دی۔ اے بندروں کے سردار، اے روباہ سرشت فرطوت! معلق رہنا ہماری فطرت ہے اور معلق رہنے کا انجام وہی ہوتا ہے جو ایک منافق کا ہوتا ہے، وہ دونوں طرف سے مارا جاتا ہے، تمہارا حاصل مرام یہ ہے اور یہی تمہارا مقصد حیات بھی کہ تم اپنی فطرت سے سمجھوتہ نہ کرو، یہ بھید اللہ کا رچا ہواہے وہی اس کے راز جانے لیکن عذاب ہمیں جھیلنا ہے، اس سے کوئی مفر نہیں۔ شیرنی لنچ تیار کر چکی تھی اور اندر سے آواز دیئے جا رہی تھی، شیر نے لنچ کے لیے جانے سے قبل شیرنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرطوت سے کہا کہ لنچ بعد تمہارے وزیر داخلہ کو اس کی محنت کا صلہ بھی دینا ہے سو اب تم جا سکتے ہو۔

فرطوت کو لگا کہ اس کی موت یقینی ہے، وہ مخمصے کا شکار ہوگیا کہ آیا بادشاہ کا پیغام باغیوں تک پہنچائے یا معاملہ شانت ہونے تک جنگل میں کہیں معلق ہو جائے۔ کچھار سے واپسی کے دوران وہ مسلسل اسی فکر میں مستغرق تھا لیکن کسی نتیجے پر پہنچ نہیں پا رہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر بغاوت کامیاب ہوگئی تو بھی وہ زندہ نہیں بچے گا کیوں کہ بادشاہ کے ساتھ اس کی وفاداری کسی سے پوشیدہ نہیں تھی، اسے اپنے اجداد میں سے ایک نہایت ہی دانا شخص رنجباش کا قول یاد آگیا، رنجباش اپنے زمانے میں بادشاہ وقت کا معبر تھا اور وہ بادشاہ کے خواب کی تعبیر بتایا کرتا تھا۔ رنجباش نے کہا کہ اگر بادشاہ کے خلاف کوئی خروج ہوگا تو یاد رکھنا سب سے پہلے اس کے مقربین اور مصاحبین مارے جائیں گے۔ فرطوت سوچنے لگا کہ روز محشر وہ اللہ سے ضرور پوچھے گا کہ اس نے ہمارے خمیر میں نفاق کیوں ڈالا، ہمیں کسی اور لائق کیوں نہیں سمجھا، ہمیں کچھ اور کیوں نہیں بنایا، ہمیں کمزور کیوں بنایا، اگر شیر بنا دیتا تو اس کا کیا بگڑ جاتا، اس کی کاریگری، اس کی کوزہ گری، اس کی شیشہ گری اور اس کی صورت گری، کسی پر کوئی حرف نہیں آنا تھا۔ بات صرف یہ نہیں کہ اس نے ہمیں بندر بنایا، ظلم تو یہ ہے کہ اس نے بنی اسرائیل کے سرکشوں اور نافرمانوں کو بھی بطور عذاب بندر اور سور بنا دیا۔ بطور عبرت پیش کی جانے والی صرف ہماری ہی نوع رہ گئی تھی؟ میں روز جزا اللہ سے پوچھوں گا کہ آپ بنی اسرائیل کو ایسے بھی ہلاک کر سکتے تھے جس حال میں وہ تھے، انہیں بندر بنا کر ہلاک کرکے ہماری زندگی مزید اجیرن کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اب تو ہم اپنی مثال آپ ہو گئے،سب کے لیے مثال بن گئے۔ہمارا گناہ کیا تھا؟ دیگر اقوام ہم سے کہتی ہیں کہ اگر تم خسیس و خٰسِىٕیْن نہیں ہوتے تو اللہ انہیں بندر بنا کر کیوں ہلاک کرتا؟

فرطوت تالاب کے پاس ایک ڈھلان میں آبنوس کے سایے میں بیٹھ گیا اور غور و فکر کرنے لگا، ادھر تالاب کے دوسرے کنارے پر ٹیلے کے نشیب میں مشہور فلسفی اور اب باغیوں کا سپہ سالار کلیلہ کا لشکر خیمہ زن تھا اور وہ بادشاہ کے کچھار پر حملہ کرنے کے لیے کلیلہ کے حکم کا بے صبری سے منتظر تھا۔ فرطوت نے اللہ کے حضور دست دعا دراز کیا! اے مالک کون و مکان تونے جو بنایا وہ ہم بن گئے، بندر بنایا بندر ہو گئے، انسانوں کے مشابہ کیا وہ ظلم بھی برداشت کر لیا،اب اس میں ہماری کیا غلطی، اے مالک کن فیکون، تونے کن کہا تو ہم جی اٹھے تونے کہا تو مر گئے، ہم تو مجبور محض ہیں اور مجبور محض کو سزا دینا یہ قرین انصاف نہیں میرے پروردگار، یہ انصاف نہیں۔ فرطوت اپنی اور اپنی قوم کی بقا کے لیے دعائیں مانگنے میں مصروف تھا۔ بادشاہ شیرنی کو اس کی محنت کا صلہ خاص عطا کرنے کے بعد کچھار سے باہر نکلا اور چاروں جہت میں دہاڑ لگائی۔ بادشاہ کے اجداد نے اسے وصیت و نصیحت کی تھی کہ اگر تم جنگل پر مدت مدید کے لیے حکومت کرنا چاہتے ہو تو دن میں پانچ بار دہاڑنا لازم سمجھو، تب سے اس کے قبیلے نے دہاڑنا اپنا معمول بنا لیا تھا۔ اب وہ کوئی بھی کام کرتے تو ایک بار دہاڑ کر ضرور سجدہ شکر ادا کرتے۔ شیر کی دہاڑ میں وہ رعب، خوف اور دبدبہ تھا کہ فرطوت کا مراقبہ ٹوٹ گیا اور ایک بار پھر وہ زمین نم کر بیٹھا۔ ادھر تالاب کے اس پار ٹیلے کے عقب میں خیمہ زن لشکر نے اس دہاڑ کو دعوت مبارزت سمجھا اور ایک بار پھر ان کی جنگلی غیرت جوش مارنے لگی۔ کلیلہ نے کہا کہ ابھی اس وقت حملہ کرنا مناسب نہیں، میں شیر کو اچھی طرح سے جانتا ہوں، یہ اس کے ظہرانے اور بعدازاں تخلیے کا وقت ہے، شکم سیر ہونے اور شیرنی کو خراج محبت پیش کرنے کے بعد دہاڑنا اس کا معمول ہے۔ اس وقت اسے گھیرنا مناسب نہیں، شیر کو دام میں لانے کا سب سے اچھا وقت یہ ہے کہ شیرنی شکار کے لیے کچھار سے باہر ہو اور شیر بھوک سے نڈھال ہو۔ اور اس کام میں ہمیں غابہ کی مدد مطلوب ہوگی۔

باغیوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاس ایک عظیم لشکر ہے، ہمارے اندر اتنی طاقت اور جوش و جذبہ ہے کہ ہمیں کسی کمزور لمحے کی ضرورت نہیں، علما کہتے ہیں کہ وہی انقلاب دیرپا ہوتا ہے جو طاقت کا نتیجہ ہوتا ہے کسی سازش یا کمزور لمحے کا نہیں۔ سیدالخنازیر کی بیوہ نے کہا کلیلہ یاد کرو تم نے ہی کہا تھا کہ ہمیں بادشاہ کے ظلم و استبداد کے ناخن کو اس وقت تک چھیلتے رہنا ہے جب تک کہ وہ اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچ جاتا، اب میں دیکھ رہی ہوں کہ تم اپنے مقصد سے پیچھے ہٹ رہے ہو، اس نے کلیلہ کا گریبان پکڑتے ہوئے کہا: کیا ہوا تمہاری جنگلی غیرت کو؟ کیا تم اپنے عزیز بھائی دمنہ کی موت یونہی بے کار جانے دو گے، کیا تمہیں سیدالخنازیر کی جبری موت کا افسوس نہیں ہے، کیا تمہارے عزیز از جان دوست جناب ابن حمار کی موت کوئی رنگ نہیں لائے گی؟ یہ جو جنگل میں ہر طرف موت ناچ رہی ہے، ہو کا عالم ہے، آسیب کی حکمرانی ہے اور تا حد نگاہ بھکمری ہی بھکمری ہے تو کیا اسے ختم نہیں کرنا ہے؟

مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کلیلہ کہ تم ڈر گئے ہو یا بادشاہ کی پچیس سالہ رفاقت اور اس کی داد و دہش تمہارے پاؤں کی زنجیر بن رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ بادشاہ محتاط ہو جائے، اپنے قبیلے کو عائلی غیرت و حمیت کے نام پر جمع کر کے ہمارے خلاف ایک فوج تیار کر لے، ہمیں اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دینی چاہئے۔ باغیوں نے کلیلہ کے مشورے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا اور کچھار کی طرف چل پڑے۔ تالاب کے پاس سے گزرتے ہوئے کلیلہ نے اپنے لشکر کو متنبہ کیا کہ اس تالاب سے پانی نہیں پینا اور نہ ہی اس کے قریب جانا، اس میں بہت بڑے بڑے مگر مچھ ہیں اور وہ بادشاہ کے دوست ہیں، اقتدار کی منتقلی کے بعد ہمارا پہلا کام اس تالاب کو نہنگوں، اژدہوں، ماروں اور گندی مچھلیوں سے پاک کرنا ہے تاکہ یہ تالاب سب کے لیے مفید ہو سکے۔
راستے میں انہوں نے دیکھا کہ ایک درخت سے پتے گر رہے ہیں اور ٹہنیاں ہل رہی ہیں۔ غزال نے دیکھا کہ یہ بادشاہ کا وفادار اور معروف سراغ رساں مسٹر فرطوت ہے جو صنوبر کے پیڑوں کے جھنڈ میں کافی اوپر ایک ڈال سے دوسری ڈال پر گلاٹیاں مار رہا ہے۔ غزال سوچنے لگا کہ اگر اسے اپنی جان بچانی مقصود تھی تو بہتر ہوتا کہ وہ ایک ڈال پکڑے بیٹھا رہتا، علما نے سچ کہا ہے جبل گردد جبلت نہ گردد، بندر گلاٹی مارنا نہیں چھوڑ سکتا خواہ جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ غزال نے زرافہ سے کہا کہ یہ فرطوت ہے، لگتا ہے کہ اس نے ہماری بغاوت کی خبر بادشاہ کو پہنچا دی ہے اور اب ہم سے روپوش جائے امان ڈھونڈ رہا ہے۔

کلیلہ نے فرطوت کو نیچے اترنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ مسٹر فرطوت! ہم نے تمہیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے اور تمہاری عافیت اسی میں ہے کہ تم خود کو ہمارے حوالے کر دو۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر تم سچ بولو گے تو ہم تم اور تمہاری قوم کو معاف کر دیں گے۔ فرطوت کو کلیلہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ فرطوت نے کہا قسم ہے رب موسیٰ و ہارون کی۔ میں نے اپنے عہدے کا فرض ادا کیا ہے، میں آپ لوگوں کے خلاف نہیں ہوں۔ کلیلہ نے کہا اے فرطوت تونے مجھے میرے مرحوم بھائی دمنہ کی یاد تازہ کرادی۔ وہ مجھے بہت شدت سے یاد آ رہا ہے۔اللہ رب العزت اس کی روح کو سکون عطا فرمائے آمین۔ دمنہ کہا کرتا تھا کہ بعض اوقات عہدے کے فرائض ہم سے وہ قربانیاں مانگتے ہیں جو ہم پر کسی صورت واجب نہیں ہوتے اور اگر آپ بادشاہ کے مصاحبین میں سے ہیں تو یس باس کہنے کے علاوہ آپ کے پاس کوئی آپشن نہیں ہوتا۔ فرطوت بھی کلیلہ کی لشکر میں شامل ہوگیا، سورج ڈھلنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا، شفق کی لالی بڑھتی جا رہی تھی اور بادشاہ کا کچھار اب لشکر کے حصار میں تھا۔ کلیلہ نے کہا اعلان کردو کہ ظل الٰہی کے پاس صرف ایک گھنٹہ ہے یا تو جان بچائیں یا تخت۔ بوڑھے شیر نے کچھار سے باہر قدم رکھتے ہوئے گرج دار آواز میں کہا! کلیلہ ہم جان بھی بچائیں گے اور تخت بھی۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔