یہ مولوی بنانا چاہتے ہیں، کٹھ مُلّا بنانا چاہتے ہیں
مدیر کے قلم سے
یوگی آدتیہ ناتھ کی مسلم دشمنی جگ ظاہر ہے۔ انہوں نے پارلیمانی ممبر ہوتے ہوئے بارہا غیر پارلیمانی امور میں حصہ لیا ہے اور بدنام زمانہ ہیں۔ ان کا نام جب اترپردیش کی وزارت کے لیے لیا جارہا تھا تبھی بہت سے انٹلکچول کہہ رہے تھے کہ شاید یوگی اپنی روش میں تبدیلی لائے۔مگر امیدیں سراب ثابت ہوئیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنی وزارت میں مسلمانوں کے خلاف انیک فیصلے لیے، بہتوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا، کئی ایک سے سیاسی دشمنی نبھائی، مسلمانوں کے مکانات و مساجد کو بلڈوز کیا اورمدارس کو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے نشانہ بنایا۔ اب ان کا نیا بیان اردو کے حوالے سے آیاہے۔ مجھے ان کے بیان سے قطعی تعجب نہیں ہے، کیونکہ ان کا ماضی اسی کام کے لیے بدنام ہے۔ وزارت اعلی کی کرسی تک مسلمانوں کے خلاف الٹی پلٹی باتیں کرکے ہی پہونچے ہیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ جب مسلمانوں کو ’’ گرین وائرس‘‘ کہ سکتے ہیں۔ تو ان سے کچھ بھی امید کی جاسکتی ہے۔ راجیہ سبھا میں ان کا بیان کتنا زہریلا ہے۔ ہم اور آپ بخوبی جانتے ہیں’’ یہ مولوی بنانا چاہتے ہیں ،کٹھ ملا بنانا چاہتے ہیں‘‘۔ جیسے الفاظ کسی وزیر اعلیٰ کے نہیں ہوسکتے۔ مگر بدقسمتی سے یہ الفاظ یوگی آدتیہ ناتھ کے ہیں جو ایک اہم وباوقار عہدے پر فائز ہیں۔ایسی زبان کا استعمال ایک بازاروقسم کا انسان بھی نہیں کرتا مگر اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کے دل ودماغ میں کیا چل رہا ہے، کس طرح کے خیالات پنپ رہے ہیں آپ اس کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔’’مریادا‘‘ کی دہائی دینے والے اشتعال انگیزی پر اتر آئیں، ایک ذمہ دار حاکم غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور ایک خاص کمیونٹی کے خلاف زبان طعن دراز کرے تو پھر ’’جنونی ‘‘ کون ہے اور کس کی اصلاح کی جانی چاہیے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے جمہوریت کو مضبوط کرنے والے قانونی ادارے کسی مستحکم اقدام کے لیے کوشاں نہیں ہیں اور سیاسی لیڈران اپوزیشن کا رول مضبوطی کے ساتھ نبھانے سے قاصر ہیں۔ اسی لیے’’ بندر کے ہاتھ میں استرا‘‘ والی کہاوت کو حقیقی جامے میں اترپردیش کے علاوہ پورا ملک دیکھ رہا ہے۔