یہ کون سربلند ہوا دیکھتے چلیں
✍️ شکیل سلفی
________________
معروف داعی مولانا کلیم صدیقی ، عمر گوتم اور ان کے دیگر رفقاء جنہیں کل اے ٹی ایس عدالت نے زبردستی مذہب تبدیل کرانے کا مجرم قرار دیا تھا آج انہیں سزا سنادی گئی مولانا صدیقی سمیت بارہ افراد کو عمر قید جبکہ دیگر چار افراد کو دس سال قید کی سزا سنائی گئی ہے ظاہر ہے کہ ملک کے موجودہ ماحول میں جہاں ہر جگہ نفرت کا راج ہے یہ سب خلاف توقع نہیں ہے ہندوستانی آئین ہر شہری کو اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت دیتا ہے اسی طرح ہر شہری کو اپنی مرضی سے کسی بھی مذہب کو اختیار کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے اس کے باوجود ہندوستان میں بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں تبدیلی مذہب روکنے کے لئے سخت قانون بنایا گیا ہے اور مولانا اور ان کے رفقاء اسی کے شکار ہوئے ہیں ان حضرات کا قصور بس اتنا ہے کہ انہوں نے اپنے آئینی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے پُرامن طریقے سے اپنے مذہب کی تبلیغ کی اور اس سے متاثر ہوکر کچھ افراد نے اسلام قبول کرلیا لیکن بھلا وقت کے اقتدار کو یہ کیسے گوارہ ہوسکتا تھا کہ کوئی اسلام کو اپنائے اس کی تو ساری مہم ہی اسلام اور اس کے ماننے والوں کے خلاف ہے سو مولانا کو تو اس کی سزا ملنی ہی تھی یہاں تو مذہب کی رعایت کے بغیر ہی ہر حق پسند اور انصاف پسند کے لئے زنداں مقدر ہے تو مولانا کا جرم تو اس سے کہیں بڑا ہے لہذا ان کی سزا بھلے ہی قانون اور عدل و انصاف کے خلاف ہو لیکن توقع کے خلاف ہرگز نہیں ہے جس ملک اور ریاست میں یتی ندسنگھانند جیسے دریدہ دہنوں، بدزبانوں اور بدتمیزوں کو اسلام کو گالیاں دینے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی کھلی چھوٹ ملی ہو جہاں مسجدیں اور اوقاف زد پہ ہوں جہاں کانگریس جیسی سیکولر پارٹی کے زیر اقتدار ریاست میں مسجدوں کی مسماری کا خطرہ لگا رہے وہاں اسلام کی تبلیغ اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کا اس مذہب کو اختیار کرنا کیسے کوئی گوارہ کرسکتا ہے۔
مولانا کلیم صدیقی کھلم کھلا اور علی الاعلان دعوت دین کا کام کررہے تھے جب انہوں نے اس راہ کو اپنایا ہوگا تو بہت سوچ سمجھ کر اپنایا ہوگا وہ اس کے خطرات اور اس راہ میں آنے والے مصائب سے واقف رہے ہوں گے انہوں نے انسانیت کی فلاح اور جنت کے حصول کی تمنا میں یہ راہ اختیار کی ہوگی ان کے سامنے دعوت دین کی پوری تاریخ جو دراصل عزیمت کی تاریخ ہے ، موجود تھی انہیں معلوم تھا کہ اس راہ میں قیدو بند اور دارو رسن بھی آتے ہیں لہذا یہ سزا انہیں اور ان کے رفقاء کو ڈرا نہیں سکتی اس فیصلہ کے بعد مولانا نے جو بیان جاری کیا ہے وہ بے حد حوصلہ افزا اور عزم و یقین کاآئینہ دار ہے۔
دست تعزیر چومنے والے
ہم ہیں زنجیر چومنے والے
ان کے علاوہ جو لوگ بھی اس میدان میں کام کررہے ہیں یقین ہے کہ اس کے بعد ان کا حوصلہ پست ہونے کی بجائے مزید بلند ہوگا اور وہ پہلے سے زیادہ جوش اور جذبے کے ساتھ کار دعوت انجام دیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ صورت حال دعوت کا کام انجام دینے کی وجہ سے کم اور انجام نہ دینے کی وجہ سے زیادہ پیدا ہوئی ہے ہم دعوت دین کے معاملے میں مجرمانہ غفلت کے شکار ہیں ہم نے وعظ کہنے کو دعوت دین کی معراج سمجھ لیا ہے اس لئے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہم اپنی اس ذمہ داری کو سمجھیں
آج کا فیصلہ نچلی عدالت کا فیصلہ ہے ابھی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ باقی ہے ظاہر ہے کہ اس فیصلہ کو چیلنج کیا جائے گا دعا کیجئے کہ اللہ تعالٰی ان حضرات کی جدو جہد اور قربانیوں کو قبول فرمائے اور رہائی کی راہ آسان کردے ویسے ان عدالتوں کے علاوہ جو سب سے بڑی عدالت ہے وہاں یقیناً یہ سرخ رو ہوں گے :
دار و رسن نے کس کو چنا دیکھتے چلیں
یہ کون سربلند ہوا دیکھتے چلیں