از قلم:محمد قمر الزماں ندوی
استاد/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ
دارالعلوم ندوة العلماء لکھنؤ کا سب سے نمایاں وصف، امتیاز و کمال، ندرت اور خصوصیت اس کا اعتدال و توازن، میانہ روی اور وسطیت ہے ۔ اس کی صدا اور پیغام خذ ما صفا و دع ما کدر ، اور شعارنا الوحید الی الاسلام من جدید ہے ۔ وہ داعی ہے ،،الحکمة ضالة المؤمن حیث وجدھا فھو احق بھا کا،،۔۔ یہ ادارہ رفع نزاع باہمی، یعنی جماعتی ،گروہی اور مسلکی اختلاف کو مٹانے کے لیے ہی وجود میں آیا، الحمد لللہ آج بھی یہ اپنے مشن پر اور اپنے نظریئہ اعتدال و توازن پر قائم و دائم ہے ۔
ندوہ اور ذمہ داران ندوہ نے ہمیشہ ندوہ میں اساتذہ کے انتخاب میں علم و فضل اور صلاحیت و صالحیت کو ترجیح دی اور بلا کسی فرق و امتیاز اور ادارتی نسبت پر نظر کیے ہمیشہ ندوہ میں ماہر اساتذہ اور فن کے ماہر لعل و گہر کا انتخاب کیا ۔ ندوہ میں حنفی، شافعی، اہل حدیث اساتذہ نیز مظاہر دیوبند اور اصلاح کے فارغ باکمال شخصیات کو بھی مسند درس پر بٹھایا گیا ،آج بھی یہ علمی تنوع، رنگا رنگی موجود ہے، اور یہ گلہائے رنگا رنگ ندوہ کی خوبصورتی اور رعنائی ہے ،جبکہ اکثر اداروں میں یہ وسعت اور اعلیٰ ظرفی ناپید ہے۔
یادش بخیر ……..ابھی دو دہائی قبل ندوہ میں ایک لائق و فائق اور ہر فن مولا استاذ بلکہ استاذ الاساتذہ تھے ،جن کو حضرت مولانا علی میاں ندوی رح چلتا پھرتا کتب خانہ کہا کرتے تھے ،جن سے مراد مولانا محمد شہباز صاحب اصلاحی رح کی ذات ہے۔جن کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی تھی کہ طالب علم خواہ کسی وقت ،کسی جگہ، کسی بھی موضوع یا کسی بھی طرح کا کوئی سوال کرے وہ اسی طرح جواب دیتے کہ جیسے وہ پہلے سے اسی سوال کے لئے تیار بیٹھے ہیں اور جب طالب علم مطمئن نہ ہوجاتا مولانا اس کو سمجھاتے رہتے ،طلبہ ان سے چلتے پھرتے سوال کرتے اور وہ بغیر کسی ناگواری کے ان کے سوالات کے تشفی بخش جوابات دیا کرتے ، جب تک وہ ندوہ میں رہے ، علم و فضل کے لعل و گہر لٹاتے رہے ،طلبہ ان سے مستفید ہوتے رہے، استاتذہ بھی ان سے فیض کرتے رہتے تھے۔ ( مستفاد تذکرہ حضرت مولانا شہباز اصلاحی رح مرتبہ سعید اکرمی ندوی)
راقم الحروف کو استاد محترم حضرت مولانا محمد شہباز صاحب اصلاحی رح سے عالمیت میں بیضاوی شریف اور فضیلت میں مسلم شریف پڑھنے کی سعادت حاصل رہی ، مولانا مرحوم ضابطہ کے استاد تو تھے ہی، لیکن خارجی طور پر کنویں کے پاس عصر اور فجر کی نماز کے بعد مولانا رح سے جن لوگوں نے علمی استفادہ کیا اور اپنی تشنگی کو بھجایا اور علمی فکری اصلاحی دینی اور تربیتی رہنمائی حاصل کی ،ان میں کسی نہ کسی درجہ میں راقم الحروف کا نام بھی ہے ۔ بلا ناغہ مولانا رح کی مجلس میں شرکت کرتا اور سوالات کرتا اگر کبھی دو تین دن کا وقفہ اور ناغہ ہوتا مولانا ساتھیوں سے دریافت کرتے کہ قمر الزماں کہاں ہے ،نظر نہیں آرہا ہے؟ ۔ یہ تعلق ایک استاد شاگرد کا تو تھا ہی ،کچھ بھاگلپور کی نسبت سے بھی مجھ سے تعلق خاص تھا،( خال معظم ریاض احمد ندوی بھی اور علاقہ میں بہت سے اہل تعلق بھی مولانا مرحوم کے فیض یافتہ تھے،اس وقت متحدہ بہار تھا،جھارکھنڈ ریاست کی تقسیم نہیں ہوئی تھی اور میرا خط و کتابت کا پتہ بھاگلپور کا ہی تھا، وہی لوک سبھا حلقہ تھا بعد میں راقم کا صوبہ جھارکھنڈ اور ضلع گڈا ہوگیا،) اور ساتھیوں میں بھاگلپوری نسبت سے معروف تھا اور مولانا رح کا قیام بھاگلپور میں دس سال رہا جہاں وہ جماعت اسلامی کے ایک ذمہ کے تحت علمی دینی اور تبلیغی کاموں میں مشغول تھے ۔
استاد محترم کا دنیا سے رخصت ہوئے اگر چہ ایک لمبا عرصہ بیت چکا ہے ،لیکن ان کی یادیں ،ان کی شخصیت، ندوہ میں ان کی تدریس ،کنویں پر بیٹھ کر علم و فضل کے موتی لٹانا اور ان کی شفقت بھری ادائیں، ان کا علمی تفوق اور مقام بلند سب رہ رہ کر یاد آتے ہیں ،اگر میں یہ کہوں کہ میری تربیت میں جن اساتذہ کا نمایاں کردار رہا ہے اور جن سے اعتدال و توازن اور میانہ روی سیکھنے کا موقع ملا، ان میں ایک نمایاں نام حضرت الاستاذ مرحوم کا ہے ۔
استاد محترم کی پیدائش کلکتہ میں ہوئی، ان کی تاریخ پیدائش 1927ء ہے ،آبائی وطن سیوان بہار کا ایک گاؤں بھگوتا ہے، ان کی پوری تعلیم مدرسہ الاصلاح میں ہوئی ، اور تدریس و تبلیغ اور اہتمام و انتظام کا وقت مدرسہ الفلاح ، مرکز جماعت حلقہ بھاگلپور، جامعہ بھٹکل اور ایک طویل عرصہ ندوہ میں تدریس میں گزرا ، جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں وہ منصب اہتمام پر فائز رہے۔
وہ صحیح معنوں میں معلم و مربی تھے ،آپ کا علم وسیع و ہمہ گیر تھا اور آپ کی فکر فلسفیانہ اور دقیق تھی ،مگر پیش کرنے کا انداز سادہ ،آسان اور سہل الفہم تھا ۔وہ ایک خاموش اور مخلص خادم دین تھے، ایک کامیاب مدرس و مربی اور ایک ماہر نگراں و منتظم بھی ۔طلبہ میں علمی دینی اور تحقیقی ذوق و شوق کیسے پیدا ہو اس کی انہیں بڑی فکر رہتی تھی ۔ بقول حضرت مرشد الامہ وہ ایک سادہ مزاج متوازن الفکر عالم دین تھے اور سادہ زندگی گزارتے تھے ،اسی کے ساتھ علوم وفنون سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور متعدد خوبیوں کے حامل تھے جن کی مثال مشکل سے ملتی ہے ۔
مولانا نے کچھ مضامین لکھے اور کچھ نظمیں بھی کہیں ،وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے ، لیکن مولانا مرحوم نے نہ مضامین لکھنے میں اپنا وقت لگایا اور نہ نظم و شاعری کی طرف توجہ دی، اگر وہ اس میدان میں توجہ دیتے تو ایک کامیاب مصنف و مؤلف ہوتے، بڑی علمی اور محققانہ تالیفات معرض وجود میں آجاتیں ۔اور کہنہ مشق شاعر کہے جاتے ،لیکن معلوم نہیں آپ نے ان سب کو قابل اعتناء کیوں نہیں سمجھا،اس کے مقابلے میں افراد سازی کا کام کیا اور اسی کی طرف خصوصی توجہ دی ۔ممکن ہے آپ نے حسن البنا کو اپنا نمونہ اور آڈیل بنایا ہو کیونکہ علمی تحریکات اور اصحاب دعوت و عزیمت پر آپ کا مطالعہ وسیع تھا۔
شیخ حسن البناء رح کے بارے میں آتا ہے کہ لوگوں نے ان سے ان کی تالیفات کے بارے میں سوال کیا، تو شیخ نے جواب دیا ،، ماصنفت کتابا ولکن صنفت رجالا ،، میں نے کوئی کتاب تصنیف نہیں کی البتہ میں نے لوگوں کو تیار کیا ہے ،بالکل یہی بات مولانا مرحوم پر صادق آتی ہے ۔۔ (جاری)