کوئی صورت نظر نہیں آتی
از قلم: زین شمسی
کچھ دن پہلے جب دہلی جانا ہوا تو بی بی سی اردو کے ایک صحافی کا فون آیا کہ آپ سے بات چیت کرنی ہے، گفتگو ہوئی تو بات آزادی کے بعد مسلمانوں کی زبوں حالی کی وجوہات تلاش کرنے تک پہنچ گئی۔ دراصل جب بھی بھارت کی سیاست پر کوئی مذاکرہ یا مکالمہ ہوتا ہے تو اس کا سرا مسلمانوں تک پہنچ جانا فطری بات ہے۔سب سے بڑا سوال یہی منہ پھاڑہے کھڑا رہتا ہے کہ سب سے بڑی اقلیت آج اتنی کمزور اور مجبور کیوں ہے؟ تاہم اس سوال کا جواب سوال کرنے والوں کو خود بھی معلوم ہوتا ہے۔ پھر بھی جب سامنے مسلمان ہے تو ان سے مسلم مسائل پر ہی گفتگو کرنا ایک ذمہ داری سی بن گٸی ہے اور ویسے تو آج کل مسلمان ہی ایک مسئلہ کے طور پر قومی بحث کا ایک اہم حصہ ہے۔
دراصل پرشانت کشور کا ایک ویڈیو کہیں سے وائرل ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی 18فیصد آبادی ہونے کے باوجود ان کے پاس کوئی رہنما کیوں نہیں ہیں۔ وہ اپنا رہنماتیجسوی ، راہل ،ممتا اور دیگر لیڈروں میں کیوں تلاش کرتا ہے۔ اگر وہ میرے پاس بھی آئے گا تو میں بھی اس کا کام نہیں کروں گا ، میں اپنے لوگوں کا کروں گا ، ان کا کیوں کروں گا؟یہ نہیں ہو سکتا ہے، جب تک کہ آپ جدو جہد کے لیے کھڑے نہیں ہوں گے، تب تک آپ کا بھلا نہیں ہو سکتا ہے۔ ہم آپ کا بھلا چاہنے والے رہنما نہیں ہیں۔ آپ اگر ہمارے ساتھ جڑیں گے تو ہم بھی آپ کی بھلائی نہیں کریں گے۔ جس قوم کو، جن لوگوں کو اپنی فکر نہیں ہے ان کی فکر دوسرا کیوں کرے؟ان کے اس بیان سے صاف جھلکتا ہے کہ بھارت میں جو بھی لیڈر ہے وہ قومی مفاد یا ترجیحات کو سامنے نہیں رکھتے بلکہ اپنے لوگوں کے مفاد کی رہنمائی کرتے ہیں ۔ اپنے اپنے ذات کو اوپر اٹھانے کے لئے ہر ذات کے رہنما انتخابی سیاست کا حصہ بنتے ہیں مگر مکھوٹا سب کا ساتھ اور سب کی ترقی کا ہوتا ہے۔ہر ذات والوں کی اپنی پارٹی ہے اور ان کا اپنا مفاد ہے۔ مسلمانوں کے ہاتھ خالی ہیں، کیونکہ ان کی کوئی پارٹی نہیں ہے اس لئے وہ اپنی ترقی کا ضامن دوسری پارٹیوں کے لیڈروں کو سمجھتے ہیں۔
مسلم لیڈر شپ کی بات کرنے والے اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہمیشہ جدوجہد ہی کا راستہ منتخب کیا ہے خواہ آزادی کی لڑائی ہو ئی یا پھر آزادی کے بعد سیکولرازم کا استحکام۔ اس طرح کے سوال اٹھانے والوں کو سوچنا ہوگا کہ مسلم پارٹی کا قیام کیا معنی رکھتا ہے ۔ اگر آزادی کے بعد بھی مسلمانوں نے اپنی سیاسی پارٹی بنائی ہوتی تو دیش کا ایک بار پھر تقسیم ہونے کا امکان نہیں تھا، بھارت کی تقسیم مذہبی لکیروں میں کھنچائو کی وجہ سے ہوئی تھی۔تقسیم کے بعد بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی ذہنی سمجھ یہی ہو گئی کہ جو ہوا سو ہوا اب ہمیں یہاں کے ہندووں کے ساتھ ہی اپنا سفر طےکرنا ہے۔ اس لئے مسلم آبادی نے ہر اس پارٹی کی بنیاد مضبوط کی جو بھارت میں یکجہتی اور ہم آہنگی کا دم بھرتے تھے۔ رہنما کے نام پر ان کے پاس علما تھے جو انہیں ترغیب دیتے تھے کہ وہ کیا کریں نہ کریں۔ مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آزادی کے بعد ہندووں کو سیاسی لیڈر ملے تو مسلمانوں کو مذہبی رہنما۔ اب یہ بھارت کی سیاست کا قصور ہے کہ اس سیاست نے مسلمانوں کو ووٹ مینجمنٹ کاحصہ بنا ڈالا اور علما کاقصور یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو سیاسی اور سماجی سمجھداری سے دور رکھا اوران کے مفادات کو نظر انداز کرتے رہے۔ آج اگر مسلمانوں کی سیاسی زبوں حالی کی بات کی جاتی ہے تو یہ میں ہرگز ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ مسلمانوں کا اس میں ذرہ برابر بھی قصور ہے، قصور ان کا ہے جو مسلمانوں کو اپنا بنانے کا ڈرامہ کرتے ہوئے خود کامفاد پورا کرتے رہے۔زمانہ تک کانگریس کا ساتھ دینے کا نتیجہ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں عیاں ہو گیا تو مسلمانوں نے علاقائی پارٹیوں کی طرف رجوع کیا جو سماجی انصاف کا علم بلند کرکے سیاست میں آٸے کہ شاید اس سیاست میں ان کا کوئی بھلا ہوگا، مگر بعد میں واضح ہوگیا کہ مسلمان ان علاقائی پارٹیوں کے ذریعہ بھی ٹھگے گئے کہ لالو ، ملائم ، پاسوان، مایا، سب اپنی اپنی کمیونٹی کو اوپر تک لانے میں کامیاب ہوگئے اور مسلمان وہیں کہ وہیں رہ گئے۔
اس کے باوجود آج بھی مسلمان اسد الدین اویسی کی سیاسی پارٹی کو رد ہی کر رہا ہے اور کبھی بھی مسلمانوں کی الگ پارٹی کی حمایت کے لٸے تیار نہیں ہے تو صاحب جب پارٹی نہیں ہوگی تو لیڈر شپ کہاں سے آئے گی۔ ہاں کچھ قومی سطح کے لیڈر ضرورسامنے آتے ہیں لیکن وہ مسلمانوں سے زیادہ اپنی پارٹیوں کے وفادار ہوتے ہیں تو کوئی اگر یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کی اپنی پارٹی ہونی چاہئے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ مسلمانوں کی پارٹی بھارت کے استحکام کے لئے ایک غلط قدم ہے۔ وہیں بھارت کی پارٹیاں مسلمانوں کے استحکام سے بری الذمہ ہیں۔
ہاں سیاسی طور پر مسلمان وہاں پر ضرور قصوروار ہے کہ اس نے ہر پارٹی کی مدد کی مگر اس پر دبائو بنانے میں ناکام رہا یعنی اس نے کوئی پریشر گروپ نہیں بنایا کہ اگر آپ میری یہ بات نہیں مانیں گے تو اگلے الیکشن میں آپ کو ہمارا ووٹ نہیں ملے گا۔ اس نے سیاسی طور پر کسی ایک پارٹی کو بغیر کسی لاٸحہ عمل کے ہی منتخب کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب تک اسے سمجھ میں آتاتب تک دیر ہوچکی ہوتی تھی اور جب وہ دوسری پارٹی کی طرف راغب ہوتا تو اسے پھر سے شروعات کرنی پڑتی اور اس کا نتیجہ بھی وہی ہوا جو ہوتا رہا۔ سماجی طور پر مسلمان ہمیشہ سے کمزور رہے۔ اس نے سماجی طور پر اپنا وجود نہیں بنایا جس کے نتیجہ میں بھائی چارگی توڑنے میں کسی طور پریشانی نہیں ہوئی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج مسلمانوں کی جو حالت ہے اس میں ہر محاذ پر ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حتیٰ کہ وہ اپنی چھوٹی سی ڈیمانڈ کے لئے ایک درخواست بھی کسی کو پیش کرنے سے قاصر ہے۔ پرشانت کشور نے تو صرف سیاسی محاذ تک ہی اپنی بات محدود رکھی جبکہ سماجی ، تعلیمی ، دینی اور اقتصادی طور پر بھی مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی بے یار و مددگار بن کر رہ گئی ہے۔ مجھے نہیں لگتاکہ اب یہ کمیونٹی کسی محاذ پر اٹھ کر کھڑی ہو سکتی ہے۔مسلمانوں کا دانشور طبقہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دیگر مسلم اداروں کو بچانے میں ناکام ہی نہیں بلکہ معذور ہے اور مسلمانوں کا علما طبقہ مسلکوں کے جنجال میں پھنس کر مذہبی محاذ سے دوری اختیار کرچکا ہے۔ جب یہ صورتحال ہے تو پھر خدا کے سوا اور کوئی چارہ تو فی الحال نظر نہیں آتا ، لیکن خدا بھی عمل دیکھ کر ہی عمل کرتا ہے۔