✍️مولانابدیع الزماں ندوی قاسمی
ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کی تاریخ جیسے جیسے قریب آتی جارہی ہے ، بھارت میں مسلمانوں میں اضطراب اور بے چینی کی کیفیت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس موقع پر ملک کے معروف عالم دین ، چیرمین آل انڈیا انڈین کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ ٹرسٹ مولانابدیع الزماں ندوی قاسمی نے ایک بیان جاری کرکے مسلمانوں اورملک کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ امن و امان کی برقراری کی ہرممکن کوشش کریں۔ انہوں نے مرکزی اورریاستی حکومتوں سے بھی صورتِ حال پر سخت نگاہ رکھنے کی اپیل کی ہے۔
انہوں نے کہاکہ رام مندر کے افتتاح کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی اس میں ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں۔انہوں نے اس صورتِ حال پر فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ "رام مندر سے متعلق مجوزہ تقاریب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوششیں تشویش کا باعث ہیں۔ان کا مزیدکہنا ہے کہ عین عام انتخابات کے قریب ملک بھر میں جس طرح تقاریب منعقد کی جارہی ہیں اورجس بڑے پیمانے پر ان کو سرکاری سرپرستی فراہم کی جارہی ہے، وہ نہ صرف ملک کے سیکولردستور کے خلاف ہے بلکہ منصفانہ انتخابات کی روح سے بھی متصادم ہے۔انہوں نے زور دے کرکہا کہ ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح کوئی مذہبی تقریب نہیں بلکہ بی جے پی کا سیاسی پروگرام ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بھارت کے انصاف پسند عوام کے اعتماد کو مجروح کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔انہوں نے کہاکہ ملک کی عوام کو اپنی طرف راغب کرنے اوربھیڑ جمع کرنے کے لئےرام مندر کے افتتاح کے موقع پرایودھیا کودلہن کی طرح سجایاجارہا ہےانہوں دکھ بھرے انداز میں کہا کہ صدیوں پرانی بابری مسجد کو ہندو شدت پسندوں نے 6/ دسمبر 1992ء کو منہدم کردیا تھا۔ انہوں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ رام مندر کا افتتاح بی جے پی کا انتخابی پروگرام اوروزیراعظم کی سیاسی ریلی میں بدل گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ رام مندر کی مجلس منتظمہ کے جنرل سکریٹری نے مندر کی افتتاحی تقریب کا موازنہ یوم آزادی سے کردیا ہے، جو کہ غلط اور تکلیف دہ ہے اور یہ بیان ملک کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے والا ہے۔
مولانا موصوف کاکہنا ہے کہ بھارت میں آئینی طورپر ہر شخص کو اپنے اعتقاد کے مطابق مذہب پرعمل کرنے کا حق ہے اور کسی کو دوسرے مذہب کے رسوم و رواج پر عمل کرنے کے لیے مجبور نہیں کیاجاسکتا۔
چنانچہ22/ جنوری کو ایودھیا میں مندر کے افتتاح کے موقع پرمسلمانوں کے لئے دیپ جلانا یاکوئی بھی مشرکانہ نعرہ لگانا قطعاً ناجائز اور حرام ہے ۔انہوں نے ملک کے تمام مسلمانوں سے کہا کہ وہ موجودہ حالات میں ہرگز مایوس نہ ہوں اور نہ ہی صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے چھوڑیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان حالات میں اشتعال انگیزی کی کوششوں کو یکسر مسترد کردینا چاہئے اور مسلمانوں کو سوشل میڈیا پر بھی غیر ضروری بیانات اورتبصروں سے گریز کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ پرست عناصر اس موقع کو ملک کا ماحول خراب کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں، ایسے میں مسلمانوں کو بہت محتاط اور الرٹ بھی رہنا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ اس موقع پرہم اس بات کا اعادہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے سے مسلمان مطمئن نہیں ہیں۔ کیونکہ عدالت نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس بات کی کوئی شہادت موجود نہیں کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ بابری مسجد کا تالا توڑ کر اس میں مورتیاں رکھنے کا عمل اور پھر اس کی مسماری مجرمانہ کارروائی تھی۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود سپریم کورٹ نے ایک مخصوص فرقے کے مذہبی جذبات کا خیال رکھتے ہوئے وہاں مندر بنانے کی اجازت دے دی۔
ان کاکہنا ہے کہ بابری مسجد کے حوالے سے سپریم کورٹ نے جو حکم دیا ہے وہ ایک فیصلہ ہے، وہ انصاف نہیں ہے۔ اور مسلمان بھارتی شہری کے ناطے عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں۔