۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

چائے میں ہی ہے بس مزہ صاحب !



محمد قمر الزماں ندوی
استاد/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ



یہ تو دانشوروں کا کہنا ہے
چائے دل کا سکون ہوتی ہے

دنیا میں آج چائے سب سے پسندیدہ مشروب ہے، لوگ کہتے ہیں، آؤ چائے پی کر موڈ فریش کرتے، بعض لوگ تو چائے پی کر غم بھی ہلکا کرلیتے ہیں، اور شاعر صاحب تو پوری ایک نظم ایک چائے پی کر لکھ دیتے ہیں۔ ایک دو شعر میں بھی کہہ ڈالوں
چائے ایک کپ پلا بھائی۔۔۔۔


اب تو لوگ اسے اشرف المشروبات کہنے لگے ہیں ، ۔ چائے پر اُردو شاعری میں ایک بڑا ذخیرہ خیرہ ہے ،ہزاروں اشعار چائے کی خوبی اور لذت پر موجود ہے ، ایک شاعر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ
سارے مشروب ہی پی کے دیکھ چکا
چائے میں ہی ہے بس مزہ صاحب !


ایک دوسرے شاعر نے کہا ہے کہ

لکھ دو موٹے حروف سے کہیں
چائے دل کا سکون ہوتی ہے

کسی نے کہا کہ
تم مجھے اداس لگتے ہو
چائے بیٹھو بنا کے لاتا ہوں

اور کسی نے تو یہ بھی کہا کہ

حسن جاناں کے ہم اسیر نہیں
ہم کو تو چائے سے محبت ہے

چائے نوشی میری بھی عادت اور مجبوری ہے اور اس کو پی کر ایک خاص لذت ،تازگی، نشاط، کیف اور سرور محسوس کرتا ہوں ،حقیقت کچھ بھی ہو، لیکن پی کر تازہ دم ہونے کا احساس تو ہو ہی جاتا ہے ، ایک چائے کے بعد ایک مضمون آسانی سے پورا ہوجاتا ہے ۔ یہ عادت بچپن سے ہے اور پانچ سال بعد پچپن تک پہنچ جائے گی ، شاید ہی کبھی ناغہ اور وقفہ ہوا ہو، قدرت بھی بہت مہربان ہے ، صبح کی چائے کی تیاری کچھ شام سے ہی ہوجاتی ہے، برتن کپ دودھ اور دیگر ضروریات پہلے سے کچن میں تیار اور پہلی چائے ہمیشہ خود سے بنانے میں نہ کسی طرح کی دقت اور نہ عار، رمضان میں رات میں قضا کا معمول ہے ۔ اس سلسلہ کی کچھ خاص مزے دار اور دلچسپ کہانی اور لطیفے ہیں، جو کسی دن قارئین کی نذر کروں گا ، ہمارے مشترکہ خاندان کے بڑے مکھیا تھے، ہمارے بڑے چچا مولانا محمد ادریس عزیزی عاصی رح جن کا ابھی دو ماہ قبل ایک سو تین سال کی عمر میں انتقال ہوا ۔ ان کا معمول تھا فجر کی نماز کے بعد فورا چائے پینے اور پان کھانے کا ۔ بچپن میں صبح جب بیدار ہوتے تو منھ ہاتھ دو کر ان کے پاس پہنچ جاتا اور ضروری سامان اکٹھا کرنے میں چچا جان کا تعاون کرتا اور اس کے نتیجے میں فجر بعد روزانہ صبح صبح ناشتہ اور چائے ملتی، ان کی یہ پہلی چائے ہوتی، وہ خود اسٹوب سے تیار کرتے ۔ چائے نوشی کی یہ عادت ایسی پڑی کہ اب کوشش کے بعد بھی نہیں چھوٹ پا رہی ہے ۔ اب جب کہ ڈاکٹروں نے نمکین کا پابند بنا دیا اور شرینی سے منع کردیا ہے، تب بھی بغیر شکر کی چائے میں بھی وہی نشاط اور لذت و چاشنی محسوس ہو رہی ہے ۔


قارئین کرام!
نہیں معلوم کیوں دو دن سے واٹس ایپ کمپنی میرے واٹس ایپ کو بند کر دے رہی ہے ، پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے ، آج سوچا کہ کل کے دونوں افسوس ناک اور غم ناک خبر پر کچھ لکھوں اور غم کو کم کروں ، لیکن دلی کی مسجد اور گیان واپی مسجد کے تازہ خبروں نے دل و دماغ کو ایسا لگتا ہے کہ ماؤف کر دیا ہے ۔ طبیعت اداس اور بوجھل ہے ، دل و دماغ پر بڑا اثر ہے ، بہت کوشش کی سوچا چائے پی کر کچھ غم مٹاتا ہوں اور پھر قلم سنبھالتا ہوں ، لیکن ناکام رہا پھر سوچا چلو اب کچھ چائے پر ہی لکھ دیتا ہوں ۔


دوستو !
چائے کی تاریخ :
2737 ء قبل مسیح میں چین کا بادشاہ بادشاہ شین ننگ ایک درخت کے نیچے بیٹھا تھا کہ اسکاملازم اس کے لیے پینے کا پانی {گرم کرکے} کرلایا، اچانک اس درخت سے کچھ پتّیاں اس کھولے ہوئے پانی میں گریں اور پانی کا رنگ تبدیل ہو گیا، بادشاہ بہت حیران ہوا، اس نے وہ پانی پیا تو اسے فرحت اور تازگی محسوس ہوئی۔ اور اس کے منہ سے "چھا” نکلا غالباً وہ حیران ہو گیا تھا کہ یہ کیا ہے؟؟ اور اس نے اس درخت کا نام ہی "چھا” رکھ دیا جو بگڑ کر چاء ہو گیا اور اب چائے کہلاتا ہے۔ وہ ماہرِنباتات بھی تھا لہٰذااس نے وقتاً فوقتاً کھولے ہوئے پانی میں چائے کا پتّا ملا کر پینا شروع کر دیا۔


چائے دنیا کا پسندیدہ مشروب ہے۔ یہ چائے کے پودے کی پتیوں کو چند منٹ گرم پانی میں ابالنے سے تیار ہوتی ہے۔ پھر اس میں ضرورت اور خواہش کے مطابق چینی اور دودھ ملاتے ہیں چائے میں کیفین کی موجودگی پینے والے کو تروتازہ کر دیتی ہے۔ چائے اور اس کی انگریزی "ٹی” (Tea)، دونوں چینی زبان کے الفاظ ہیں۔ چائے کے پودے کا اصل وطن مشرقی چین، جنوب مشرقی چین، میانمار اور آسام (بھارت) شامل ہیں۔


چائے کی بہت سی قسمیں ہیں ۔ جن میں مشہور کچھ یہ ہیں ۔ سفید چائے ، پیلی چائے، ہری چائے ،اولانگ ، کالی چائے، کشمیری چائے ، الائچی والی چائے ،کڑک چائے ، پونیا چائے ، اور کٹنگ چائے اور سب سے مشہور مولانا آزاد رح والی چائے ۔


امجد محمود چشتی صاحب نے مزاحیہ انداز میں اشرف المشروبات کے عنوان سے اس مشروب کا تذکرہ کیا ہے، جو دلچسپی سے خالی نہیں ،آئیے ہم سب اشرف المشروبات کا ذکر ان کی زبانی سنتے ہیں ۔
"سبھی جانتے ہیں کہ کچھ پئیے بغیر زندگی ممکن نہیں ۔ عام مشروب پانی ہے مگرفی زمانہ کوئی چیز چائے کی مثل اور ثانی نہیں ۔ چائے کو تمام ڈرنکس پہ ڈھیروں فضیلتیں حاصل ہیں ۔ یہ سیاسی،مذہبی اور سماجی تقریبات کی شان اور جزوِ لا ینفک ہے ۔ سرکاری اداروں میں تو جیسے ایس او پیز کاحصہ ہے کہ احباب اپنے فرائض کی انجام دہی کریں یا نہ کریں ، چائے کے ناغے کا تصور بھی نہیں ۔ کسی مہمان یا آفیسر کی آمد کی صورت میں چائے کا آ نابھی ناگزیر ہو جاتا ہے ۔ نہیں تو مہمان کی عزت افزائی اورآفیسر کے پروٹوکول پر حروف آنے کے اندیشے جنم لے سکتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ چائے کی بابت یاروں کا عقیدہ غالب کے آموں کی مثل ہے کہ چائے ہو، میٹھی ہو اور ڈھیر ساری ہو ۔ چائے کے ادوار میں تو ایسے ذیا بیطسی دوست بھی روبہ صحت نظر آتے ہیں جو اقاتِ کار میں شوگر اور امراضِ جگر ومعدہ کا شکار ہوتے ہیں ۔ جبکہ حکماء انہیں باور کرا چکے ہوتے ہیں کہ چائے کی پتی سے بندے کا جگر تک کٹ سکتا ہے ۔ بعض دوست تو چائے کے ایسے رسیا ہوتے ہیں جیسے چائے کا چمچہ منہ میں لئے پیدا ہوئے ہوں ۔ ایسے حضرات عُسرت میں بھی چائے کی کثرت کی حسرت سے مالا مال ہوتے ہیں ۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ سو سال قبل چائے ہماری خوراک کا حصہ ہرگز نہ تھی اور صرف اطِبّاء کے ہاں بطور درد کُش( پین کلر) دوا دستیاب ہوتی تھی ۔ شائد اسی لئے انگریزی میں چائے پینے کے عمل میں ،، ڈرنک ٹی ،، کی بجائے ٹیک ٹی استعمال ہوتا ہے ۔ اگر یہ پرانے دور میں اسی شان و شوکت سے پائی جاتی تو شعرو ادب کی دنیا میں ہ میں انگور کی بیٹی کے ساتھ ساتھ لپٹن و سپریم کے قصیدے بھی ملتے ۔ ساغرو مینا کے ہمراہ کیتلی و کپ کے اذکار چلتے اور اکثر بسیار نوش شعراء شوگر اور پیلیا کے باعث مرتے ۔ جہاں مئے خانوں کا ذکرِخیر ہوتا تو ساتھ ہی ٹی ہاءوسز اور چائے کے کھوکھوں کے گن بھی گائے جاتے مگرہم دیکھتے ہیں کہ آج ٹی ہاءوسز ، مئے خانوں کی جگہ لے چکے ہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مئے نوشی، مدہوشی کا موجب بنتی تھی جبکہ چائے سستی اور خمار کو بھگا کرکم خوابی کا باعث ہے ۔ میر کے دور میں چائے ہوتی توفرحت ِ طبع کےلئے کہہ اٹھتے، چائے کو چاہیئے دو منٹ اثر ہونے تک "

اب معلوم ہواکہ ساغر صدیقی اپنی تخلیقات چائے کی ایک پیالی کے عوض کیوں قربان کر دیتے تھے ۔ اس لئے کہ وہ شعرو سخن کے ساتھ ساتھ بلا کے چائے شناس بھی تھے ۔ چائے اگر کلاسیکل دور میں عام ہوتی تو شعراء کرام اپنے دور کے مفتیا ن اور زاہدانِ تنگ نظر کے عتاب کا شکار ہونے سے بھی محفوظ رہتے کیونکہ چائے انہیں خود مرغوب ہوتی ۔ مگر غالب اپنی سچ گوئی اور اعترافی اسلوب میں تب بھی مانتے:

چائے نے غالب نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

لیکن اب ماننا ہوگا کہ آج زندگی چائے کے بغیر ادھوری اور بے کیف ہے ۔ اب یہ بات طے ہے کہ چائے اظہارِ محبت اور چاہت کا موءثر ترین ذریعہ ہے ۔ ہیر رانجھا اگر دور حاضر میں ہوتے تو ہیر چوری کے ہمراہ چائے کا تھرمس لئے رانجھے سے ملنے جاتی ۔ ناراضگیاں اور گلے شکوے ایک کپ چائے سے دور ہو سکتے ہیں اور دوست چائے کے ساتھ ساتھ غصہ بھی پی سکتے ہیں ۔

بقول شاعر
میرے پاس سے گزر کر مجھے چائے تک نہ پوچھی

میں یہ کیسے مان جاءوں کہ وہ دور جا کے روئے

اگر آپ چائے کے پینے پلانے کے گُر سے واقف ہیں تو بلا شبہ کامیاب انسان ہیں کیونکہ یہ حل المشکلات اور قاضی ا لحاجات بھی ثابت ہو تی ہے ۔ پی جانے والی چائے سے ہٹ کر چائے پانی کی مال افزاء اصطلاح تو سونے پہ سہاگہ کی تاثیر رکھتی ہے جس سے کام نہ نکلنے کی شرح کم ہوجاتی ہے ۔ رشتوں کے دیکھنے دکھانے کے عمل میں بھی چائے کا ہی کلیدی کردار کار فرما ہوتا ہے ۔ کسی کی ممی کسی کو چائے پہ بلاتی ہے تو کبھی کسی کے ممی پاپا چائے پہ بلائے جاتے ہےں ۔ علاوہ ازیں پھنسنے پھنسانے کی رومانوی سرگرمیاں بھی چائے کی مرہونِ منت ہیں ۔ رت جَگوں کےلئے تو ڈھیروں مفید ہے ۔ پڑھاکو سٹوڈنٹس رات کو نیند کے غلبوں سے بچنے کےلئے چائے کا ہی سہارا لیتے ہیں ۔ کچھ کی رائے میں چائے اس عدیم ا لفرصتی کے دور میں مل بیٹھنے اور پلٹ جھپٹ کر لہو گرم رکھنے کا بہانہ ہے ۔ بعض اسے اعصاب کا چابک کہتے ہیں جبکہ اہلِ دل کا عقیدہ ہے کہ چائے تو بس چائے ہی ہے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ اس چاء کو ڈالو ،چاہ میں جس چاء میں چاہ نہیں ۔ گویا ان حالات میں سٹارم اِن دی ٹی کپ کا محاورہ جوڑنا غلط نہ ہوگا ۔ کہنے کو تو دور حاضر کا اہم ایشو پانی ہے جس کی بنیاد پر اقوام عالم میں جنگیں متوقع ہیں مگر چائے کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں چائے کے پینے پلانے پہ بھی جھگڑے ہوں ۔ اس کی طلب ، رسد ،دستیابی اور تجارت کی بابت مقابلے ہوں ۔ اور ماضی کی کولڈ وارکی مانند چائے کے ا ایشوز پہ کڑک ،، وارم وار ز،، کی اصطلاح راءج ہوجائے اور ،، storm in a tea cup کی عملی تعبیربھی دیکھی جائے ۔ دیکھیں تو دنیا کے سب سے بڑے دو جنون ،سمارٹ فون اور چائے ہیں ۔ تاہم چائے کے کچھ المیے بھی ہیں جن میں خوش ذائقہ بسکٹوں کا چائے کی پیالی میں مفاجاتی انہدام اور کسی نا شناور مکھی کی ناکام تیراکی وغیرہ شامل ہیں ۔ اگر چائے نوشوں کو چائے کے مضر اثرات اور گرم مزاجی کا بتایا جائے تو فرماتے ہیں کہ چائے کے ہمراہ دیگر لوازمات یعنی بسکٹ وغیرہ کے تکلفات سے چائے معتدل ہو جاتی ہے ۔ ان کا ماننا ہے کہ دنیا کی عظیم نعمتوں میں چائے سرِفہرست ہے اور اس کے دانے دانے پہ پینے والے کا نام تک لکھا ہوا ہے ۔ بعض تو اس حوالے سے اندھی عقیدت رکھتے ہیں:

بقول شاعر

ہم فقیروں کی طبیعت بھی غنی ہوتی ہے

بیٹھ جاتے ہیں جہاں چائے بنی ہوتی ہے


تمنا ہے کہ چائے جنت میں بھی میسر ہو مگر تا حال یہ مژدہ کسی عالم نے سنایا نہیں ، پرہم نے بڑوں سے سنا ہے کہ جنت میں جس چیز کی خواہش ہو گی اس کا ذائقہ نصیب ہو گا ۔ گویا وہانں دودھ اور شہد کے ساتھ ساتھ چائے کی نہروں کی بھی حسب ِ خواہش فراوانی ہوگی اور وہ بھی حوروں کی میز بانی میں ۔ تو اب تسلیم کرنا ہی ہو گا کہ انسان اگر اشرف ا لمخلو قات ہے تو چائے اشرف ا لمشروبات ہے” ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: