محمد علم اللہ (نئ دہلی)
ہندستان تبدیلی کے دورانیہ سے گزررہاہے۔اس تبدیل ہوتے ہندستان کی دو توضیحات ممکن ہیں۔ظاہر ہے کہ اس عبوری ہندستان کا مستقبل ترقی پذیر ہے جس میں کسی بھی قسم کی مداخلت کے دومختلف طریقے ہوسکتے ہیں۔اولین توضیح تو یہ ہے کہ ہمارے سامنے جو ہندستان ہے وہ تتر بتر ہوچکاہے۔اس بر صغیر کی دیواریں متزلزل ہوتی جارہی ہیں ،اپنے ہم سایہ ممالک اور ریاستوں سے اس کے رشتے ٹھیک نہیں ہیں،یہ جغرافیائی اور سماجی طورپر اندرہی اندر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے،نیز اسے سیاسی طورپر متحد رکھنا ناممکن نظر آرہاہے۔مزیدتہذیبی اور تمدنی طورپر بھی اس پر کئی طرح دباؤپڑتے آرہے ہیں۔جن سے اس تہذیب کا روایتی توازن اور پائے داری بگڑسکتی ہے۔حالاں کہ کئی لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ تمدن پہلے بھی کئی طرح کے حملوں کو جھیلنے کے باوجود کسی نہ کسی طورٹکا رہا ہے،لیکن اس بار صورت حال تشویش ناک ہے۔ہندستان پر ایک طرف صارفیت اور عالمگیریت کا حملہ ہورہاہے اور دوسری طرف نت نئے تصادم کے شروع ہوجانے سے بڑھتے فرقہ وارنہ فسادات کے رجحانات اس کے سماجی تانے بانے کو اندرونی طورپر تار تار کیے دے رہے ہیں۔ثالثی،صلح اور گفت و شنید کے ذریعہ سے تنازعات کو ناٹ نے کی روایت طویل عرصہ تک ہندستانی جمہوریت کا خصوصی گُن رہی ہے،لیکن فرقہ پرستی کی موجودہ صورتِ حال کے سبب یہ رجحانات اس تہذیب کی خوبیوں سے پرے چلے گئے ہیں۔ یعنی ہم جس ہندستان کو جانتے ہیں وہ صرف ’بحران ‘میں ہی نہیں ہے بلکہ اپنی تباہی اوربربادی کے آخری دور میں داخل ہوچکاہے۔
لیکن اس عبوریت کی بالکل مختلف طریقہ سے بھی توضیح یہ کی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ یہ سب ایک نئے ہندستان کی پیدائش کا لیبرپین(دردِ زہ) ہی ہے۔اس توضیح کے مطابق ہندستانی ساخت خاصی کثیر الوسعت بلکہ تہہ دار ہے،شاید اسی لیے یہ اپنے کسی بھی صاف ستھرے، واضح اور متعین خدوخال طے کرنے کی کوشش کو ناکام بناتی رہتی ہے۔اظہارِرائے کے اس مسئلہ کا ایک سبب یہ بھی ممکن ہے کہ ہم ایک مختلف نوعیت کی حقیقت کو دانشورانہ سطح پر سمجھنے ،سماجی بنیاد پر اس کے ساتھ تال میل رکھنے اور اسے قبول کرنے میں ناکام رہے ہیں۔یہ ایسی حقیقت ہے جو عملی طورپر قائم غیر منظم گروہوں اور ’دیسی‘طبقۂ اشرافیہ کے ابھرنے کے اثرات لیے ہوئے ہے۔ہم اسے سمجھنے اور اس سے تال میل رکھنے میں اس لیے ناکام رہے کیوں کہ ہم اب تک وطن کو بلندیوں پر بیٹھ کر دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے مسلسل ایک’ سسٹم‘اور ’سسٹم کی تبدیلی‘کی جستجو میں مصروف رہے ہیں۔
یہ نقطۂ نظر نہ صرف قومی سطح کے رہ نماؤں ،نوکر شاہوں اور منصوبہ سازوں کا ہے ،بلکہ اکیڈمیشین اور عالی شان دفاتر کے بندکمروں میں بیٹھے میڈیا مہنتوں کا بھی ہے۔علاوہ ازیں یہی نظریہ ان سوشل ورکرز اور این جی اوز کے مراکز میں براجمان کارکنان کا بھی ہے جن کے ذریعہ سماجی اصلاحات کی ڈھیر ساری مہمیں چلائی جاتی ہیں۔یہ لوگ معلومات کی بہتات کے شکار ہیں۔ڈھیر ساری اطلاعات اور آگاہی رکھنے کے باوجود ان کی فہم ناقص ہے۔(اعلیٰ طبقات کے مفاد اور اشرافیہ کے عدم تحفظ کے احساس کے سبب علم و آگہی بھی مسخ ہوکر رہ گئی ہے)۔
عوامی ’فکر‘کے متعلق ان نام نہاد اعلیٰ مراکز میں سے ہر ایک کافی واویلا مچا چکا ہے۔ ہمیں بتایا جاتاہے کہ کوئی قانون کی تعمیل نہیں کررہاہے۔طویل عرصہ سے منظور شدہ عوامی مفادات کی مسلسل خلاف ورزی ہورہی ہے۔اخلاقی سطح میں کافی گراوٹ آچکی ہے اور ہرفرد آئین میں مذکور اقدار اور وعدوں کے بنیادی ڈھانچوں کے ساتھ کھلواڑکررہاہے۔باوجوداس کے،کیا اس کا سبب یہ تو نہیں ہے آج عوام کے جم غفیر کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑرہاہے ،وہ ان مسائل سے بنیادی طورپر مختلف ہیں جن کا وہ گذشتہ25۔30برسوں سے سامنا کررہے ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ عوام الناس ایسی ہجرت کے دور سے گزررہے ہیں جہاں ماقبل میں مروجہ ضابطۂ اخلاق غیر متعلقہ ہوکر رہ گیاہے اور نئے ضابطہ کا اب تک جنم ہی نہیں ہواہے؟دراصل اقدار اور وعدوں کے نظر انداز کرنے کا شوروغوغااُن خود ساختہ قوانین کی طرف سے سنائی دیتاہے جو ایسی اقدار اور نظام میں بندھا ہوا ہے جو عوام کے جم غفیر کے لیے بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔
قصہ یہ ہے کہ ایک وطن کے روپ میں ہماری خود اعتمادی ختم ہوگئی ہے اور یہی اس بے چینی کا اہم سبب ہے۔اس ملک کو اب تک جس طرح کے لوگوں کے اقتدار کے ذریعے چلایا جاتارہاہے،ان کے رجحانات صاف طورپر مفاہمتی اور قومیت کے تھے۔یہ لوگ ملک کو آگے لے جانے کی خاطرمکمل نہ سہی مگر کچھ حدتک متعین اقدار اور پہلے سے طے شدہ طریقوں کا استعمال کرتے تھے۔یہ ایک ایسی دنیا تھی جس میں کافی ٹھہراؤ تھا،جس میں ’نمو‘ اور’ ترقی‘کا تسلسل تھا اور ملک/ریاست ٹکے نظر آتے تھے۔ آج نہ صرف ہماری خود اعتمادی ختم ہوچکی ہے بلکہ وہ اُمیدبھی ختم ہوگئی ہے جس کے سبب زیادہ تر لوگوں کی زندگی میں کچھ نہ کچھ رمق نظر آتی تھی۔(حالاں کہ بالکل نچلے درجے پر نظر انداز کردہ لوگوں کو اُس وقت بھی امید نہیں تھی۔ان لوگوں کی پروا کسی کو بھی نہیں تھی ۔لیکن ایسے محروم کردہ لوگوں کو اتنا ضرور لگتاتھا کہ ایک نہ ایک دن ’ارتقائی ماڈل‘ انھیں اس پستی سے نکال لے گا۔)پہلے ہمیں لگتا تھا کہ ہم ایک ایسے ملک کا حصہ ہیں جو کسی نہ کسی طرح ہمیں آباد رکھے گا،ہمیں صحت،تعلیم اور معقول بودوباش کی کم ازکم سہولیات مل جائیں گی۔سارے انڈیکس گروتھ کرتے رہیں گے،اوسط عمریں بڑھتی رہیں گی،نوزائدہ اموات کی شرح گھٹتی رہے گی ،لوگ سطح غربت سے اوپر اٹھتے رہیں گے۔اشیا کی قیمتیں مستحکم رہیں گی،خواندگی سست رفتارسے ہی سہی لیکن بڑھتی رہے گی ۔ان شہروں کی ترقی ہوتی رہے گی جو اپنی گندگی اور اپنی گم نامی کے باوجود کمزور طبقات کی صورتِ حال میں بہتری کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔بکثرت لوگوں کی زندگی میں تحریک و عمل کے متعدد مواقع آتے رہیں گے،مثلاً نئے کاروبار،دست کاری سے بنی اشیا کی مارکٹنگ،تخلیقی آرٹ،ڈیزائن اور گرافک کی دنیا،سائنس دانوں اور عوام جدید سائنس کے اسرار کے متعلق واقفیت کرانے میں لگے دیگر لوگوں کے وسیع تجربات جاری رہیں گے۔دقت یہ ہے کہ ان سارے کاروبارکے جاری رہنے اور اس کی توسیع کے باوجود ہم میں جوش اور جذبہ جیسے ختم ہوکررہ گیا ہے۔اب یہ سب کاروبار اجتماعی کوششوں کا جزو نہیں لگتے۔ایسا ظاہر نہیں ہوتاکہ یہ سب ہندستانی سماج کی تصویر بدل رہے ہیں۔اب اس میں پہلے جیسی ہم آہنگی اور خوداعتمادی نظر نہیں آتی ہیں۔
بالخصوص اب یہ توقع تو ختم ہی ہوچکی ہے کہ قومی بہبود و خوش حالی میں ہر شخص حصے دار ہوگا۔غریب سے لے کر متوسط طبقہ تک عوام کے وسیع تر طبقات میں عدم تحفظ کا احساس نمایاں طورپر بڑھ رہاہے۔صرف سماج کے امیرترین طبقہ ہی کواس کی رعایت حاصل ہے جس کی بد نما اور بے رحم طریقۂ زیست نے لوگوں کے من میں نا انصافی اور علاحیدگی کے تئیں غصہ بھردیاہے۔یہ سوچ زور پکڑرہی ہے کہ جو امیر ہوسکتے ہیں ،ہوجائیں اورجو نہیں ہوسکتے ،انھیں ان کے حال پر چھوڑکر بھلا دیا جائے۔
یہ ذہنیت ترقی پذیر متوسط طبقے کے پروفیشنل لوگوں کی بھی ہے۔ان میں نہ صرف وکیل،ڈاکٹر اور پی ڈبلیوڈی کے کرپٹ انجینئر شامل ہیں،بلکہ اکیڈمیشین ،صحافی اور غیر سرکاری تنظیموں کے کارکنان اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھوں غیر ملکی نوکریاں مل سکتی ہیں،یا جنھیں بیرونی ممالک کے دورے کا موقع مل سکتاہے۔لیکن، ابھی تک ترقی کی سیڑھیاںچڑھنے میں مصروف اس متوسط طبقے میں بھی نزول کا سلسلہ شروع ہوگیاہے۔بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی ،پیٹرول جیسی پر تعیش میٹریل اور رہائش کے ہائی پرائس کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت جیسی ضروری خدمات میں آئی کمی انھیں تنگ کررہی ہے۔ان صورت حالات نے ترقی اور اچھی زندگی کے بارے میں ان کے قدیم مفروضوں کو باطل کردیا ہے۔
زندگی کے ممکنات کے بارے میں خود اعتمادی اور رجائیت کے اس کشیدگی کے ساتھ اچھاکام کرسکنے کی ریاست کی صلاحیتوں پر سوال کھڑا کرنے کے رجحان میں بھی اضافہ ہورہاہے۔شناخت،بالخصوص قومی شناخت کا نقصان تو ہوہی رہاہے، راج دھانی یعنی نئی دہلی کی اہمیت بھی مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔اس کے وقار اور اختیار میں بھی گراوٹ آئی ہے۔وزیراعظم،دیگر وزرا،انڈرسکریٹریز سے لے کر حکومتی بندوبست اور متعدد کمیشنز کے ممبران اور سب سے اوپر’ نیتی آیوگ‘کے تئیں لوگوں کا اعتمادکم ہورہاہے۔
یہی وہ حالات ہیں جن میں شناخت کی تلاش ہورہی ہے ۔ماقبل میں قائم شدہ شناخت کے آر پار نئے رشتے کے قیام کی کوششیں کی جارہی ہیں۔تعلقات میں ہورہی تبدیلیوں کو نئے ڈھنگ سے سمجھنے کی کوشش ہورہی ہے۔ظاہر ہے کہ چہارجانب ہورہی سخت مخالفت اور عدم تحفظ کے ماحول میں نئی قیادت کے مکمل فقدان نیز نئی اور متعلقہ نظریات کی کمی کے باعث اس جدید فہم کے تئیں لوگ ابھی غیرمطمئن ہیں۔باوجود اس کے جدیدفہم اور اعتبار کی علامات نظر آرہی ہیں۔قدیم بندھنوں سے گلو خلاصی ہونے کا احساس پیداہونے لگا ہے،معاً ممکنہ جدید رشتے کے متعلق بے چینی بھی ہے کیوں کہ یہ نئے بندھن موجودہ بندوبست کو درہم برہم کرسکتے ہیں اور اس کے سبب کشیدگی اور انارکی کا بھی خدشہ ہوسکتاہے۔قدامت سے آزادی اور جدت کے خوف کا ملا جلا احساس پروان چڑھتا جارہا ہے۔ وہ خاص نوعیت کا مزاج جسے ’آزادی میں موروثی خوف‘سے تعبیر کیا جاتاہے اوراسی میں اس خوف سے آزادی کا امکان رہتاہے جو نہ جانے کب سے کتنے ہی لوگوں کو نئے نئے رستے اختیار کرنے کا خطرہ اٹھانے سے روکتا رہتاہے۔
چوں کہ اکثر لوگوں کے لیے مستقبل ابھی غیر متعین ہے۔اس لیے اس کے متعلق رجائیت پسندی یا مایوس ہونے کی کوئی تک نہیں ہے ۔چاروں طرف گہرے ابہام کا راج ہے۔بائیں بازو والے ہوں یا دائیں بازووالے ،مذہبی ہوں یا مذہب بے زار ،روایت پسند ہوں یا مغرب زدہ سبھی اس کی زد میں ہیں ۔ حالاں کہ ہندوساانیوں کے لیے یہ ابہام کوئی نئی بات نہیں ہے ،لیکن اس مرتبہ نیا رجحان زبردست شکل وصورت سے تبدیل شدہ سماجی اور سیاسی ماحول میں ظاہر ہواہے۔مزید برآں یہ احساس بھی تیز ی سے بڑھ رہاہے کہ ادارے اب توقع کے مطابق فرائض انجام نہیں دے رہے ہیں ۔عوام کا گمان ہے اشیا منتشر ہورہی ہیں ،مگر ایسے لوگ بھی ہیں جو اِن حادثات کو اہم مانتے ہیں کیوں کہ ماضی میں ان کے کچھ خاص تھا بھی نہیں۔
یہ صورت حال شہری علاقوں اور ان میں بھی بڑے شہروں میں زیادہ صاف نظر آتی ہے۔اسے کچھ لوگوں نے پوسٹ ماڈرن کی اصطلاح بھی دی ہے۔شہری آبادیوں میں تیزی سے ہوتے اضافے کا حقیقی مقصد ہم اب تک نہیں سمجھ سکے ہیں ۔ہم اس حقیقت کا ادراک بھی ابھی پوری طرح سے نہیں کرپائے ہیں کہ بڑھتی بدامنی شہروں میں خود کو ایک دم نئے طریقے سے ظاہر کرے گی اور بالکل نئی طرح کے گروہوں اور سماجی تنوع کے نئے تاثرات کے ابھرنے کا امکان پیداہو گا۔ہم شہرکو طویل عرصے سے نظر انداز کررہے ہیں اور وہ بھی ایسے دور میں جب دیہات کے علاقوں اور ماحولیات کو اس سے بھی بڑے پیمانے پر نظر انداز کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔اس نظر اندازی کے سبب گاؤں کی کام کاجی آبادی شہروں کی طرف بھاگنے پر مجبور ہے۔یہ صورتِ حال ہمیں بالکل مختلف نوعیت کے مسائل پر دھیان دینے پر مہمیز کررہی ہے۔ایسے مسائل کو بالعموم ’شہریت‘کے مسائل کے دائرے میں نہیں سمجھا جاسکتا۔
’غیر منظم علاقہ جات ‘کا دائرہ مسلسل وسیع ہوتاجارہا ہے اور اس میں ذات پات اور طبقات کی نئی ساخت ابھر رہی ہیں ۔گاؤں سے شہر آنے والے طبقوں میں پس ماندہ،دلتوں اور سماجی بنیادوں سے کٹے ہوئے افراد کے وجود میں اضافہ ہورہاہے۔بڑھتی ہوئی عدم اعتمادی سے تمتمائے لوگوں اور غیر مطمئن خواتین کا گروہ بڑھتا جارہاہے۔لاکھوں کروڑوں بے گھر بچے محنت مزدوری اور جسم بیچنے پر مجبور ہیں۔قابل غور بات یہ ہے کہ اپنے مسائل سے دوچار روایتی اعتقادات کو ترک کررہے ہیں اور ہم نئی قسم کے خیالات ، رویہ اور طریقوں کے استعمال میں مصروف ہیں ۔
نئے اعتقادات اور رویہ و طریقوں کا فریم ورک واضح نہیں ہے۔سماجی اور دیگرعلاقوں میں سرگرم ہوکر نئے مواقع حاصل کررہے نوجوانوں ،نادار خواتین اور روایتی دست کاروں و ہنر مندوں کے سامنے ذات پات اور خاندان کے مستقل ڈھانچے کے علاوہ کوئی اور ماڈل نہیں ہے۔مگر نئے چیلنجز کا سامنا کرنے میں مذہبی عقائد کم سے کم مفید ثابت ہورہی ہیں۔ایسی صورت حال میں ہمیں اقتصادی حیات کے برعکس بالکل نئے حوالوں ،سیکولر سیاست کے نئے ڈھانچوں اور عوامی سماج کے اژدہام سے دودوہاتھ کرنے پڑیں گے۔
’رجحان سازی‘کا مطلب صرف نوکریوں میں ریزرویشن اور متوسط طبقے کے من میں اقتصادی اندیشے پیداکرنے سے کہیں زیادہ انھیں سمجھنا ہے۔اس رجحان نے ایسے موقع پر غریبوں کے سیاسی اور سماجی دعوے کو ظاہر کیاہے۔جب لبرلائزیشن کی اقتصادی پالیسیاں اور ہندوتو کے سوشل چینلنجز اس کے وجود کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔لیکن لبرلائزیشن اور ہندوتو ،دونوں ہی ناکامی کے اندیشوں کے شکار ہیں۔یہاں پر یہ کہنا بے محل نہ ہوگاکہ موجودہ ہندستان کے پاس سماجی قوتوں کے اس نئے اجتماع کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے جب کہ یہ طاقتیں سیکولر اقدار جمہوری طرز کی نئی تعبیرات کی مانگ کررہی ہیں۔
اندرا گاندھی نے ایک بارکہاتھا کہ ہندستان میں بکثرت دو ہی طبقے پائے جاتے ہیں۔ایک غریب اور دوسرے نوجوان۔غریبوں کے مطالبات کو عہد بہ عہد درکنارکیاجاتارہاہے۔اس ضمن میں متوسط طبقے کی اخلاقی حمایت کا بھی اظہار ہوچکاہے۔لیکن جب غریبوں کی اکثریت نوجوان ہو تو وہ اپنی موجودگی تسلیم کرواکے ہی رہتی ہے خواہ وہ بڑھتا مطالبہ بدامنی کا باعث اور قدیم ڈھانچے میں اتھل پتھل پیدا کرنے والا ہی کیوں نہ ہو۔بہر حال مستقبل کے لیے کسی بھی ٹھیک ٹھاک اندازے کے تعین کے لیے نوجوان نسل کے ممکنات اور ارادوں سے پوری آگہی لازمی ہے۔
اسی نقطے پر موجود ہ نوجوان نسل کے اندر زبردست تناؤ کی کیفیت اور کشمکش دکھائی دیتی ہے۔ایک طرف معاشی طور پر خوشحال نوجوان نسل کے اندر مغربی طرز کی صارفیت، منشیات کا بے دریغ استعمال اور گھر پریوار کے دائروں سے باہر طبقۂ اشرافیہ کی سی لطف اندوزی کے تئیں کشش بڑھتی ہے۔دوسری جانب زیادہ سے زیادہ خوش حالی اور فارغ البالی حاصل کرنے کے لیے نوجوان نت نئے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔ان سے بعض شرپسند افراد اور فرقہ پرست گروہ طاقت کے مظاہرے کی غرض سے سڑکوں پر غنڈہ گردی اور فرقہ واریت یا فسادیا خود کے خلاف تشدد (جیسے خود سوزی)وغیرہ کا سہارا بھی لیتے ہیں۔غریب نوجوانوں کو بازار اور ماس کمیونیکیشن کے مایاجال میں پھنسانے کی کوشش ہوتی ہے۔لیکن زیادہ امکان اس بات کا رہتاہے کہ وہ سسٹم کے اندر اپنی جگہ بنانے کے لیے ہی کوشاں رہیں ،خواہ وہ جگہ فٹ پاتھ پر بسیرا کرنے والے بچوں یا چائلڈ لیبر کی شکل میں ہی کیوں نہ ملے۔
اس نظام کے دروازے ایسے نوجوان کے لیے نہیں کھل سکتے اور یہ ہرحال میں محدودیت (نوکریوں کی کمی،حسد اور عدم اعتمادی کی کثرت)ہوتی ہی چلی جائے گی۔ظاہر ہے کہ نو آبادیاتی منصوبہ بنانے والی بیرونی طاقتوں سے انضمام اور بہتر انصرام کی منصوبہ بندی کی توقع لاحاصل ہی ہے۔ان حالات میں نئی قدروں کی بحالی کی توکوشش کرنی چاہیے ۔کم از کم اس کی فعال جستجو تو ہونی ہی چاہیے۔اس دوران مفادات کا ایک نیا گٹھ جوڑ بھی ابھر سکتاہے جو طبقات اور ذاتوں کی پنپتی تحریک سے قوت حاصل کرتے ہوئے ایک نئی تحریک کو صورت و ہیئت عطا کرے گا۔یہ نئی تحریک’تعلیم‘نئے کاروبارکی تربیت اورترسیل کے نئی طرح کے تجربات کی جدید ضروریات پر مبنی ہوگا۔ موجودہ آزاد خیال طریقے شاید نوجوانوں کی ان ضرورتوں کو پورانہیں کرسکتے،اس لیے ’مضبوط جمہوریت‘کی اپنی تلاش کو مضبوط کرنے کی غرض سے نئی نسل نئے طریقے ایجاد کرسکتی ہے۔
طبقہ،نوجوان،عورت اور ذات پات کے ان ہی ابھرتے سوالوں کے پس منظر میں آنے والے برسوں اور دہائیوں میں ہندستانی کشمکش کی تعمیر نو کے چینلج سے ہمیں ننال ہوگا۔ ریاست جیسے جیسے انصاف یقینی بنانے اورابتدائی سماجی فلاح و بہود کے کاموں ،تعلیم اور صحت ،آبادکاری اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی ذمے داری کو ترک کرتی رہے گی، ویسے ویسے نئے ادارہ جاتی ماڈلس کی ضرورت پیدا ہوتی جائے گی ۔نئی مفاہمت ’مزدوروں‘کے ذریعے جاری کردہ نئی تنظیموں(کمانی تجربہ ایک مثال ہے)کی شکل میں نئے خود مختار طبقے بنتے ہیں۔نتیجتاً عوامی گروہ کے ذریعے فراہم کردہ گنجائشوں کو نئی شکل وصورت دینی پڑتی ہے۔اس گنجائش پر اب تک ایک مرکزیت اور کلونین نوکر شاہی حاوی تھی۔ نئے حالات میں اسے حیاتِ نو اور نئی’آزادی‘ملنے کی توقع ہے۔
ان صورتِ حالات میں ایک نئی جدا سیاسی ہیولہ بھی اُبھر سکتاہے۔مرکز یعنی نئی دہلی میں ہی سب کچھ نہ دیکھنے کی ابتدا کافی پہلے ہوچکی ہے۔نہ صرف نسلی تشخص اور علاقائی خود مختاری کی تحریکات مرکزسے دور جارہی ہیں بلکہ سماجی اور معاشی انصاف کی تحریکات بھی اس سے چھٹکتی جارہی ہیں۔اسی فہرست میں عورت کا وجود بالکل نئے طرح کا دعوا پیش کررہاہے۔اس دعوے میں جبر کے ملکی ڈھانچے کے خلاف بغاوت کے گہرے جذبات ہیں۔یہ جذبات شہروں اور بین الاقوامی رجحان والے حقوق نسواں کے علم برداروں میں نہیں پائے جاتے تھے۔(حالاں کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ دوسرے والے حقوق نسواں کے علم بردار پہلے والوں کے لیے گنجائش پیدا کررہے ہیں)اسی سلسلے میں ’ہندستان‘کے دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے والے عمل کو بھی دیکھا جاسکتاہے۔یہ ہندستان شرد جوشی کے ذریعے (نام نہاد ترقی پسند کسانوں کی طرف سے)درجہ بندی کرنے والا ہندستان نہیں ہے۔بلکہ قبائلی اور مختلف دیسی گروہوں میں پائی جانے والی زمینی جمہوریت کی اصلیت اور سنجیدہ جستجو کے ذریعے متعین کردہ ہندستان ہے۔یہ ان روایتی دست کار طبقوں کا ہندستان ہے جو ہندستانی دست کاری اور تمدن کے احیا کی کوشش میں مصروف شہری اور بین الاقوامی صنعت کاروں سے دودوہاتھ کررہے ہیں۔یہ ان فن کاروں،کارکنان اور متبادل میڈیا کے حمایتی افراد کا ہندستان ہے جو اپنے اور اپنے ملک کے لیے نئی قدروں کی جستجو کررہے ہیں۔
یہ سب ہی مل کر نئی قسم کے ’خصوصی خود غرضیوں‘یا اقتدار کے گلیاروں میں گروہ بندی کررہے پیشہ وراور صنعت کارگروہوں کے خلاف یعنی غیر ملکی مفادات سے مفاہمت کرنے والے ان ملک دشمن عناصر کے خلاف ہیں جو ’قومیت‘کا بھیس زیب تن کیے ہوئے ہیں۔علاوہ ازیں قدیم سوشل بیان بازیاں بھی ان لوگوں کے گلے سے نہیں اتررہی ہیں۔اس عالم میں طاقتوں کی نئی گروہ بندیوں کے ابھرنے کا امکان پیدا ہوگیاہے۔
سوال یہ ہے کہ اس نئے ماحول کی تاثیر کیاہے؟یہ تشخیص موجودہ نسل کو بے چین کرسکتی ہے۔مگر یہ ان ممکنات اور نئی امیدوں کے در کھولتی ہے جو ملک کو جمہوری بااختیار بنانے کی نئی پہل کی جانب لے جائیں گے۔اس سے ان سماجی طبقوں کا اوپر اٹھنا لازمی ہوجائے گا جنھیں اس ’ترقی پذِیر‘سماج میں حاشیے پر رہنے کو مجبورکردیا گیاتھا۔آج وہ طبقہ نیا کردار اداکرنے کے لیے پر اعتماد ہے۔اس قدر بے یقینی،اتنے تصادم اور اتنے امتیازی سلوک کے باوجود اس طبقے کو اوپر اٹھانے کے ساتھ ایک نئے شعور اور نئی ہم آہنگی کی بنیاد قائم کرنی پڑے گی۔ہندستانی تہذیب کا ایک قدیم تمدن خو بی شعور کے تئیں اس کی گہری رواداری کی صورت میں ہورہاہے۔آج کا ہائی ٹیک طبقۂ اشرافیہ کسی نہ کسی طرح کے مقصدی جوڑتوڑ کے مطابق چیزوں کو چلانا اور خدشات کو دورکرنا چاہتا ہے۔نیز درمیانی صورت حال کو قبول نہ کرنے والے دلائل کے سہارے جینا چاہتاہے۔ان جدیدیت پسندوں اور ان کے ’مابعد جدید‘وارثین کا دور اس ملک میں ہی نہیں ،دنیا کے دیگر ممالک میں بھی خاتمے کے دہانے پر ہے۔اس کا مطلب کسی قدیم ماضی کی طرف مراجعت نہیں ہے کیوں کہ’ نشأۃ ثانیہ ‘کے لیے ’ماضی‘ہمیشہ موجود نہیں رہتا۔
ہمیں نئے طریقے سے یہ قبول کرناہی ہوگا کہ ہمارے جیسے سماجوں کے لیے تنوع قدرتی کیفیت ہے۔امتیازی برتاؤ ایک تمدنی رجحان ہے اور اقدار کی اکثریت کی حامل ریاست کے اوتار کی تشکیل کا عمل ہے۔ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگاکہ کسی ایک مرکز کے بغیر ہی ہماری تہذیب کا وجود ہے۔اس تہذیب میں با اختیار نیا اشرافیہ طبقہ تو ہے مگر وہ آمرانہ صلاحیتوں کا مالک نہیں ۔یہ تہذیب ایک غیر متعینہ حقیقت کی توضیح کو صحیح اور غلط کی نئی شناخت کے تناظر میں،’مذہب‘کے تناظر میں ،ہمارے اپنے لوگوں کے ذاتی کارناموں کے تناظر میں اور نیچے سے اوپر کی طرف جانے والی ایکتا ہی ایک نئے قومی (وفاقی)تصور کے تناظر میں کرسکتی ہے۔
یہی ہے وہ فضا جس میں ایک نئی بیداری اور بہترین اقدار کی تشکیل نوکے امکانات ہیں۔یہ فضا فوری طورپر اپنی وسعتوں کے تعلق سے غیر متعینہ ہے تاہم امکانات کی آہٹوں سے پُر ہے۔
ہم اس ڈی سنٹرلائزڈسماجی/سیاسی ڈھانچے کی طرف نہیں لوٹ سکتے جسے اِس قدیم ملک میں کبھی مستحکم کیاگیا تھا۔لیکن اس ابھرتے تصور کے تئیں تسلسل ایک ایسے تمدنی مزاج کو پھر سے متحرک ضرور کرسکتے ہیں جو ایک ’ریاست‘کے اکثریتی ڈھانچے کے لیے مناسب ہو۔اس لیے نظریاتی کوششوں کے ایک سلسلے کی ضرورت ہے۔اس میں قومی اقدار کا احیا ،’ریاست‘کی تشکیل نو ،ہندستان کے نام سے معروف ہونے والے تمدنی اور تہذیبی رشتوں کے عناصر کی دوبارہ تلاش (نہرو اور رادھاکرشنن سے آگے)شامل ہیں۔اس کی جغرافیائی ،سماجی،تمدنی ،نفسیاتی اور کلاسیکی جمالیات کی ایکتا کے تصور کو دوبارہ گڑھنے کی ضرورت بھی ہے۔ ان سب کے ذریعے سے رپبلکن سسٹم کو فوری ڈی سنٹرلائزڈکرنے اور اس کا نیا مرکز متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ اس نظام کو نیچے سے مستحکم کیا جائے،اس کا علاقائی استحکام (پنجاب،کشمیر اور تمل ناڈوکے چینلجزکے تناظر میں)اور سماجی استحکام (متعینہ حلقوں کے تناظر میں)بھی کیا جائے۔اس میں گہرے حالات کا شعور(جیسے کہ نرمدا اندولن کا چیلنج ہے)اور وسیع اقتصادی فلسفے (عالمگیریت کے خلاف جدوجہد کے چیلنج کے پیش نظر)کی بھی ضرورت ہے۔اس طرح ایک نئے اور نو تشکیل جمہوری ڈھانچے کو بنانے کی ضرورت ہے جو سماجی کائنات میں مچی تازہ اتھل پتھل اور ماقبل کے تہذیبی رجحانات سے تحریک حاصل کرتا ہو ۔ان ہی قدیم تہذیبی رجحانات نے ہندستان کو آغاز سے ہی جمہوری راستہ اختیار کرنے کے لائق بنایا تھا۔
واضح ہے کہ اس بدلتے ہوئے ہندستان کی دوسری توضیح سے ہم متفق نہیں ہیں کہ ایک نیا ہندستان لیبرپین سے گزررہاہے۔اسی تصورکے ذریعے ہم مستقبل کی ایک جھلک دیکھ سکتے ہیں۔اس کے لیے ہمیں ان نئی طاقتوں کے متعلق مناسب ذہنی ارتقا کی ضرورت پڑے گی جو مستقبل کو خدوخال دے رہی ہے۔یہی تاریخ کا فرمان ہے اور اس سے بہرور ہونے کے لیے ایک نئے سیاسی استحکام کی ضرورت پڑے گی ۔ذہنی ارتقا اور سیاسی عمل کا یہ اتفاق تاریخی حقائق کے تئیں مناسب وقت پر مناسب ردعمل کی بنیاد پر اور مناسب افراد کے ردعمل کے قابل بناکر حاصل کیا جاسکتاہے۔مشغول ہونے کا رجحان ترک کرنا پڑے گا ۔جلدی پہل کردینے یا عمل کرنے کے فتنے سے بھی ہر حال میں بچنا ہوگا۔منسلکہ اور غیر منسلکہ کے باہمی ربط میں ہی دانش مندی ہے۔یہ نئے ممکنات کے در کھولتی ہے مگر ان پر قبضہ جما کر بیٹھ نہیں جاتی۔