ہندستانی مسلم شناخت کی تاریخی جڑیں
✍محمد علم اللہ، نئ دہلی
_______________
مسلمانان ِبرصغیر پاک و ہند کی نظریاتی ترقی کی تاریخ میں عظیم ہستیاں پیدا ہوئیں اور بڑے کارنامے انجام پائے۔ مسلم قومیت عظیم نسلوں اور ثقافتوں کا مرکب ہے۔اس میں عرب، منگول، ایرانی، تورانی، افغانی، خراسانی، جاٹ، راجپوت، کول، بھیل، شیخ، برہمن غرض مختلف طبقوں اور علاقوں کی نمائندگی پائی جاتی ہے۔ مزیداس میں سامی، آریائی اور دراوڑ ذاتوں کی خوبیاں بھی جمع ہیں۔مذہب اسلام اپنا نے کے باوجود اس نے سچائی کی تلاش میں ہندومت، بدھ مت،پارسی ازم کی جستجو کی ۔ انسانیت کی جو نمائندہ وراثت ملی اس کا تحفّظ کیا اور اسے اپنایا ۔ بدقسمتی سے یا خوش قسمتی سے اسے جدید مغربی ثقافت کے سمندر میں بھی ڈوبنا پڑا، لیکن اس پورے تاریخی سفر میں ہندستانی مسلمان کے ذہن میں ہمیشہ ایک ہی چیز رہی۔ہم اپنا اسلامی تشخص کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں؟علاقائی، نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو قومی یکجہتی کے دائرے میں اور قومی مفاد کے تحت کیسے روارکھا جا سکتا ہے؟ماضی اور حال کی کڑیوں کو جوڑ کر مستقبل کی طرف بڑھنے کی کیا حکمت عملی ہے جس میں ہم نہ تو ماضی سے کٹے ہوئے ہیں اور نہ ماضی کے قیدی ہیں، بلکہ حال اور مستقبل کی توقعات کو سمجھ کر ان پر عمل درآمد کریں گے۔
علم و فکر کی دنیا میں آئے دن نئے خیالات کے طوفان کی بوچھار سے نظر آنے والی نظریاتی عدم استحکام کی بیماری یا خطرے کا علاج کیسے کیا جائے؟کیا ہمیں ایک عمومی مادیت پسند حکومت پر انحصار کرنا چاہیے یاخلافت قائم کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا ہمیں اپنی سونی دھرتی کا گیت گاتے رہنا چاہیے یا نظریاتی طور پر ایک پان اسلامسٹ بین الاقوامی اور بین الانسانی ثقافت کی تشکیل کے لیے کام کرنا چاہیے؟
برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی نظریاتی ترقی ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اگرچہ یہ سوالات مسلم معاشرے کے ہر شعبے میں اٹھائے جاتے تھے لیکن برصغیر پاک و ہند کے حالات میں ان کی خاص اہمیت تھی، کیونکہ عرب، ایران، افغانستان اور ترکی کے برعکس یہاں کی آبادی کی اکثریت نے اسلام قبول نہیں کیا۔ مسلمان ایک اقلیتی طبقہ تھے لیکن ایک ایسی اقلیتی برادری جس نے صدیوں تک اکثریتی طبقے پر حکومت کی۔یہ انگریزوں کی طرح یہاں کی چیزیں لوٹ کر کہیں نہیں لے گئے بلکہ اسی مٹی کو اپنا مرکز اور مدفن بنایا اور اسے سونے کی چڑیابنا دیا۔
تصوف نے برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کے سامنے اٹھنے والے سوالات کا پہلا جواب دیا۔ صوفیہ کی کوشش یہ تھی کہ وہ مقامی لوگوں اور مقامی زبان نیز مقامی رسم و رواج سے ہم آہنگ کر کے اسلام کو پیش کریں تاکہ اسلام اور ہندستانیت میں کوئی تصادم نظر نہ آئے ۔یہ کوششیں بارآور ثابت ہوئیں اور رفتہ رفتہ اسلام کا پودا اس سرزمین میں اپنی جڑیں پھیلا کر تناور درخت بن گیا۔ صوفیوں کو یہ مسئلہ بھی در پیش تھا کہ وہ بیرونی ممالک سے آئے ہو ئے افغانوں، تورانیوں، ایرانیوں اور عربوں کے مابین فرقہ وارانہ عداوت کو ختم کرکے اسلامی وحدت کو فروغ دیں اور دشمنی اور تعصبات کو مٹائیں۔ صوفیہ اس بات کے بھی قائل تھے کہ ہندو مسلم دشمنی بلا جواز ہے اور سرکاری اسلام کے خلاف عوامی اسلام کی تشکیل ضروری ہے۔جس میں حکمران طبقے کے مفادات اور فوائد کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ صوفیہ نے یہ تمام کام نہایت احسن طریقے سے انجام دیے۔ ان کی وجہ سے پڑھے لکھے افراد اور عوام دونوں ہی کے لیے اسلام کو سمجھنا اور قبول کرنا آسان ہو گیا۔ اگر ہندستان میں صوفی مسلمان نہ ہوتے تو اس خطے میں اسلام کا مستقبل اتنا روشن نہ ہوتا،جتنا آج دکھائی دے رہاہے۔
صوفیہ کی ان خدمات کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ہندستانی مسلمانوں کے علاحدہ وجود کو پہلا خطرہ تصوف کے نام پر اور تصوف کے راستے سے ہی آیا۔ تصوف ہی نے ایک متحدہ ہندو مسلم قوم کی تشکیل کا راستہ ہموار کیا ۔اور اس فرقے کے بنیادی عقائد کو ویدانت درشن یا فلسفہ وحدت الوجود کے نام سے وضع کیا گیا۔یہ دراصل اسلام کو ہندو رنگ دینے یا ہندو مذہب کو اسلامی شکل دینے کی کوشش تھی جو اگر کامیاب ہوجاتی تو صرف ہندو مذہب اور ہندو کلچر ہی باقی رہ جاتا یا زیادہ سے زیادہ اسلام اور ہندو مذہب کا آمیزہ تیار ہوتا، جو عین ممکن تھا کہ جہالت کا مرکب بنتا اور ہندومندروں میں اسلام بھی ایک بے جان بت کی طرح نصب ہو جاتاوغیرہ وغیرہ ۔تصوف نے تزکیۂ نفس ، صلح و خیرباطن کی تربیت کے لیے تذکر و تہلیل کے توسط سے جو ایک فضا قائم کی تھی اور اسے فروغ دیا تھاکچھ لوگوں نے تصوف کے اس معروف رویے سے الگ کچھ پیش کیاجس کے خلاف صوفیۂ کرام کا ہی ایک حلقہ سرگرم ہوا ۔ ان کی جدوجہد مجموعی طور پر کامیاب بھی رہی۔ پھر بھی جزوی طور پر ایسا ہوا کہ اسلام اور ہندومت عام لوگوں میں گھل مل گئے۔ اس کی زیادہ تر ذمہ داری ان شہنشاہوں پر عائد ہوتی ہے جو اپنی حکمرانی کے لیے ہندو رعایا کو خوش کرنا چاہتے تھے اور اس قسم کے رسم و رواج یا ذہنیت کے حامی تھے۔ اس صورت حال کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسلام قبول کرنے والے اپنے ساتھ توہمات اور دیگر جاہلانہ رسومات و روایات بھی لاتے جنھیں چند دنوں میں دور نہیں کرسکتے تھے۔ اس کے لیے ایک جامع تعلیم و تربیت کا نظام درکار تھا، جو صوفیوں نے قائم کیا، لیکن جہالت کے جراثیم خود خانقاہوں تک پہنچ چکے تھے اور حقیقی اسلامی تصوف کے ساتھ ساتھ غیر اسلامی تصوف کی بھی آمیزش ہوچکی تھی۔ برصغیر میں اس کا آغاز اسماعیلی مسلک (فرقہ) کے بعض مبلغین اور قلندروں یا فقرا (سنتوں) کی وجہ سے ہوا۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ ہندوؤں کو مسلمان بنانے کے لیے اسلام کا ہندو ورژن پیش کرنا ضروری ہے۔ ان لوگوں کے دو نام تھے۔ ایک عربی اور دوسرا ہندوانہ جو عام لوگوں میں مقبول ہوتے۔ تیرہویں صدی میں وادی سندھ کے علاقے میں، اسماعیلی فرقے بانی اور پیشوا صدرالدین کو ہندو’مچھرناتھ‘ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ان کی ایک تصنیف میں تناسخ کا تصور بھی قبول کیا گیا تھا۔ یہ غیر اسلامی تصوف صرف اسماعیلیوں تک محدود نہیں رہا تھا بلکہ پوری اسلامی دنیا میں عام ہوتا جا رہا تھا اور زمانے کا فیشن بنتا جا رہا تھا۔ یہ ہر دور میں موجود رہا ہے۔
مغلیہ دورِ حکومت کے ابتدائی دورکے ایک صاحب شاہ بدیع الدین مدار ہیں۔ ان کے پیروکار بازاروں میں برہنہ گھومتے اور اپنے جسموں پر راکھ ملتے، منشیات کا استعمال کرتے اور فولادی زنجیروں سے خود کو لہو لہان کرتے۔اس قسم کی غیر اسلامی تصوف نے برصغیر پاک و ہند کے مسلم معاشرے کے جداگانہ وجود کو شدید خطرہ لاحق کر دیا۔ ایسا لگتا تھا کہ مسلمانوں کو ہندو جاہلیت کا یہ نیا روپ نگل جائے گا۔ اس منفی تصوف کو مسلم ممالک سے بھی غذا مل رہی تھی، جہاں یونانی، سریانی اور عجمی اثرات نے تصوف کے نام پر غلبہ حاصل کر لیا تھا۔ امام غزالیؒ نے اس چیلنج کو قبول کیا اور اس کا مقابلہ کیا۔ اس جدوجہد کے اچھے اثرات سامنے آئے۔ امام غزالیؒ کے کچھ عرصہ بعد ہی حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش،لاہور تشریف لائے اور سندھ اور پنجاب میں رائج اسماعیلیوں کے غیر اسلامی تصوف کے مقابلے میں امام غزالی کا اسلامی تصوف پیش کیا۔ انھوں نے اپنی تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘ میں طریقت کے لیے شریعت کی اہمیت پر زور دیا، لیکن وہ ظاہری رسومات کی پابندی کے ساتھ ساتھ داخلی اصلاح کی طرف بھی توجہ دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ ’’کشف المحجوب‘‘ میں فرماتے ہیں کہ مجھے اس شخص کی حالت پر افسوس ہوتا ہے جو دنیا میں خانہ کعبہ کی زیارت کا خواہش مند ہے لیکن اپنے دل میں خدا کی شان نہیں دیکھتا۔
دین و شریعت سے منحرف ہونے والے تصوف کی طرح، ظواہر پرست (جو ظاہری رسومات کو اہمیت دیتے تھے) فرقہ پرست اور تنگ نظر علما (اسلامی علما) بھی مسلمانوں کی مادی اور روحانی زندگی کے لیے خطرہ تھے۔ ہماری نظریاتی تاریخ میں عظیم صوفیۂ کرام نے ان کے خلاف جو جدوجہد کی ہے اس کے اثرات ہمارے قومی شعور اور لاشعور میں بہت گہری جڑیں رکھتے ہیں۔
خواجہ معین الدین چشتی نے جس انسان دوستی، محبت اور فیاضی کی تبلیغ کی وہ اسلامی تعلیمات سے کچھ بھی مختلف نہیں تھی اور مشائخ چشتی (چشتی مسلک کے پیشوا) کے سلسلہ کا فائدہ یہ ہوا کہ محبت، سخاوت اور خوشی اور امن کے خواہش مند لوگوں کو ایک ایساسلسلہ مل گیا جو شریعت سے بھی مطابقت رکھتا تھا۔ چشتی فرقے کے بزرگوں نے مقامی طرز کو اپنایا اور یہ ظاہر کیا کہ اسلام عربی یا عجمی ثقافت پر منحصر نہیں ہے۔ ہندستانی ثقافت کے سانچوں کو بھی اسلامی حقائق کو عام کرنے کی خاطر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسے ظاہر پرست کٹر علمانے شریعت کے خلاف سمجھا۔ اس تناظر میں بابا فرید الدین گنج شکر پر کفر کا الزام بھی لگایا گیا۔ لیکن جب بابا فرید کا مقدمہ حقیقی علما کے سامنے پیش کیا گیا تو انھوں نے بابا صاحب کے خلاف فتویٰ دینے سے صاف انکار کر دیا۔ ان کے جانشین نظام الدین اولیا نے ہندو تصوف کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان کو روکا۔ انھوں نے اپنی تصنیف ’فوائد الفواد‘ میں سنت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ دنیائے تصوف میں "سکر” (نشہ کوشی)یا "جذب” (مدہوشی) کی کیفیت ایک گری کیفیت ہے، اسے مناسب عمل نہیں کہا جاسکتا۔اچھا عمل’سکر‘ کا نہیں بلکہ ’محو‘ (جذب) کا ہے۔ جس میں ہوش بجا رہنے کے ساتھ ساتھ شریعت اور طریقت دونوں کے سلوک حاصل کیے جاتے ہیں۔ نیز قلندر یا مجذوب وہ لوگ ہیں جو کسی غلط کاریوں میں ملوث ہوکر آگے کی راہ بھول گئے۔
حضرت شیخ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے تصوف کے نام پر ہونے والے حملوں کو ناکام بنانے اور مسلمانوں کے تصوف کی راہوں سے الگ ہونے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے اکبر کے دین الٰہی کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ انھوں نے وحدت الوجود کے مقابلے میں ’’وحدت الشہود‘‘ کی اصطلاح استعمال کرکے مسلمانوں کے باشعور طبقے کو غلط تصوف کے گمراہ کن اثرات سے بچانے کی کوشش کی۔حقیقت یہ ہے کہ اگر ہمارے عظیم صوفی نہ ہوتے تو غلط قسم کا تصوف جو خراسان سے ملتان تک اور دکن (جنوبی ہند) سے بنگال تک پھیلا ہوا تھا، مسلمانوں کے وجود کا شیرازہ منتشر کر دیتا، لیکن ان عظیم صوفیہ کی بدولت مسلمانوں کی دینی(مذہبی) اور ثقافتی یگانگت قائم رہی۔
تصوف کی طرف مسلم دانشوروں کے رجحان میں زیادتیوں کے کچھ نقصانات بھی سامنے آئے۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ خدا سے براہ راست رابطہ رکھنے کے دعوے دار ہر گلی کوچے میں پیدا ہوگئے تھے۔ اس کے علاوہ تصوف میں شدت پسندی کا یہ نتیجہ بھی برآمد ہواکہ مسلمانوں کی قوتِ عمل پر ایک طرح کی بے حسی غالب آگئی اور مسلمانوں کی توجہ سیاست، معیشت اور دیگر دنیاوی معاملات اور علم و سائنس سے ہٹ گئی نیزیہ باور کرلیاگیا کہ مذہب خانقاہوں میں ہے اور حکومت ایوانوں،درباروں کو اس کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ان حالات میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی پہلے مسلمان صوفی تھے جنھوں نے اپنی تحریروں میں مسلمانوں کی توجہ اسلام کے معاشرتی نظام کے قیام کی طرف مبذول کرائی اور خاص طور پر معاشرے کی تشکیل میں معاشی نظام کے کردار پر گفتگو کی۔ شاہ صاحب نے مسلمانوں کی ایک اور بیماری ’’تقلید‘‘ (اندھی تقلید) کی طرف بھی اشارہ کیا اور تقلید کے برخلاف اجتہاد (قرآن و حدیث کے اصولوں کی روشنی میں مسائل کا حل) کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے فقہی اختلافات میں توازن کی راہ سجھائی اور چاروں مسالک کو ملا کر ایک نئی فقہ کی تشکیل کا نظریہ پیش کیا کہ ان میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ نیز یہ کہ وہ کوئی مخالف ومتضاد گروہ نہیں ۔بعد کے دنوں میں اس سے بھی کئی کونپلیں پھوٹیں اور شاخیں نکلیں ،جنھوں نے اسلام اور اس کی سربلندی کے لیے بڑا کام کیا۔لیکن اب ایسا محسوس ہوتاہے کہ وہ شاخیں ٹوٹ چکی ہیں۔سرسبزی و شادابی کا خاتمہ ہوگیاہے۔ہر طرف ایک عجیب بے چینی ہے۔ان حالات میں ضرورت ہے کہ ہم ماضی کی طرف لوٹیں اور اس قندیل کو روشن کریں جس کے لیے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔
٭٭٭