✍️ ابوالکلام انصاری
اسسٹنٹ ٹیچر، فیض احمد فیض اردو ہائی اسکول
مغربی بنگال
_________________
آپ ﷺ کی تمام زندگی بہترین اخلاق و عادات کا مجموعہ تھی۔جس طرح آپؐ بچپن میں اعلیٰ اوصاف، عادات و اطوار کے مالک تھے اسی طرح آپؐ اپنی جوانی میں بھی ان خصلتوں کے مالک تھے۔ سچائی، دیانتداری، وفاداری، وعدے کی پابندی، بڑوں کی عظمت، چھوٹوں سے شفقت، کمزوروں سے ہمدردی، مہربانی و سخاوت، دوسروں کی خیر خواہی، رحم دلی و نرمی الغرض تمام نیک باتوں اور اچھی عادتوں میں آپؐ بے مثل و بے مثال تھے۔جرص، فریب، جھوٹ، بد عہدی، شراب خوری، ناچ گانا، لوٹ مار، چوری، فحش گوئی وغیرہ وغیرہ جیسی بری عادتیں جو زمانہ جاہلیت میں بہت عام تھیں آپؐ کی ذات گرامی ان تمام باتوں سے پاک و صاف رہی۔بلکہ آپؐ کی شان یہ ہے کہ عرب کے اس گرے ہوئے معاشرے میں بھی آپؐ کی شرافت، امانت، دیانت اور صداقت دور دور تک مشہور تھی۔ آپؐ کی جوانی کے واقعات ان بہترین اخلاق و عادات کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں جو مندرجہ ذیل میں بیان کیے جا رہے ہیں۔
سوداگری کا کام:
سوداگری اور تجارت قریش کے شریفوں کا سب سے پسندیدہ پیشہ تھا۔آپ ؐنے بھی اپنی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اسی معزز پیشے کو اختیار فرمایا۔اللہ نے بھی مال میں برکت تجارت یعنی کاروبار میں ہی رکھا ہے۔
آپؐ کے بہترین اخلاق و عادات اس پیشے میں کامیابی کے ضامن بنے۔ہر معاملے میں سچا وعدہ فرماتے اور جو وعدہ فرماتے اس کو پورا کرتے۔ آپؐ کی تجارت کے ایک ساتھی عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں نے آپؐ سے اس زمانے میں خرید و فروخت کا ایک معاملہ کیا۔بات کچھ طے ہو چکی تھی کچھ ادھوری رہ گئی تھی۔میں نے وعدہ کیا کہ ”پھر آکر بات پوری کر لیتا ہوں“یہ کہہ کر میں چلا گیا۔ تین دن کے بعد مجھے اپنا وعدہ یاد آیا۔ دوڑ کر آیا تو دیکھا کہ آپؐ اسی جگہ بیٹھے میرے آنے کا انتظار کر رہے ہیں اور جب آیا تو بجائے آپؐ نے غصہ کرنے کے نرمی کے ساتھ اتنا ہی فرمایا کہ تم نے مجھے بڑی زحمت دی تین دن سے یہیں بیٹھا تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔
سائب ؓ نامی آپؐ کے ایک ساتھی کہتے ہیں کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان۔ آپؐ میرے تجارت میں شریک تھے مگر ہمیشہ معاملہ صاف رکھا۔نہ کبھی جھگڑا کرتے اور نہ لیپ پوت کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی اپنی جوانی میں آپؐ کے تجارت کے ساتھی ہوا کرتے تھے۔مکہ کے لوگ آپؐ کی معاملگی، دیانتداری اور ایمانداری پر اتنا بھروسہ کرتے تھے کہ بے تامل اپنا سرمایہ آپؐ کے سپرد کر دیتے تھے۔ بہت سے لوگ اپنا روپیہ پیسہ آپؐ کے پاس امانت رکھواتے تھے اور آپؐ کو امین یعنی امانت والا کہتے تھے۔
حضرت خدیجہ کے مال کے ساتھ سفر تجارت:
جب آپؐ کی عمر مبارک 25 سال ہوئی تو ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے آپؐ کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب آپؐ کی دیانت داری، حسن معاملہ اور الفائے عہد کا شہرہ دور دور تک پھیل چکا تھا۔ وہ شہرت حضرت خدیجہؓ کے کانوں تک بھی پہنچی۔ وہ مکہ کی ایک معزز اور مالدار تجارت پیشہ خاتون تھیں اور مکہ معظمہ میں اپنی نیک نامی کے باعث”طاہرہ“ کے نام سے مشہور تھیں۔ انہوں نے آپؐ کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ میرا سامان تجارت لے کر ملک شام جائیں جو معاوضہ میں دوسروں کو دیتی ہوں آپؐ کو اس کا دو گنا دوں گی۔آپ ؐنے ان کی یہ پیشکش اپنے چچا ابو طالب سے مشورہ کرنے کے بعد قبول کر لی۔حضرت خدیجہ ؓنے بہت سا سامان تجارت آپؐ کے سپرد کیا اور ایک غلام جس کا نام ’میسرہ‘تھا کو بھی رفاقت و خدمت کے لیے ساتھ کر دیا۔جب آپؐ ملک شام کے مشہور شہر ”بصریٰ“ پہنچے تو وہاں ”نسطورا“راہب کے عبادت گاہ کے قریب ایک درخت کے نیچے قیام فرمایا۔ نسطورا نے میسرہ سے فرمایا کہ سوائے نبی کے آج تک اس درخت کے نیچے کوئی نہیں اترا۔پھر اس نے میسرہ سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ میسرہ نے جواب دیا کہ یہ شہر مکہ کے بنو ہاشم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا نام”محمد“ اور لقب”امین“
ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ کیا ان کی آنکھوں میں سرخی رہتی ہے؟ میسرہ نے جواب دیا:ہاں ہے اوروہ ہر وقت رہتی ہے۔نسطورا کہنے لگا:یہی اللہ کے آخری نبی ہیں۔ مجھے ان میں وہ تمام نشانیاں نظر آرہی ہے جو توریت و زبور میں پڑھی ہیں۔ اس نے میسرہ کو نصیحت کی کہ کبھی ان سے جدا مت ہونا، ان کی خدمت کرتے رہنا،کیونکہ اللہ نے انہیں نبوت کا شرف عطا فرمایا ہے۔
آپؐ سامان تجارت بیچ کر جب مکہ پہنچے تو اس وقت حضرت بی بی خدیجہؓ اپنے مکان کی چھت پر بیٹھی ہوئی تھی۔ انہوں نے یہ منظر دیکھا کہ اللہ کے آخری نبی پر دو فرشتے دھوپ سے سایہ کیے ہوئے ہیں۔ اس منظر نے حضرت خدیجہؓ کے دل پر گہرا اثر کیا۔ اس بات کا ذکر جب انہوں نے میسرہ سے کیا تو میسرہ نے سفر تجارت کی صداقت و دیانت،حسن و سلوک و غم خواری،معاملات کو سمجھنے اور کاروباری مہارت کے روح پرور مناظر اور نسطورہ راہب کی پیشن گوئیوں کا ذکر کیا اور ساتھ ہی ساتھ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس طرح سے فرشتوں کا سایہ کرنا اس نے بھی سفر میں کئی بار محسوس کیا۔یہ سن کر حضرت خدیجہؓ کے دل میں آپؐ کے لیے عقیدت و محبت پیدا ہو گئی۔
حضرت خدیجہ ؓسے نکاح:
حضرت خدیجہؓ مکہ کی مالدار اور بہت محترم و معزز خاتون تھیں۔ آپؓ کا تعلق قبیلہ قریش کے بنو اسد بن عبدالعزی تھا۔ان کا سلسلہ نسب تین واسطوں سے آپؐ سے ملتا ہے۔ خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی آپؓ کا سلسلہ نسب ہے۔ قصی پر پہنچ کر ان کا خاندان آپؐ کے خاندان سے مل جاتا ہے۔ حضرت خدیجہ ؓ کے والد خویلد بن اسد اور والدہ فاطمہ بنت زائدہ تھیں۔آپؓ کی پیدائش 556 ء میں مکہ میں اور وفات 619 ء میں مکہ میں ہوئی۔ انہوں نے دو شادیاں کی تھی اور ان کے دونوں شوہر ابوہالہ ہند بن بناش بن تمیم اور عتیق بن عابد مخزوم انتقال کر گئے تھے۔ بڑے امیروکبیر افراد نے ان کو شادی کے پیغامات بھیجے لیکن انہوں نے تمام پیغامات کو واپس کر دیا اور یہ طے کر لیا تھا کہ اب نکاح نہیں کریں گی۔ لیکن آپؐ کے اخلاق، عادات، برکات اور حیرت انگیز واقعات سن کر ان کا دل آپؐ سے نکاح کی طرف مائل ہوا۔
حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ کو بلایا۔حضرت صفیہؓ بی بی خدیجہ ؓکے بھائی عوام بن خویلد کی بیوی تھیں۔ انہیں بلا کر ان سے آپؐ کے کچھ ذاتی حالات کے بارے میں معلومات لیں۔ پھر اپنے دل کی بات اپنی سہیلی نفیسہ بنت منبہ سے کہی اور نفیسہ نے جا کر نبیؐ کو بتائی۔آپؐ راضی ہو گئے اور اپنے چچاؤں سے اس معاملے میں بات کی۔انہوں نے حضرت خدیجہؓ کے چچا سے بات کی اور شادی کا پیغام دیا۔
595 ء میں ملک شام کے تجارتی سفر سے واپسی کے تین ماہ کے بعدآپؐ کی شادی حضرت خدیجہؓ سے ہو گئی۔ روایات کے مطابق اس وقت آپؐ کی عمر 25 سال اور حضرت خدیجہؓ کی عمر 40 سال تھی۔ اس میں آپؐ کی جانب سے شریک ہونے والوں میں جناب ابو طالب اور حضرت حمزہؓ اور حضرت خدیجہؓ کی جانب سے جناب ورقہ بن نوفل وغیرہ شامل تھے۔ خطبہ نکاح جناب ابو طالب نے پڑھا۔ آپؐ نے مہر میں 20 اونٹ دیئے۔
شادی کے بعد جس طرح ہر شخص کی زندگی کا رخ بدل جاتا ہے اسی طرح آپؐ کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا۔ اب تک آپؐ لوگوں کی بکریاں اور اونٹ اجرت پر چراتے تھے یا مکہ کے تاجروں کا مال لے کر سفر تجارت پر جاتے تھے اور اسے فروخت کرتے تھے لیکن شادی کے بعدآپؐ نے ان سب کاموں کو چھوڑ دیا اور حضرت خدیجہ ؓکی تجارت کی نگرانی کرنے لگے اور مستقل طور پر مکہ میں قیام پذیر ہو گئے۔
خانہ کعبہ کی تعمیر نو:
خانہ کعبہ کی عمارت چند وجوہات کے بنا پر کمزور ہو گئی تھی جس کی وجہ سے تعمیر نو کی نوبت آئی۔ خانہ کعبہ کے بیرونی پردوں کو بخور کی دھونی دی جاتی تھی۔ اس عمل کے دوران ایک مرتبہ ہوا کی شدت سے چنگاریوں نے پردوں میں آگ لگا دی،عمارت کافی پرانی اور کمزور ہو گئی تھی۔ تیز اور موسلادھار بارش نے عمارت کو بہت نقصان پہنچایا۔ اہل مکہ نے اس کی تعمیر نوکا فیصلہ کیا۔ آپؐ نے بھی اپنے قبیلہ کے ساتھ اس تعمیر نو میں حصہ لیا۔اس وقت آپؐ کی عمر 35 سال تھی یعنی نبوت سے پانچ سال پہلے خانہ کعبہ کی تعمیر نو کا واقعہ پیش آیا تھا۔
حجر اسود کے تنازعہ کا فیصلہ:
خانہ کعبہ کے تعمیر نو کے سارے کام خوش اسلوبی سے انجام پائے یہاں تک کہ چار دیواری بھی بلند ہو گئی۔ اس وقت حجر اسود کو اس کے مقررہ مقام پر نصب کرنے کا معاملہ سامنے آگیا۔ ہر قبیلہ اس شرف کو حاصل کرنا چاہتا تھا لہذا اس اعزاز کو حاصل کرنے کے لیے قبائل میں تنازع ہو گیا۔ اور بات خون خرابے تک پہنچ گئی۔ایک بزرگ ابو امیہ حذیفہ بن مغیرہ نے یہ مشورہ دیا کہ اس وقت جو شخص سب سے پہلے مسجد کے دروازے سے اندرآئے اسے حکم بنا دیا جائے۔ سب نے اس رائے کو قبول کر لیا۔ اتفاق سے آپؐ مسجد میں داخل ہوئے۔ آپؐ کو دیکھ کر سب بیک زبان پکار اٹھے ”یہ تو امین ہے۔ ہمیں ان کا فیصلہ منظور ہے“۔ سارا ماجرہ سن کر آپؐ نے ایک چادر منگوائی اور اس میں حجر اسود رکھا اور قبائل کے نمائندوں نے چادر کے کونے کو پکڑ کرحجر اسود کو اٹھا کر دیوار کے قریب کیا۔ اس کے بعدآپؐ نے سب کی اجازت اور ان سب کی متفقہ وکیل ہونے کی حیثیت سے پتھر کو اٹھا کر اس کی جگہ پر نصب کیا۔اس طرح آپؐ نے اپنی حکمت و ادا نشمندی سے فتنہ و فساد کے شعلے کو بجھا دیا اور سب کو مسرت وشادمانی بخشی۔
جفا کشی کی زندگی:
لفظ ”جفا کشی“جفا کش سے بنا ہے جس کے معنی محنتی، مشقت اور سختیاں برداشت کرنے والا ہوتا ہے۔آپؐ بھی بہت ہی محنتی،مشقت اور سختیاں برداشت کرنے والی شخصیت کے حامل تھے۔ وہ آرام طلبی، سستی، بزدلی وغیرہ سے بہت پرہیز کرتے تھے۔ آپؐ کے سیرت کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کی زندگی بہت ہی فعال زندگی رہی۔ آپؐ عبادت، ریاضت، دعوت(تبلیغ) اور تجارت گویا زندگی کے ہر شعبے میں بہت ہی جفا کشی سے کام لیتے تھے۔ اپنے ذمہ داریوں سے جی نہیں چراتے تھے اور محنت اور لگن سے ہر کام کو سر انجام دیتے تھے۔ زندگی کے شروعاتی دور میں مکہ میں بنو سعد اور دیگر خاندان والوں کی بکریاں چند قراط کے عوض چراتے تھے۔ پھر اپنے چچا کے تجارت کو سنبھالا اورآخر میں حضرت خدیجہ ؓکے تجارت کو سنبھال کر کے اپنی جفا کشی کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ آپؐ جس طرح معاشی سرگرمیوں میں جفاکشی کا مظاہرہ کیے ویسے ہی عبادات و دعوتی مشن میں بھی جفا کشی کا مظاہرہ کیا۔ ان کی جوانی عبادت و دعوت کا ایک بہترین نمونہ پیش کرتا ہے۔ اپنے فرض منصبی سے کوتاہی نا برتتے ہوئے پوری لگن محنت اور دیانت داری سے اپنے فرائض کو نبھاتے رہے۔
کار رسالت کے لیے تربیت:
نبوت و رسالت کا منصب اپنے ساتھ بہت بڑی ذمہ داریاں لاتا ہے لہذا جس شخص کو اللہ تعالیٰ اس منصب سے نواز نا چاہتا ہے اس کی پیدائش کے وقت سے ہی خاص تربیت فرماتا ہے۔ یہ تربیت اللہ تعالیٰ کی خصوصی نگرانی میں ہوتی ہے۔
آپؐ والد کے سایہ عاطفت سے محروم تھے۔والدہ کی محبت و شفقت بھی بھرپور نہ ملی تھی کیونکہ آپؐ کی پرورش زیادہ دنوں تک حلیمہ سعدیہ کے یہاں ہوا تھا۔دادا کی محبت و شفقت بھی پوری نہ مل پائی تھی کہ ان کا بھی انتقال ہو گیا۔اس طرح آپؐ کو بچپن ہی سے تکالیف کے برداشت کرنے کا سبق حاصل تھا جو کار نبوت کے وقت مددگار ثابت ہوتا رہا۔وہ اپنی کفالت میں اپنے بڑوں کی مدد بکریاں چرا کر اور ان کے تجارت میں حصہ لے کر کرتے رہے تھے اس طرح ان کو زندگی کی ایک اور حقیقت کسب معاش کا بھی بھرپور تعلیم مل چکا تھا۔ مختلف طرح کے تجارتی اسفار سے ان کو نبوت کے بعد دیگر اقوام سے مذاکرت میں مدد ملی۔حلف الفضول جیسے معاہدہ کی تجدید سے ان کی اس بات کی تربیت کی گئی کہ خیر کے کاموں میں شریک ہونے اور حق کی پاسداری کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔ آپؐ کو اللہ نے ان کے ماحول سے بھی خوب آگاہ کیا تھا جس میں بعد میں انہوں نے کار نبوت کو بہ حسن خوبی نبھایا۔ اس طرح آپؐ اپنی بچپن تاجوانی حق پرستی، مجاہدہ، صبر،جفاکشی کا بھرپور مظاہرہ کرتے رہے۔
روحانی ریاضت:
روحانی کا مطلب ہوتا ہے پاک،صاف مقدس اور ریاضت کا مطلب ہوتا ہے محنت، مشقت اور سختی۔ اس طرح روحانی ریاضت کا مطلب مقدس محنت و مشقت جس کا تعلق براہ راست ہمارے روح سے ہوتا ہے۔ جس محنت سے ہمیں روحانی ترقی ملتی ہے۔آپؐ کے عمر مبارک کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ مزاج میں تبدیلی آئی اور آپؐ تنہائی کی جستجو میں رہنے لگے۔ اسی جستجو میں آپؐ غار حرا پہنچے جو آپؐ کوکعبہ کے سامنے ہونے اور اس میں کامل تنہائی اور یکسوئی میسر ہونے کی وجہ سے پسندآیا لہذاآپؐ نے وہاں دین ابراہیمی کے مطابق عبادت شروع کی۔یہی آپؐ کا روحانی ریاضت تھا۔ آپؐ کئی دنوں تک غار حرا میں قیام فرماتے۔ اپنے ساتھ توشہ بھی لے جاتے۔جب توشہ ختم ہوتا تو گھر واپس آتے اور پھر ایک دو روزرہ کر کچھ دنوں کا توشہ لے کر دوبارہ غار حرا چلے جاتے اور عبادت میں مشغول ہو جاتے۔ یہ سلسلہ عرصہ تک چلتا رہا۔
غار حرا میں آپؐ کی اس عبادت و ریاضت کو”تحنث“ کا نام دیا گیا۔تحنث کے معنی عبادت کرنے اور گناہوں سے بچنے کے ہیں۔علامہ عینی کے مطابق اس کے معنی غور و فکر اور عبرت پذیری کے ہیں۔تحنث نے آپؐ کے قلب مبارک کو وحی کے حصول کے لیے سازگار بنانے میں ابتدا ئی کام کیا۔
آپؐ اصابت فکر،دور بینی اور حق پسندی کا بلند مینار تھے۔آپؐ کو حسن فراست، پختگی فکر وغیرہ و افر مقدار میں ملا ہوا تھا۔آپؐ اپنی طویل خاموشی سے مسلسل غور و خوزض،دائمی تفکیراور حق کی کرید میں مدد لیتے تھے۔آپؐ اپنی شاداب عقل اور روشن فطرت سے زندگی کے صحیفے، لوگوں کے معاملات اور جماعتوں کے احوال کا مطالعہ کیا اور جن خرافات میں لوگ مبتلا تھے ان سے سخت بیزاری کا اظہار کیا۔ لوگوں کے جو کام اچھے ہوتے اس میں آپؐ شرکت فرماتے ورنہ اپنی مقررہ تنہائی کی طرف لوٹ جاتے۔ آپؐ نے شراب کو کبھی منہ نہیں لگایا، آستانوں کا ذبیجہ نہ کھایا اور بتوں کے لیے منائے جانے والے تہوار وں، میلوں اور ٹھیلوں میں کبھی شرکت نہیں کی۔ باطل معبودوں سے آپؐ کو سخت نفرت تھی یہاں تک کہ لات و عزی کی قسم کھانا بھی آپؐ کو گوارا نہ تھا۔ یہ تھی آپؐ کی سبق آموز جوانی کے واقعات جس سے آج کے نوجوانوں کو سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
آپﷺکی جوانی سے ہمیں بہ سبق ملتا ہے کہ ہم گناہوں سے اجتناب کریں، لہو و لعب سے پرہیز کریں، مقاصد زندگی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اعمال کریں، خرافات سے بچیں، جفاکشی اختیار کریں، آرام طلبی سے اجتناب کریں، دعوت دین اور حلال کسبِ معاش کے حصول میں اپنے آ کو مصروف رکھیں تا کہ دنیا و آخرت کی بھلائیاں حاصل کرسکیں اور دونو ں جہاں میں کامیاب ہو سکیں۔ عصرِ حاضر کے ملت کے نوجوانوں کو آپؐ کی سبق آموز جوانی سے نصیحت حاصل کرنے کی ضروت ہے تا کہ امت ذلت و خواری، پستی و نا کامیوں سے نجات حاصل کر کے دنیا کی دیگر اقوام کی رہنمائی و قیادت کر سکیں۔