✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
_____________________
سماج میں بڑھتی ہوئی فحاشی کے وجوہات میں ایک لڑکی کی شادی میں تاخیر بھی ہے، یہ تاخیر کبھی تو تلک جہیز کی لعنت کی وجہ سے ہوتی ہے، باپ، ماں گارجین اور ولی غریب ہیں، وہ لڑکوں کے مطالبہ کو پورا نہیں کر پاتے، اس لیے مناسب لڑکے کی تلاش دشوار ہوجاتی ہے اور جو ڑا نہیں ملنے کی وجہ سے کبھی کبھی تو شادی کی عمر نکل جاتی ہے، دوسرا سبب لڑکی کی اعلیٰ تعلیم کی خواہش اور اپنا کیریر بنانے کی دُھن ہے، جس کی وجہ سے عمر بڑھتی چلی جاتی ہے اور جب تک وہ اپنا کیریر بنائیں اور تعلیم مکمل کریں اس وقت تک بالوں میں چاندی جھلکنے لگتی ہے اور بڑھتی عمر کے سایے جسم پر دراز ہوجاتے ہیں، چناچہ جب وہ شادی کرنا چاہتی ہیں توبڑی عمر کی وجہ سے کوئی رشتہ نہیں ملتا اور ازدواجی زندگی گذارنے کا خیال محال ہوجاتا ہے، اور اگر رشتہ ہو بھی گیا تو ان کے ماں بننے کی صلاحیت مفقود ہوجاتی ہے۔
دنیا کے ساٹھ ملکوں میں لڑکیاں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں مردوں سے بہتر ہیں، صورت حال یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکے نہیں مل رہے ہیں، کم پڑھے لکھے لڑکوں سے رشتہ کرنا ان کی نظر میں بے میل ہوتا ہے، انہیں اپنے لیے قابل خاوند کی تلاش ہوتی ہے، اور وہ مل نہیں پاتے، اس کا حل مغرب نے یہ نکالا ہے کہ بیضۂ اُنْثیٰ کو عورت کے جسم سے نکال کر فِرج کر دیا جائے، اسے میڈیکل کی اصطلاح میں ’’ایگ فِرج‘‘ کرنا کہتے ہیں، ایگ فرج ہونے کے بعد اس کی مادۂ منویہ سے ملنے کے بعد تولیدی صلاحیت باقی رہتی ہے، مغرب میں عورتیں کثرت سے اس کام کو کراکر اپنی تولیدی صلاحیت بچانے کے کوشش کرتی ہیں؛ تاکہ جس عمر میں بھی مناسب مرد مل جائے وہ اپنی فطری خواہش توالد وتناسل کی پوری کر سکیں۔
امریکہ کی ایک سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ پانچ سالوں میں بیضۂ انثیٰ کو فرج کرانے والی عورتوں کی تعداد میں ڈیڑھ سو فی صد کا اضافہ ہوا ہے، ڈاکٹر نکو لونویس کہتے ہیں کہ گزشتہ دو دہائی میں عورتوں کی سوچ بدلی ہے، پہلے ’’ایگ فِرج‘‘ کرانے کے لئے عورتیں بڑی عمر میں آتی تھیں، ان کی عمر کم از کم چالیس کے آس پاس ہوا کرتی تھی، اب بیس پچیس برس کی لڑکیاں بھی ’’ایگ فرج‘‘ کرانے کے لیے آ رہی ہیں، حالاں کہ یہ عمل سستا نہیں ہے، اس میں سولہ سے بیس لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں، لیکن عورتیں معاشی اعتبار سے اس قدر مضبوط ہوتی ہیں کہ و ہ اس خرچ کو بغیر گارجین کی مدد کے بھی اٹھا لیتی ہیں، عورتوں کے ’’ایگ فرج‘‘ کرانے کی بڑھتی خواہش کو دیکھ کر امریکہ میں کئی کمپنیاں خود ہی یہ سہولت فراہم کرتی ہیں تاکہ عورتیں شوہر اور بچوں کے جھنجھٹ سے بچ کر ان کی کمپنی کو دیر تک اپنی خدمات دے سکیں۔
ہندوستان میں بھی خواتین میں اعلیٰ تعلیم کے حصول اور کیریر بنانے کی دھن روز افزوں ترقی پر ہے، خواتین اپنے شوہر کی دست نگر ہوکر نہیں رہنا چاہتی ہیں، یقینا اعلیٰ تعلیم کا حصول اچھی بات ہے، لیکن اپنی فطری خواہشوں کو دبا کر اس میدان میں آگے بڑھنا بہت سارے مفاسد کو جنم دیتا ہے، ہندوستان میں ایسی لڑکیوں کی شادی نہیں ہو پاتی ہے جن کی عمر توالد وتناسل کی ختم ہو گئی ہو، ہندوستان میں ’’ایگ فرج‘‘ کی سہولتیں بھی برائے نام دستیاب ہیں، اور اگر دستیاب ہوں بھی تو یہ غیر فطری عمل ہے، جس کے مضرات ومفاسد سے انکار نہیں کیا جا سکتا، ایسے میں ضرورت ہے کہ اعتدال اور توازن جو اسلام کا بنیادی اصول ہے اسے سامنے رکھا جائے اور شادی میں غیر معمولی تاخیر نہ کی جائے، کیوں کہ شادی کا ایک بڑا مقصد توالد وتناسل بھی ہے، اگر اس کی عمر ختم ہو گئی تو مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔