Slide
Slide
Slide

دوران حج حاجیوں کا انتقال

✍️ مفتی ناصرالدین مظاہری

__________________

امسال 2024میں حج بیت اللہ کے دوران تقریبا ایک ہزار حجاج کرام کی وفات منی، عرفات اور مزدلفہ میں ہوگئی، ان اموات پر دنیا بھر میں کہرام مچ گیا، ہاہا کار مچ گئی، میڈیا نے اس مدعے کو سر پر اٹھالیا، لوگ قصور کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے، اپنے اپنے فہم کے مطابق لوگوں نے بیانات دئے، مضامین لکھے، بہتوں نے دل کی بھڑاس نکالی، بعضوں نے اس کو الگ ہی رنگ دینا چاہا۔

آپ سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کیجیے اور اپنے شہر ومقام کی روزمرہ اموات کے تناظر میں ناپنے اور شمار کرنے کی تکلیف اٹھائیے۔ فرض کیجیے آپ کے شہر میں کل تعداد پچیس لاکھ ہے، پچیس لاکھ کے اس شہر میں سیکڑوں قبرستان ہوں گے، کئی درجن شمشان گھاٹ ہوں گے، بے شمار ہاسپٹل اور ڈاکٹرس ہوں گے، مختلف بنیادی سہولیات اور ہر مرض کی ادویات ہوں گی۔ ان سب آسانیوں کے باوجود آپ وہاں کی جملہ اموات کے اعداد وشمار یکجا کیجیے تو یقین جانئے حج 2024 کے دوران ہونے والی اموات اور آپ کے مقامی شہر کی اموات میں کوئی خاص فرق نہیں ہوگا، اب ایک اور پہلو پر سوچئے!حج کے لئے جانے والے اکثر لوگ عمر رسیدہ ہوتے ہیں، ناخواندہ یا کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، ننانوے فیصد لوگ عربی زبان اور عربی ہدایات سے ناواقف ہوتے ہیں، قدم قدم پر لگی ہدایات اور وقفہ وقفہ سے نشر ہونے والے اعلانات سے غافل ہوتے ہیں، ایک بے ترتیب بھیڑ ہوتی ہے، ہر رنگ، ہر مزاج، ہر ملک کے افراد ایک جگہ ہوتے ہیں، تپش اور دھوپ کی شدت ہوتی ہے، زمین تپ رہی ہوتی ہے، بیس پچیس لاکھ کا ہجوم کہیں بھی ہوجائے وہاں اشیاء خوردونوش ختم ہوجائیں گی، ڈسپلن اور ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑ جائیں گی، نفسی نفسی کا عالم ہوجائے گا، کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہوگا حتی کہ موبائل پر کال کرنا مشکل ہوجائے گا کیونکہ ایک موبائل ٹاور سے ایک ہی وقت میں دو ہزار کال ہوسکتی ہیں سوچیں بچیس لاکھ لوگوں کو کیا دقتیں پیش آسکتی ہیں۔ اتنی بڑی اور اتنی رنگا رنگ بھیڑ کو کنٹرول کرنے کا ہنر اور تجربہ دنیا بھر میں صرف خدام الحرمین الشریفین کو حاصل ہے، وہ ہماری بے اعتدالیوں کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں، ہماری جلد بازیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوتے ہیں، ہماری "چالاکیاں” ہمارے گلے کا ہار اور ہمارے رفقاء کے لیے "سنگھار” بن جاتی ہیں۔

جب سے موبائل کی آمد ہوئی ہے ہر چھوٹا بڑا واقعہ منٹوں سیکنڈوں میں دنیا بھر میں پھیل جاتا ہے ، لوگ بھی بے کار وبے گار بیٹھے ہیں جو بڑی ذمہ داری کے ساتھ منفی باتیں پھیلانے کی "خدمت” انجام دیتے ہیں۔

ارض مقدس میں اتنی بھیڑ، اتنی تپش اور اتنی ہدایات کی خلاف ورزیوں کے بعد اگر کچھ اموات ہوگئی ہیں تو اس میں قصور نکالنے کی جگہ ہمیں خوش ہونا چاہئے کہ ہماری روح نکلی کہاں ہے، حاجی اور معتمر کو دفن ہونے کے لئے جگہ کتنی بابرکت ملی ہے، پھر سوچئے مرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ مصریوں کی ہے اور سب سے کم اپنے انڈین اور پڑوسی ملک پاکستانیوں کی ہے، جو لوگ وہاں بار بار جاچکے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ مصری، حبشی اور سوڈانی ویسے بھی ڈسپلن شکنی میں جری ہوتے ہیں۔

پھر موت کا ایک وقت مقرر ہے، جب وقت آجائے گا دنیا بھر کی مشینیں روک نہیں سکتی ہیں، اذا جاء اجلہم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون۔ اور جس حالت میں موت مقدر ہے اسی حالت میں آئے گی آپ کسی بھی محل، قلعہ، مکان میں چھپ جائیں اینما تکونوا یدرککم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدۃ۔ کسی کو بھی موت سے رستگاری نہیں ہے کل نفس ذائقۃ الموت۔ ہر چیز پر فنائیت طاری ہونی ہے کل من علیہا فان۔

تو اتنا واویلا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، حج وعمرہ کی دعا میں ایک جملہ ہے کہ "یسرہا لی” یعنی اس کو میرے لئے آسان کر دیجیے، گویا یہ واقعی مشکل ترین مرحلہ ہے اس مرحلہ میں قدم قدم پر پریشانیاں ہیں ہمیں اپنے رب سے ان ہی پریشانیوں سے محفوظ ومامون رہنے کی دعا کرنی چاہیے۔ اور کسی کا قصور نکالنے کے بجائے الھی نظام اور تقدیر پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔

علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ دوران حج کسی کا انتقال ہوجائے تو وہ شہادت ہوگی یا نہیں؟ بظاہر یہی ہے کہ وہ شہادت نہیں ہے لیکن اس پہلو پر ضرور دھیان دیجیے کہ اللہ تعالی کے ایک فرض کی ادائیگی کے لئے جانے والا بندہ حالت احرام میں، ارض حرم میں فوت ہوا ہے جو کل قیامت کے دن حالت احرام میں ہی تلبیہ پڑھتا ہوا اٹھایا جائے گا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَمَنْ يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الأَرْضِ مُرَاغَماً كَثِيراً وَسَعَةً وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِراً إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ)  (النساء)

حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ”جو اس سمت حج یا عمرہ کرنے نکلا پھرراستے میں ہی مرگیاتواس سے کوئی سوال نہ کیاجائے گا اورنہ ہی اس کا حساب ہوگا اور اس سے کہاجائے گا کہ جنت میں داخل ہوجا۔”

حضرتِ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے فرمایا، ”جو حج کے لئے مکہ کے راستے میں آتے یا جاتے ہوئے مرگیا اس سے نہ تو کوئی سوال ہوگا اور نہ ہی اس سے حساب لیاجائے گا اور اس کی مغفرت کردی جائے گی ۔” ( الترغیب والترہیب)

ان ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ  علیہ وسلّم نے فرمایا، ”یہ گھر اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے تو جس نے اس گھر کا حج یا عمرہ کیا وہ اللہ عزوجل کی ضمانت میں ہے اگر مرجائے تو اسے جنت میں داخل فرمائے گا اور اگر اپنے گھر کی طرف واپس ہو تو ثواب وغنیمت لے کر لوٹے گا۔”(مجمع الزوائد)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک شخص آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلّم کے ساتھ کھڑا تھا کہ اچانک سواری سے گر کراس کی گردن ٹوٹ گئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،” اسے پانی اوربیری کے پتوں کے ساتھ غسل دو اوراسے انہی کپڑوں میں کفناؤ اور اس کے سر کومت ڈھانپواور خوشبو نہ لگاؤ کیونکہ یہ قیامت کے دن تلبیہ پڑھتاہوا اُٹھے گا۔”

حضرتِ ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا”جو حج کے ارادے سے نکلے اور مرجائے اس کے لئے قیامت تک حج کرنے والے کا ثواب لکھا جاتا رہے گا اور جو عمرہ کے ارادہ سے نکلا اور مرگیا اس کے لئے قیامت تک کے لئے عمرہ کرنے والے کاثواب لکھا جاتا رہے گااور جو جہاد کے ارادے سے نکلا پھر مر گیا تو اس کے لئے قیامت تک جہاد کرنے والے کاثواب لکھا جاتا رہے گا۔

بہرحال اتنے فضائل کے باوجود ہمیں فضول کی بحثوں میں الجھنے کے بجائے ہمیں اسلامی تعلیم پر توجہ مرکوز رکھنی چاہئے۔

آج کا حج اپنی آسانیوں، سہولتوں اور فراوانیوں کے باعث پہلوں کے حج جیسا ہوہی نہیں سکتا، عرفات، مزدلفہ، منی ہر جگہ حکومت نے ہر ممکن راحت رسانی کے اسباب پیدا کر رکھے ہیں اور ہم اپنی کم علمی و کم عقلی کے باعث ان آسانیوں کے سدباب کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ہمیں ہر ممکن طور پر حکومت کی ہدایات اور ضابطہ کا پابند رہنا چاہئے تب ہی آسانی ہوگی ورنہ ڈسپلن شکنی پر وہ اگر ہمارے راستے بند کردیں، الگ کردیں یا کچھ اور کردیں تو اتنے بڑے نظام کو کنٹرول کرنے میں حکومت حق بجانب ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: