Slide
Slide
Slide

نفرت فساد کو  اور محبت امن کو جنم دیتی ہے

آفتاب رشک مصباحی

بہار یونیورسٹی مظفرپور۔ بہار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسانی سماج کی ہمہ جہت ترقی کے لیے لازمی ہے کہ پورا معاشرہ پر امن ، بقائے باہم کے تحت زندگی گزار رہا ہو۔ لوگ ایک دوسرے کے خیر خواہ اور مددگار ہوں۔ ایک دوسرے کے سکھ دکھ کے ساتھی ہوں۔ ان میں اگر کوئی بیمار ہو جائے تو لوگ ان کی عیادت کے ساتھ علاج کا مناسب بند و بست کریں۔ کوئی پریشاں حال ہوتو اس کی پریشانی دور کی جائے، بھوکے کو کھانا کھلایا جائے، پیاسے کو پانی پلایا جائے، ننگے کا بدن ڈھانکا جائے، ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کی جائیں۔ ہر ایک سے محبت سے پیش اایا جائے۔ مسکرا کر ملا جائے۔ کسی کے لیے دل میں نفرت نہ ہو، کدورت نہ ہو۔ سب آپس میں مل جل کر ہنسی خوشی ایک دوسرے کا سہارا بن کر زندگی گزاریں۔ یہی ایک پر امن معاشرے کی پہچان ہے اور اسی سے معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ اگر انسانی سماج ان اوصاف کے برخلاف نفرت میں جینے لگے، ایک دوسرے سے کوئی لگاؤ نہ رکھے، کسی سے کسی کو کوئی سر و کار نہ ہو تو ایسا معاشرہ ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہو جاتا ہے۔
ہم جس ملک ’’ بھارت‘‘ میں ہیں اس کیعالمی شناخت ہی یہاں کی گنگا جمنی تہذیب رہی ہے۔ یعنی تمام تر اختلاف مذاہب کے باوجود سب کا آپس میں مل جل کر محبت کے ساتھ زندگی گزارنا۔ یہاں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، بودھ، جین ، پارسی اور دیگر مذاہب کے پیروکار زندگی گزارتے ہیں ، کار و بار اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں مذہبی اعتبار سے سب ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ لیکن سماجی اور آپسی زندگی گزارنے کے معاملے میں سبھی ایک دوسرے کا خاصہ خیال رکھتے ہیں اور ہر موڑ پر ایک دوسرے کی خدمت کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ یہی بھارت کی خوب صورتی اور پہچان ہے۔ صدیوں سے یہ ملک اسی نہج پر آگے بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ وقتا فوقتا اہل سیاست اِس محمود فضا کو گدلا کرنے اور آپس میں کبھی مذہب، کبھی ذات پات تو کبھی کسی اور نام پر لڑانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں ، مگر لائق مبارک باد ہیں یہاں کے باشندے جو اس طرح کے صاحب اقتدار حضرات کی سیاست کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور دوٹوک انداز میں اُن کے کہے گئے الفاظ کو اَن سُنا کر کے آپس میں نفرت کو پنپنے نہیں دیتے۔ چناں چہ انگریزوں نے جب بھارت پر قبضہ جمانے ہوئے یہاں کے ہندو مسلم کو آپس میں لڑانے کے لیے مذہب کا استعمال کیا تو سارے ہندو ٔں اور مسلمانوں نے مل کر انگریزوں کی سازشوں کو ناکام کیا اور اپنے ملک میں نفرت کی راہ ہموار نہیں ہونے دی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندؤں اور مسلمانوں کے اتحاد کے آگے انگریزوں کو مات کھانی پڑی اور ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ یہ کامیابی اہل ہند کو صرف ان کی آپسی محبت اور اتحاد کی وجہ سے ملی۔ اگر وہ انگریزوں کی سازش کے شکار ہو جاتے اور ایک دوسرے سے نفرت میں مبتلا ہو جاتے تو یہ ملک کبھی بھی ان کی غلامی سے آزاد نہیں ہو پاتا۔ آپسی محبت کو بنائے رکھنا اور نفرت سے دور و نفور رہنے کا یہ سبق جس طرح ماضی نے ہمارے اسلاف نے یاد رکھا اگر ہم اپنے ملک عزیز بھارت کو نئی اونچائیوں تک لے جانا چاہتے ہیں اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں اسے اعلی مقام دلانا چاہتے ہیں تو وہ سبق ہمیں از سر نو یاد کرنا ہوگا جو کہیں کہیں سے ہم بھول سے گئے ہیں۔
سیاست اور اہل سیاست کا کام رعایہ کو جوڑ کر رکھنا اور ان کی تمام تر ضروریات کی تکمیل ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی ملک میں یا کسی ریاست میں اگر کوئی کتا بھی پیاسا مر رہا ہو تو اس کا ذمہ دار سربراہ ملک و ریاست ہوتا ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان یہ ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے جسے پورا کرنا ہر ملک کا اور ہر ریاست کا ملکی اور ریاستی دھرم ہوتا ہے۔ اسی کو راج دھرم بھی کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی سربراہ مملکت ان ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتا ہے تو وہ راج دھرم کی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنے والا ہوتا ہے۔ ایسے میں سربراہ مملکت پر لازم ہے کہ وہ اپنے ملک میں بسنے والے ہر فرد بشر کی بنیادی ضروریات کا انتضام کرے اور اگر عوام کو ان سب بنیادی سہولیات میں کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا ہو تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان رکاوٹوں کو دور کر کے عوام کو ان سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرے۔ جو بھی ملک اپنے عوام کی بنیادی ضرورتوں کا خیال رلکھتا ہے وہ ہمہ جہت ترقی کرتا ہے۔ اور جو ان سے غفلت برتتا ہے وہ ترقی کی بجائے تنزلی کی راہ پر چل پرتا ہے۔ دنیا بھر میں ہمارے ملک عزیز بھارت کی ایک شناخت یہ بھی رہی ہے کہ یہاں کی حکومتیں اپنے عوام کا خاص خیال رکھتی ہیں اور ہر ممکن سطح پر انھیں بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں لگی رہتی ہیں۔ مگر اِدھر کچھ لوگ بھارت کی گنگا جمنی تہذیب کو گدلا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اب لوگوں کو مذہب، مسلک، ذات برادری، پیشہ اور طرز زندگی کے اعتبار سے ایک دوسرے سے الگ کرنے اور ان کے بیچ نفرت کی فضاہموار کرنے کی لا حاصل کوشش کر رہے ہیں۔ ایسی ہی کوششوں میں حالیہ یوپی اور اتراکھنڈ حکومت کے ذریعہ کاوڑیوں کے راستے میں پڑنے والے تمام طرح کی دوکانوں پر مالکان کا نام لکھنے کا حکم نامہ ہے ، جس پر پولیس اہل کاروں نے کام شروع بھی کر دیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے وقتی طور پر عبوری روک لگا دی ہے۔ اگرچہ کچھ لوگوں کو اس نفرتی حکم نامہ سے مزہ آیا ہوگا اور وہ اسے بڑے پیمانے پر نفرتوں کو بڑھاوا دینے کے لیے استعمال کرنا چاہ رہے ہوں گے ۔ مگر اہل ہند کی اکثریت سے ہمیں یہ امید ضرور ہے کہ وہ اس طرح کے نفرتی ماحول کو نہ خود پسند کرتے ہیں اور نہ ان جھمیلوں میں خود کو ملوث کرنا اچھا گردانتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ یہاں کی اکثریت ابھی بھی اس طرح کے اقدامات کو دل سے برا ضورو جانتی ہے۔ بلکہ بہت سے لوگ تو کھل کر اس طرح کے حکم نامہ کی تنقید بھی کرتے ہیں جیسا کہ لوگوں نے تنقید بھی کی اور خوب کی۔
تاریخ شاہد ہے کہ جب جب اہل سیاست نے اپنے کسی منصوبے کے تحت عوام کو آپس میں لڑانے اور ان کے بیچ نفرت کی فضا ہموار کرنے کی کوشش کی ہے عوام نے ان کا ساتھ نہیں دیا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے بھارت میں جو نفرت کی فضا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے عوام نے خود کو بڑی حد تک اس سے دور رکھا ہوا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ نفرت سے ان کا نہ پیٹ چلنے والا ہے نہ ملک خوش حال ہونے والا ہے۔ ان کا پیٹ بھی محبت سے چلےگا اور یہ ملک بھی محبت کے کاندھوں پر ہی آگے بڑھےگا۔ کیوں کہ نفرتیں فساد کو جنم دیتی ہیں جن سے بدامنی، بے سکونی اور اضطراب و انتشار کی فضا بنتی ہے۔ جب کہ محبت سکون، امن اور آپسی بھائی چارے کو فروغ دیتی ہے۔ ہم محبت کے پجاری ہیں، ہمارا کام محبت ہے، خدمت ہے ، آپسی بھائی چارہ کو بنائے رکھنا ہے۔ اہل سیاست و اقتدار چاہے ہمیں جس نام پر تقسیم کریں ، چاہے ہمارے بیچ نفرتوں کی جتنی اونچی یا جتنی مضبوط دیوار کھڑی کریں ، لیکن ہم اہل ہند یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم نفرتوں کے شکار نہیں ہوں گے اور نہ اہل سیاست و اقتدار کو نفرتی فضا ہموار کرنے میں کامیاب ہونے دیں گے، کیوں کہ یہی ہمارے ملک کی خوب صورتی ہے اور یہی ہماری ملکی اور عالمی پہچان بھی ہے۔ اور یہ کہ ہم فساد کے نہیں امن کے داعی ہیں۔ہمیں افتراق و انتشار نہیں – امن و سکون اور اتحاد چاہیے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: