"متاع لوح وقلم” ایک مطالعہ
تبصرہ نگار
ڈاکٹر مفتی محمد اعظم ندوی
استاذ: المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد
__________________
نام کتاب : متاعِ لوح وقلم
مؤلف : مولانا محمد انصار اللہ قاسمی
طبع اول : ۲۰۱۶ء
صفحات : ۳۷۵
ناشر : دار الثقافہ، حیدرآباد
قیمت : ۲۵۰
ملنے کا پتہ: دفتر مجلس تحفظ ختم نبوت ٹرسٹ تلنگانہ وآندھرا پردیش، برائے رابطہ: 9985030527
__________________
شہر حیدرآباد کے مشہور عالم دین اور قلم کارفاضل گرامی قدر مولانا انصار اللہ قاسمی صاحب کی تصنیف "متاع لوح وقلم” ایک اہم اور معیاری علمی مجموعہ ہے، جس میں دینی وفکری اور اصلاحی مضامین شامل ہیں، یہ کتاب اپنے موضوعات کے تنوع اور اسلوب کی متانت کی بدولت قارئین کے لیے ایک قیمتی اثاثہ کی حیثیت رکھتی ہے، یہ کتاب ۲۰۱۶ء می ںشائع ہوئی تھی، اور اہل علم میں اس کی کافی پذیرائی بھی ہوئی، لیکن عام اردو قارئین کے لیے اس کے رخ زیبا سے نقاب اٹھنا باقی ہے، یہ کتاب ۳۷۵ صفحات پر مشتمل ہے، عمدہ کاغذ پر ٹائپ شدہ ہے، کتاب پیپر بیک یعنی غیر مجلد ہے، ہارڈ بیک یعنی مجلد نہیں، اس میں۵۹ موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے، جن کو درج ذیل۶ ذیلی ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے:
(۱) پروردگارکے دربار میں(۲)سرمایۂ ایمان ونجات (۳)حالات حاضرہ واصلاح معاشرہ (۴)نشان منزل(۵)احتساب وجائزہ(۶)پیام مسرت ونصیحت۔
کتاب فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کے وقیع مقدمہ اور ممتاز عالم دین مولانا احمد عبد المجیب قاسمی ندوی صاحب(ناظم دارالعلوم سیاٹل امریکہ) کے پیش لفظ سے مزین ہے، کتاب کا نام فیض احمد فیض کی مشہور غزل کے مطلع سے مستعار لیا گیا ہے، جو اس طرح ہے:
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
یہ پوری غزل فہرست مضامین سے قبل کتاب میں بھی نقل کی گئی ہے، بعینہ اسی نام سے فیض کا ایک مجموعۂ شعر ونثر بھی موجود ہے، اور بھی متعدد مصنفین نے اپنی کتابوں کے لیے یہ نام منتخب کیا ہے، اور یہ علمی دنیا میں کوئی قابل تنقید مسئلہ نہیں، لوح وقلم کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں ہر طرح کے مشمولات آجاتے ہیں، زیادہ تر یہ نام خالص ادبی کتابوں کے لیےچنے گئے ہیں، جب کہ زیر نظر کتاب قدرے مختلف ہے، اس کا فکری واصلاحی رنگ دوسرے رنگوں پر غالب ہے، کتاب کی انفرادیت ہی دفاع دین اور اسلام کی فکری سرحدوں کے تحفظ کی کوشش ہے، پروف ریڈنگ کی غلطیاں خصوصاً اشعار میں کہیں کہیں درآئی ہیں، امید کہ آئندہ ایڈیشن میں ان کی اصلاح کرلی جائے گی۔
مؤلف کتاب کے مختصر تعارف کی بات کی جائے تو ان کی ابتدائی دینی تعلیم، حفظ قرآن کریم اور ششم عربی تک کی تعلیم دار العلوم سبیل السلام بارکس حیدرآباد میں ہوئی، دار العلوم دیوبند میں انہوں نے ہفتم عربی اور دورۂ حدیث کے دو سال مکمل کرکے وہیں سے سند فراغت حاصل کی، اس کے بعد المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد سے تخصص فی الدعوہ کا کورس مکمل کیا،یہیں سے دعوتی ذہن تشکیل پایا، اور اصلاح عقائد کا داعیہ پیدا ہوا؛ چنانچہ گمراہ کن تحریکات ونظریات کے سرگرم تعاقب، اور دعوت واصلاح کے عظیم کاموں کوانہوں نے اپنااوڑھنا بچھونا بنالیا، عوام الناس کو صحیح اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے اور ان کے درمیان موجود غلط فہمیوں اور بدعات وخرافات کے ازالہ کے میدانوں میں مولانا کی کاوشیں کئی محاذ پر نظر آتی ہیں، جن میں اصلاحی دورے، خطبات ومواعظ، درس و تدریس اور قلمی کاوشیں سرفہرست ہیں، انہوں نے مختلف رسائل تحریر کیے ہیں جن میں بنیادی اسلامی عقائد کی وضاحت کی گئی ہے، اور فرق باطلہ کا رد کیا گیاہے،وہ خصوصاً عقیدۂ ختم نبوت کے دفاع اور رد قادیانیت کے سلسلہ میں قابل قدر خدمات انجام دے رہے ہیں، اس موضوع پرانہوں نے مدلل انداز میں مخالفین کے نظریات کا علمی و منطقی ردبھی کیاہے، اور یہی ان کا طرۂ امتیاز ہے،آپ کی نگارشات الجمعیۃ، سہ روزہ دعوت، روزنامہ منصف کے جمعہ ایڈیشن ’مینارۂ نور‘ اورادارہ اشرف العلوم حیدرآباد کے آرگن اشرف الجرائد وغیرہ دیگر اخبارات ورسائل میں شائع ہوتی رہی ہیں، مجلس علمیہ تلنگانہ وآندھرا پردیش کے ترجمان "ماہنامہ ضیائے علم” میں گوشۂ ختم نبوت کے عنوان سے مستقل کالم کی ترتیب آپ کے ہی ذمہ رہی ہے، اس میں بھی آپ کے رشحات قلم کے بہترین نمونے سامنے آچکے ہیں، وہ مجلس تحفظ ختم نبوت ٹرسٹ تلنگانہ وآندھراپردیش کے آرگنائزر ہیں، ایک مدت سے فضلاء مدارس کے درمیان المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد میں رد قادیانیت اور رد عیسائیت جیسے موضوعات پر درس وتدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں، دیگر اداروں میں بھی ان موضوعات پر تخصصات کے طلبہ کی تعلیم وتربیت کا تجربہ رکھتے ہیں، ان کی مشہور کتابیں اور رسائل اس طرح ہیں:
(۱) ختم نبوت چہل حدیث(۲) مرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہونچے، قادیانیوں کے لیے دعوتی رسالہ (۳) شکیل بن حنیف کے اعتراضات کی حقیقت (۴)حضرت عائشہؓپر قادیانی فرقہ کا بہتان(۵) علاج کے نام پر ایمان سے محروم کرنے والا فتنۂ فیاض،(۶)زیر تبصرہ کتاب متاع لوح وقلم، جومولانا کی علمی خدمات کا بہترین مظہر ہے۔
راقم الحروف کو مولانا قاسمی سے ایک دہائی سے زیادہ کی رفاقت حاصل رہی ہے، وہ ایک منکسرالمزاج، بامقصد، وضع دار اور قابل احترام عالم دین ہیں، ان میں خوش اخلاقی اور سادگی ہے، ان کے ساتھ بیٹھ کر ہم چاہ کر بھی کوئی منفی یا نتیجہ کے اعتبار سے بہ ظاہر کم قیمت تبصرہ کرنے کو معیوب سمجھتے ہیں، وہ ہمیشہ کمال حکمت سے بحث کا رخ کسی مثبت اور معیاری موضوع کی جانب لے جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، اور ملاقات کے بعد یہ احساس تازہ رہتا ہے کہ خلش اور خلل کے بغیر ہمیں کسی درست بیانیہ پر غور کرنے میں لطف آرہا ہے، ان کے علمی انہماک اور عملی ثبات واستقلال کی مثالیں ان کے رفقاء اور تلامذہ بھی پیش کرتے ہیں۔
مضامین کا یہ زیر نظر مجموعہ "متاع لوح وقلم” مولانا کی فکری اور علمی بصیرت کا آئینہ دار ہے، اس مجموعہ میں انہوں نے مختلف موضوعات پر روشنی ڈالی ہیں، یہ ایک جامع اور مفید تصنیف ہے، یہ کتاب واقعی ایک متاع ہے جس سے قارئین کو اپنے درد ِدل کی دوا مل سکتی ہے، اور اپنے اندر ایک دور رس مثبت تبدیلی لانے میں ان کے لیے مددگار ثابت ہوسکتی ہے، مولانا قاسمی کی ان تحریروں میں زیر بحث موضوعات کو نہایت خوبصورتی اور سلیقہ مندی سے پیش کیا گیا ہے، جن میں قرآن و حدیث کے مستند حوالہ جات اور علماء کرام کے اقوال وآرا بھی شامل ہیں، اس کتاب میں مؤلف نے مختلف معاصر موضوعات پر ایک باخبر، بصیرت مند اور دور اندیش قلم کار کا کردار نبھایا ہے، نظر اور نظریہ دونوں قابل داد ہیں، یہ مضامین اسلامی تعلیمات، اخلاقیات، معاشرتی مسائل، اصلاحی نکات اور فکری موضوعات پر مشتمل ہیں، مصنف نے اپنی گہرے مطالعہ اور تجربات کی روشنی میں نہایت سلیس اور آسان زبان میں ان موضوعات کو پیش کیا ہے، تاکہ عام قارئین بھی ان سے بھرپور استفادہ کر سکیں، لیکن زبان وبیان کی شستگی و شگفتگی کو کہیں متاثر نہیں ہونے دیا ہے، مولانا کی ان کی تحریروں میں جہاں ایک طرف ان کے اخلاص اور درد دل کی جھلک نمایاں ہے، وہیں ان کی فکری وسعت اورقلمی اعتدال کے نمونے بھی سطر سطر سے عیاں ہیں، ان کی نثر میں سادگی کے ساتھ ساتھ ایک خاص دینی وقار اور علمی متانت بھی پائی جاتی ہے، جو ان کی متوازن شخصیت کی عکاسی کرتی ہے، ان کا اسلوب تحریر نہایت سادہ، دل نشیں، حقیقت پسندانہ اور اثر انگیز ہے، ان کی تحریروں میں وضاحت اور روانی پائی جاتی ہے جو قارئین کو آسانی سے مدعا سمجھا جاتی ہے، اور موضوعات سے صاف ظاہر ہے کہ مصنف کا برملا اعلان یہی ہے کہ:
ہم نے اپنے آشیانے کے لیے
جو چبھے دل میں وہی تنکے لیے
کتاب میں اکثر موضوعات پر اجمالی گفتگو کی گئی ہے، لیکن ان پر مؤلف کی گرفت مضبوط ہے، اہم گوشے آگئے ہیں، خلاف حقیقت باتیں آپ کو اس کتاب میں نہیں ملیں گی، ان میں بعض مضامین خاص طور سے لائق مطالعہ ہیں جن میں مؤلف کی وسعت مطالعہ، ادبی ذوق، اور دینی حمیت کو صاف طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے، جیسے: شریعت میں تبدیلی کی وکالت دانشورانہ حماقت، کونسل میں بہت سید مسجد میں فقط جمن، داستان قدم ایک شکستہ پا کے قلم سے، عقل اور عقیدت کی جنگ، اور مسلم پرسنل لا سے متعلق حکومت کا حلف نامہ عقل وانصاف کی عدالت میں، کتاب سے بطور "مشتے نمونہ از خروارے” ان کے دو اقتباسات بھی پیش کئے جاتے ہیں:
۱) "لیکن سوال یہ ہے کہ ضابطۂ اخلاق کی یہ حد بندیاں کیا موجودہ صحافت میں ملحوظ رکھی جاتی ہیں؟ موجودہ دور میں صحافت چوں کہ ایک صنعت کا درجہ اختیار کر گئی؛ اس لیے اس میں صحافت کے اعلیٰ اقدار سے زیادہ اخبار کے مالکان کے سیاسی مصالح، تجارتی مفادات اور مذہبی و شخصی رجحانات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے، گویا صحافتی ضابطۂ اخلاق کی وہی حیثیت ہوئی جو ہمارے ملک میں سیاست دانوں کے لیے الیکشن کے موقع پر انتخابی ضابطۂ اخلاق کی ہوتی ہے” (ص۱۳۰)۔
۲) "یہ ہیں عمیر بن سعد انصاری، آقائے دو جہاں ﷺ کے ننھے جانثار او وفادار، مسجد نبوی میں علم عرفان کی مجلس جمی ہے، آپ علم و حکمت کے دریا بہائے جارہے ہیں، صحابہ کرام ؓہمہ تن یکسو ہو کر آنحضرت ﷺ کے ارشاد پر ” گوش بر آواز” ہیں، یکسوئی اور دلجمعی کا حال یہ ہے کہ سروں پر گویا پرندے بیٹھے ہیں کہ ذرا سی حرکت و جنبش سے اڑ نہ جائیں، شمع رسالت کے ننھے پروانے حضرت عمیر بن سعد انصاری اس مبارک مجلس میں شریک ہیں، علم و معرفت کے خزانوں اور عبرت ونصیحت کے موتیوں سے اپنے دامن مراد بھر لیتے ہیں، اور اپنے ۶۰ سالہ چچا جلاس بن سوید کے یہاں چل دیتے ہیں تاکہ جو کچھ انہیں دربار رسالت سے ملا ہے اپنے چچا کو بھی اس میں شریک کریں، لیکن چچا کون اور کیسا ہے؟ دیکھنے اور کہلانے میں تو مسلمان، نماز ورزہ اور حج وعمرہ کا پابند مگر دل رسول اللہ ﷺ کی عقیدت ومحبت سے خالی، کیا کسی نے سوکھی اور بنجر زمین پر سرسبزی اور شادابی دیکھی ہے؟ مصنوعی گلاب کے گلدستوں سے خوشبو کس نے سونگھی ہے؟ دل کی زمین میں اگر نفاق کا بیج ہو تو اس میں ایمان ویقین کی تر و تازہ شاخیں کیسے پھوٹیں گی؟(ص۷۶)۔
میں اس تبصرہ کو دو تجزیاتی اقتباسات پر تمام کرتا ہوں، جن سے مولانا قاسمی کی اس کتاب کی قدر وقیمت متعین کرنا قاری کے لیے آسان ہوگا، مولانا قاسمی کے خاص استاذ ومربی حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
"ماشاء اللہ صلاحیت اور صالحیت کا امتزاج ہیں، اور عصری مسائل کا شعور رکھتے ہیں، عزیزی سلمہ وقتاً فوقتاً اردو کے سب سے کثیر الاشاعت اخبار روزنامہ منصف اور دوسرے رسائل وجرائد میں حالات کے موافق مضامین لکھتے رہتے ہیں، اور قارئین انہیں شوق کی آنکھوں سے پڑھتے ہیں”,
مولانا کے ایک اور محسن اور شفیق استاذ مولانا احمد عبد المجیب ندوی صاحب کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
"اس مجموعہ کے اکثر مضامین محض "شوق تحریر” میں نہیں، بلکہ ضرورت اور تقاضۂ وقت کے تحت لکھے گئے ہیں، جس کی وجہ سے ان میں ایک طرح وقار واعتبار کی شان پیدا ہوگئی ہے، عزیز موصوف ایک دینی گھرانے کے چشم وچراغ اور دار العلوم دیوبند کے ممتاز فاضل ہیں، ان کا علم تازہ اور قلم جواں ہے”.
اللہ تعالی اس کتاب کی افادیت کو دوچند کرے اور اسے قبول عام عطا فرمائے۔