Slide
Slide
Slide

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

✍️ آفتاب رشکِ مصباحی

_________________

دین ہویا دنیا جس کو بھی (استثنا کے ساتھ ) تھوڑی بہت دولت مل جاتی ہے وہ اپنے آگے پھر کسی کو کچھ نہیں سمجھتا۔ اسے لگتا ہے کہ اب ہر طرف اسی کی سربراہی ہے۔ وہ جو چاہے کر سکتا ہے، کہہ سکتا ہے۔جس کا چاہے ناطقہ بند کر سکتا ہے۔ وہ جسے اچھا کہے وہی اچھا ہوگا اور وہ جسے برا کہے وہی برا ہوگا۔ دوسروں کا کہا ،کیا – اس کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لیکن، اسلام اس تکبرانہ مزاج سے اوپر اٹھ کر انسان کے بولے ہوئے لفظوں کی بڑی قدرکرتا ہے۔ وہ انسان کے ظاہر پر حکم لگاتا ہے۔ باطن کا احوال رب العالمین کے حوالے کر دیتا ہے۔ اسلام کسی کا دل نہیں چیرتا، بلکہ زبان پر آئے ہوئے کلمات کا احترام کرتا ہے، بندوں کے عذر اور صفائی کو قبول کرتا ہے۔ ایک مرتبہ صحابہ کرام کی غیروں سے جنگ ہو رہی ہے۔ عین میدانِ کارزار میں جہاں دونوں جانب سے تلواریں چل رہی تھیں ایک صحابی کی تلوار جیسے ہی ایک غیر مسلم کی گردن سے قریب ہوتی ہے وہ کلمۂ شہادت پڑھ لیتا ہے، مگر اعلائے کلمۃ الحق کے جذبے کے تحت وہ صحابی رسول اس بندے کو قتل کر دیتے ہیں۔جب بعدِ جنگ سب حضورنبی کریم علیہ السلام کی بارگاہ میں پہنچتے ہیں ا ور پیش آمدہ واقعہ سنایا جاتا ہے۔حضور کے چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا ہے۔حضور اس صحابی سے پوچھتے ہیں کہ جب اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا تو تم نے کیسے قتل کردیا؟ جواب ملا: حضور! تلوار کی ڈر سے اس نے کلمہ پڑھا تھا۔ حضور نے فرمایا: کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟ پھر بارگاہِ رب العالمین میں متوجہ ہو کر عرض کرتے ہیں ۔اے اللہ ! میں اس کے اس عمل سے بری ہوں۔اللہ اکبر۔کس قدر سخت ناپسندیدگی کا اظہار ہے یہ۔ عین میدانِ جنگ میں جہاں دشمن لڑنے کے لیے، مارنے اور قتل کرنے کے لیے ہی آیا ہے اور مار رہا ہے، قتل کر رہا ہے۔ ایسے موقعہ پر دشمن اگر کلمہ پڑھتا ہے تو پیغمبر اسلام اس کے کلمہ پڑھنے کو قبول کرتے ہیں اور اس کے خلاف جانے والے کے عمل سے اپنی برات کا اظہار فرماتے ہیں۔تو جو شخص کلمہ گو ہے،نماز روزے کا پابند ہے۔خود کو مسلمان کہتا ہے۔ایک زمانے سے،بلکہ آبا و اجداد سے ہی مسلمان ہے۔ ایسے شخص کے اظہار اسلام کو اگر کوئی نہ مانے تو اس کے نہ ماننے والے عمل سے پیغمبر اسلام کس قدر برات کا اظہار کریں گے یہ اظہر من الشمس ہے۔ بلکہ پیغمبر تو یہاں تک فرماتے ہیں: جو کوئی ہماری طرح نماز ادا کرے، ہمارے قبلے کا استقبال کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے تو وہ مسلمان ہے اور اس کی جان مال ، عزت و آبرو کو اللہ و رسول کی طرف سے امان حاصل ہے۔
اب ذرا سوچیں جس کی جان مال، عزت و آبرو کو اللہ و رسول کی جانب سے امان حاصل ہو آپ ایسے بندے کو کہیں تحریر کے ذریعہ،کہیں تقریر کے ذریعہ ،کہیں آڈیو کے توسط سے کہیں ویڈیو بنا کر بے عزت کریں، ان کے دین و اسلام کے حوالے سے لوگوں کو مشکوک کریں،انسانی سماج میں ان کے تعلق سے بدگمانیاں پھیلائیں ، ایسے کلمہ گو مسلمان کو لا دین،بے دین، مشرک،بدعتی، گمراہ، ڈھونگی، بد عقیدہ وغیرہ کہیں تو بھلا کل قیامت میں رسول پاک ﷺ کو منہ دکھا پائیں گے؟
پیغمبر اسلام کا واضح فرمان ہے: جس نے اپنے کسی مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان میں کا کوئی ایک ضرور کافر ہوگا۔یعنی جسے کہا گیا اگرواقعی وہ کافر ہے تو وہ کافر ہوا، ورنہ کہنے والا خودکافر ہو جائےگا۔ اس موقعے پر امام محمد غزالی فرماتے ہیں کہ تکفیر (کسی کو کافر کہنا) سے بچنے ہی میں عافیت ہے۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور دیکھا جاتا ہے۔ آئے دن کسی نہ کسی کی طرف سے کوئی تحریر یا ویڈیو ایسی دیکھنے کو مل جاتی ہے جس میں ایک بندہ دوسرے بندوں کا ایمان ناپتا پھر رہا ہوتا ہے۔کوئی کہتا ہے: میں جسے سنی کہوں وہی سنی ہوگا۔کوئی کہتا ہے میں جسے مسلمان کہوں وہی مسلمان ہے ، کوئی کہتا ہے: میں جسے عاشق رسول کہوں وہی عاشق رسول اورمیں جسے پکا کہوں وہی پکا ہے۔ پھر چوں کہ ہر کسی کے دو چار ماننے والے تو ہوتے ہیں ، وہ اپنے ممدوح کے تھرما میٹر سے ہر کسی کا ایمان ناپتے پھرنے لگتے ہیں۔اس طرح ہر مسلمان کی نظر میں دوسرے مسلمان کا ایمان و اسلام مشکوک ہوتا جا رہا ہے ، بلکہ ہو چکا ہے۔ اللہ میری توبہ۔ آج جب کہ چاروں طرف سے اسلام اور مسلمانوں پر یلغار ہے۔ دشمن ایک بھی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ زبان سے لے کر قلم تک اور حکمت سے لے کر ہتھیار تک کھلے بندوں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔کہیں ماب لنچنگ کے ذریعہ، کہیں بُلڈوزر کے ذریعہ، کہیں فرضی مقدمے کے ذریعہ تو کہیں کسی اورذریعہ ہر جگہ مسلمانوں کا جینا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور عالمی سطح پر استعماریت اورجھوٹ کا سہارا لے کر بستیوں کی بستیاں ، بلکہ علاقوں کے علاقے صاف کیے جا رہے ہیں۔ ان سب پر سوچنے کی بجائے آج بعض مسلم علما اپنے ہی کلمہ گو مسلمان بھائیوں کو آپس میں لڑانے اور ایک دوسرے کا ایمان ناپنے کی تلقین و تبلیغ میں لگے ہوئے ہیں۔ یوں تو مولائے کائنات کرم اللہ وجہہ الکریم ،بلکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے ہی سے ایمان ناپنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ مگر، گزشتہ ایک صدی میں جتنی تیزی اس معاملے میں دیکھنے کو ملی ہے وہ کسی زمانے میں نہیں دیکھی گئی ۔
ہر بندہ اپنے اعمال کا جواب دہ اپنے رب کے حضور ہوگا ۔ یہی اسلام کا واضح اوردو ٹوک نظریہ ہے۔ایک بندے کو کسی دوسرے بندے کے آگے اپنے کرتوتوں کا جواب دہ نہیں ہونا ہے۔ مگر، کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم خدائی فوجدار ہیں ،لوگوں کو اپنے اعمال کا جواب دہ خدا کے حضور بعد میں پہلے ہمارے یہاں ہونا ہوگا۔ یہ فیصلہ کریں گے کہ بندوں کا کون سا عمل مقبول ہوگا اور کس طرح کا ایمان قابل قبول۔ان کے یہاں پاس ہو گئے تو سمجھو اللہ کے یہاں بھی پاس ہو گئے۔حالاں کہ یہ مقام صرف جناب محمد رسول اللہ ﷺ کا ہے۔ مگر، ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے۔ خود سے جو دینی ٹھیکیدار بن بیٹھے ہیں تو اتنا کرنا ان کی منصبی مجبوری بھی ہے۔کل کی ہی بات ہے ایک ویڈیو دیکھی جس میں ایک صاحب کہہ رہے ہیں : ایک وقت آئےگا، ان شاء اللہ، ان پیروں میں سے، ان مولویوں میں سے مَیں جسے سنی قرار دوں گا دنیا اسے سنی مانےگی اور وہ وقت آ چکا ہے۔ الامان و الحفیظ۔ یہ تو ایک صاحب کی وڈیو نکل کر سامنے آ گئی ، ورنہ ایسے لوگ جگہ جگہ دیکھنے کو مل جائیں گے جو اپنے علاوہ دوسروں کا ایمان ناپتے پھرتے ہیں اور اسی زعم خودی میں گرفتار ہیں کہ وہ جسے جو قرار دیں گے لوگ اسے وہی مانیں گے۔ایک طرف جنگ میں لڑنے والے دشمن کا کلمہ پڑھنا قبول کیا جاتا ہے، اس کے خلاف جانے والے کے عمل سے پیغمبر اسلام برات کا اظہار کر رہے ہیں ۔ دوسری طرف اس طرح کے لوگ لوگوں کے دین و ایمان کو مشکوک ٹھہرانے پر آمادہ ہیں ، بلکہ ڈھیٹ ہیں۔ نہ انھیں اللہ و رسول کے فرامین کا پاس و لحاظ ہے نہ قیامت اور آخرت کی پکڑ کا خوف۔ ایسے تمام ایمان ناپنے والوں سے ہوشیار رہیں۔ ایسوں کے چکر میں پڑ کر اپنی دنیا اور آخرت خراب کرنے سے بچیں۔آپ کے سامنے جو کلمہ پڑھتا ہے، نماز ادا کرتا ہے، خود کو مسلمان بتاتا ہے اسے مسلمان جانیے اور دلوں کے احوال اللہ کے سپرد کر دیجیے۔ آپ سے لوگوں کے دلوں کے بارے میں سوال نہیں ہوگا۔ آپس میں متحد ہو کر ملکی اور عالمی سطح پر مسلمانوں کی جو حالت ہے اس سے باہر نکلنے کی فکر کیجیے ، اور اسی نہج پر کام کیجیے جس سے آنے والے وقتوں میں آپ کی نسلوں کا دین و ایمان اور دنیا سلامت رہے۔ نہ خود کوئی ایسا کام کیجیے جو مسلمانوں کے شایانِ شان نہیں، نہ اپنے علاوہ کسی کلمہ گو کا ایمان ناپتے پھریے تو اپنا ایمان ناپنا چاہیے کہ ہم ایمان کی کس منزل پر کھڑے ہیں۔دوسروں کے تو بس الفاظ قبول کرنے ہیں ، اگلے کا اقرار ہم بندوں کے نزدیک اس کے مسلمان ہونے کے لیے کافی ہے۔باقی وہ جانے، اس کا رب جانے۔ تکفیری، تضلیلی، تشریکی ذہنیت سے اوپر اٹھیں اور ہر ایک بندے کی قدر کریں ۔یہی اسلام کو مطلوب ہے۔ اورمن ترا کافر بگویم تو مرا کافر بگو کی غیر اسلامی طرز فکر سے ہر ممکن بچیں اور اپنی نسلوں کو بچائیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: