(ڈاکٹر مولانا) ابوالکلام قاسمی شمسی
_______________
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے مرکز فروغ سائنس کی جانب سے مثالی نصاب تعلیم برائے مدارس اور قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء پر مورخہ ۱۰-۱۱؍ اگست ۲۰۲۴ء کو ایک ورکشاپ منعقد ہوا۔
اس سلسلے میں مولانا ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے، وہ تحریر کرتے ہیں
’’ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے مرکز فروغ سائنس کی جانب سے مثالی نصابِ تعلیم برائے مدارس اور قومی تعلیمی پالیسی 2020 پر دو روزہ (10 – 11 اگست 2024) ورک شاپ منعقد ہوا – اس کے ڈائریکٹر انجینیر نسیم احمد خاں کی دعوت پر اس میں شرکت کا موقع ملا ۔
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں مرکز فروغِ سائنس اس تصور کے تحت قائم کیا گیا تھا کہ دینی مدارس کے ابتدائی درجات میں بنیادی سائنس کی تعلیم شامل کی جائے ، تاکہ وہاں کے طلبہ جدید علوم کی اساسیات سے واقف ہوسکیں – اس مرکز کے تحت اساتذۂ مدارس کے متعدد ورک شاپ کیے گئے –
ملک میں 2002 میں Right to Education Act منظور کیا گیا ، جس کے تحت چھ سے چودہ برس کی عمر کے درمیان بچوں کی تعلیم کو ان کا بنیادی حق قرار دیا گیا اور اس کی فراہمی کی ذمے داری حکومت کو دی گئی – پھر 2020 میں نئی تعلیمی پالیسی جاری کی گئی ، جس میں پوری مدّتِ تعلیم کو کئی مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے – ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ نئی تعلیمی پالیسی کی روشنی میں مدارس کے لیے ایسا نصاب تجویز کیا جائے جس سے وہ تعلیمی پالیسی سے ہم آہنگ ہوسکیں اور اپنے مقصد وجود کے مطابق اپنی تعلیمی سرگرمیاں بھی جاری رہ سکیں – اسی ضرورت کی تکمیل کے لیے مرکزِ فروغِ سائنس کے ڈائریکٹر صاحب نے اس ورک شاپ کا انعقاد کیا تھا ۔‘‘
اس تمہید کے بعد ورکشاپ کے اجلاس کے موضوعات کا تذکرہ ہے۔اس ورکشاپ میں مختلف اداروں اور شعبۂ تعلیم سے تعلق رکھنے والے علماء، پروفیسر اور ماہرین تعلیم نے شرکت کی اور اظہار خیالات کئے۔
ورکشاپ کے اجلاس کے الگ موضوع متعین کئے گئے تھے۔ وہ تحریر کرتے ہیں:
- پہلا اجلاس : مدارس کا نظامِ تعلیم اور عصری تقاضے
- دوسرا اجلاس : مدارس کا قیام، قانونی تحفّظ ، مرکزی مدرسہ بورڈ کا قیام
- تیسرا اجلاس : حکومتی اسکیم اور تکنیکی مہارت کے تقاضے
- چوتھا اجلاس : جامع نظام اور نصاب تعلیم
- پانچواں اجلاس : جامع نظام اور نصاب تعلیم
- چھٹا اجلاس : مدارج اور مراحلِ تعلیم
اس میں کچھ تجاویز بھی منظور کی گئیں۔ان میں سے تجویز نمبر ۱۰؍ کا تعلق نصاب تعلیم سے ہے۔ وہ یہ ہے:
قومی تعلیمی پالیسی 2020ء کو سامنے رکھتے ہوئے دینی مدارس میں ایک جامع نصابِ تعلیم بنایا جائے ، تاکہ ہر ایک کے تعلیمی مراحل اور ڈگریوں میں یکسانیت پائی جائے ، جو مسلمانوں کے تمام مکاتبِ فکر کے مدارس کے لیے قابلِ قبول ہو ۔
مذکورہ بالا حقائق کے بعد ورکشاپ پر کچھ تحریر کرنے سے پہلے چند اہم نکات پیش کئے جاتے ہیں۔
(۱) ورک شاپ کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ حاضرین نے رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ ، نئی تعلیمی پالیسی اور مرکزی مدرسہ بورڈ کا مطالعہ گہرائی سے نہیں کیا ہے ، یا کیا ہے تو پھر جان بوجھ کر اس کو از خود مدارس پر لادنا چاہتے ہیں ، جس کی وجہ سے مدارس اپنے وجود ہی سے محروم ہو سکتے ہیں۔
(2) موجودہ وقت میں اہل علم اس سے واقف ہوچکے ہیں کہ مدارس اور دیگر مذہبی ادارے رائٹ ٹو ایجوکیشن سے مستثنیٰ ہیں۔ رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ میں ترمیم شائع ہوچکی ہے، جس کی ابتدائیہ کے نمبر شمار ۵؍ میں اس کی وضاحت درج ہے۔
(3) نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء کا رائٹ ٹوایجوکیشن کا تتمہ ہے، چونکہ رائٹ ٹو ایجوکیشن کا اطلاق اسکول، کالج اور یونیورسٹی پر ہوتا ہے ،اس لئے نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء میں اسکول ،کالج اور یونیورسٹی کے نصاب کا ذکر ہے۔ اس میں مدارس اور مذہبی ادارے ، پاٹھ شالے وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
(4 ) مدارس کے سلسلے میں ورکشاپ میں منظور تجویز کے مطابق مجوزہ نصاب تعلیم کا کوئی خاکہ ابھی سامنے نہیں آیا ہے، مگر ورکشاپ کے موضوعات سے واضح ہورہا ہے کہ جب بھی ورکشاپ کے موضوعات کے مطابق مدارس کے لئے نصاب تعلیم کا خاکہ تیار ہوگا تو رائٹ ٹو ایجوکیشن اور نئی تعلیمی پالیسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے تیار کیا جائے گا۔جبکہ مدارس رائٹ ٹو ایجوکیشن سے مستثنیٰ ہیں اور نئی تعلیمی پالیسی میں مدارس ، پاٹھ شالے اور دیگر مذہبی ادارے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ تو پھر رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ اور نئی تعلیمی پالیسی کو مدارس پر از خود نافذ کرنے کا مشورہ کسی بھی طرح درست نہیں ہے ، رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ کے دفعات مدارس سے میل نہیں کھاتے تھے ، بلکہ اس کی زد سے مدارس اپنی وجود سے محروم ہو جائیں گے ،جب ہی تو اکابر ملت اور دیگر مذہبی اداروں کے ذمہ داروں نے اس سے مذہبی اداروں کو مستثنیٰ کرایا گیا۔
( 5) مدارس اور مذہبی اداروں کا قیام خاص مقاصد کی تکمیل کے لئے عمل میں آتا ہے ، اس لئے اس کا اپنا مزاج ہوتا ہے، جس کے مطابق یہ ادارے چلائے جاتے ہیں۔
(6) ہندوستان جمہوری ملک ہے ، اس میں آئین کی حکومت ہے، ملک کا آئین اقلیتوں کو اپنی پسند کے ادارے قائم کرنے اور چلانے کا اختیار دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ اکثریتی طبقہ کے لوگوں کے بھی مذہبی ادارے ہیں۔ سبھی اپنے اپنے انداز پر اپنی پسند کے مطابق تعلیم دیتے ہیں۔چونکہ ملک کا آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔
(7) مدارس کی تاریخ بہت پرانی ہے، صدیوں سے یہ خدمات انجام دے رہے ہیں، کوئی دور ایسا دیکھنے میں نہیں آیاکہ مدارس اور اہل مدارس نے دین وشریعت کے معاملے میں ملت کی رہنمائی نہ کی ہو اور ایسا بھی دیکھنے میں نہیں یہ زمانے کے تقاضے کو پورا کرنے سے قاصر رہے ہوں۔ اللہ کا شکر رہا کہ مدارس نے ہر دور میں ملت ہی نہیں بلکہ ملک کی تعمیر وترقی میں بھی ہمیشہ اہم کردار ادا کیا۔
( 8) ماشاء اللہ ہندوستان میں بڑے بڑے مدارس ہیں، جنہوں نے مسلم سماج کے سماجی اور دینی مسائل ہمیشہ حل کئے ہیں۔جن میں بڑے بڑے علماء ہیں،ان میں سے اکثر حساس ہیں۔ میرے مطالعہ کے مطابق اپنے علوم وفنون میں ماہر ہیں اور وہ اپنی ضرورتوں کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ اس لئے مدارس کے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم پہ انہیں غور کرنے کا زیادہ حق ہے۔
(9 ) ورکشاپ کے موضوعات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس میں مرکزی مدرسہ بورڈ پر بھی غور وخوض کیا گیا ہے، جبکہ مرکزی بورڈ کی تجویز کو اکابر علماء نے بہت پہلے رد کردیا ہے۔ مدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس بند ہونے کے دہانے پر ہیں، کئی اسٹیٹ میں ان کو بند کردیا گیا ہے اور کئی اسٹیٹ میں اسکول میں تبدیل کردیا گیا، اس سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
(10) مدارس میں نصاب تعلیم اور نظام تعلیم پر غور وفکر کرنے کے لئے ذمہ داران مدارس کو اپنے مدارس میں ورکشاپ کرتے رہنے کی ضرورت ہے، تاکہ جمود کا بہانہ بناکر کسی کو کچھ کہنے کا موقع نہ ملے ۔
(11 ) آزاد مدارس جو حکومت سے کچھ بھی تعاون نہیں لیتے ہیں، ان کی حفاظت وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مدارس میں مسلم سماج کے صرف چار فیصد بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان میں سے دو فیصد بچے مدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس میں اور صرف دو فیصد بچے آزاد مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور یہی دو فیصد پورے ملک کی دینی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں، اس لئے ان کا تحفظ ملت اسلامیہ کا فریضہ ہے۔ خدانخواستہ اگر ہم ا س سے محروم ہوگئے تو مسلم سماج کے لئے بڑی محرومی کی بات ہوگی۔
(12) آزاد مدارس جو ہمارے درمیان چل رہے ہیں، موجودہ وقت میں ان کی ضرورت ہے کہ ان کے قیام کے مقاصد کو باقی رکھتے ہوئے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے ۔ اس سلسلے میں چند مشورے تحریر ہیں۔
(الف) آزاد مدارس میں ابتدائی تعلیم کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے۔ کہیں چار سال کا نصاب ہے تو کہیں پانچ سال کا۔موجودہ وقت میں اس کی ضرورت ہے کہ اس کے نصاب تعلیم میں تین سال کا اضافہ کیا جائے ، ابتدائی درجات کے نصاب تعلیم کو پانچ سال سے بڑھا کر آٹھ سال کیا جائے اور اس میں دینی اور عصری دونوں مضامین شامل کئے جائیں ، تاکہ مڈل معیار تک کی تعلیم کا انتظام ہوجائے۔
- (ب) آزاد مدارس نصاب تعلیم میں ثانوی درجات کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے، اس کمی کو پورا کرنے کے لئے عربی اول اور دوم میں ضروری عصری مضامین شامل کئے جائیں ، اس طرح میٹرک تک کا نصاب تیار ہوجائے گا۔
- (ج) اسی طرح عربی سوم اور چہار م میں عربی اور دینی مضامین تو پہلے سے شامل ہیں، ان میں عصری مضامین شامل کئے جائیں، تو انٹر میڈیٹ کا نصاب تیار ہوجائے گا۔
- اس کے بعد عربی پنجم سے جو نصاب جاری ہے وہ جاری رہے۔
- (د) جہاں تک امتحان کی بات ہے ،تو جو طلبہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان دینا چاہیں گے ،تو اوپن اسکول بورڈ وغیرہ امتحان دے سکیں گے۔
اس نہج پر ذمہ داران مدارس غور کریں تو کام آسانی سے چل جائے گا ، کوئی زیادہ نقصان بھی نہیں ہوگا ، اور مدارس نظامیہ پر جو الزامات لگتے ہیں کہ اس کا نصاب تعلیم عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے ، یہ الزام بھی ختم ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ مدارس کی حفاظت فرمائے۔