مفتی ناصرالدین مظاہری
_______________
سعودی عرب میں دولت کی ریل پیل کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے، یہ تیل کی یافت اور دریافت سے پہلے مفلس و قلاش تھا، اس کا گزربسر حجاج اور معتمرین سے ہونے والی آمدنی اور مزدوری سے ہوتا تھا، ننگے سر، ننگے پیر، اونٹوں اور بکریوں کو چرانے والے، چراگاہوں، کوہستانوں اور گزرگاہوں پر بسر اوقات کرنے والے، دنیا بھر کے حجاج سے ملنے والے ہدایا اور تحائف پر آس لگانے والے تھے، حجاج و معتمرین کو پوری دنیا میں واضح ہدایت ہوتی تھی کہ وہاں پہنچ کر زیادہ سے زیادہ خریداری کرو تاکہ ارض حرم کے رہنے والوں کو کچھ پیسے مل جائیں، اب بھی حجاج و معتمرین کا یہی نظریہ ہوتا ہے جس میں خیر کا پہلو بھی ہے کہ کم از کم مکینان حرمین شریفین کے لئے ان کے دلوں میں عقیدت و محبت کا آبشار ہے۔ اور احبوا العرب فانی انا العرب عربوں سے محبت کرو کیونکہ میں بھی عربی ہوں۔ اس کے علاوہ ایک بار تو یہاں تک فرمادیا کہ من غش العرب لم یدخل فی شفاعتی یعنی جو عربوں کو دھوکہ دے وہ میری شفاعت سے محروم ہے۔
عربوں کی خوبیاں اتنی ہیں کہ ان پر تفصیلی مقالہ تیار ہوسکتا ہے اور خامیاں کس میں نہیں ہوتی ہیں، کون دعوی کرسکتاہے خامیوں سے پاک ہونے کا، بس اتنا ضرور دھیان رکھیں کہ دنیا میں تین ممالک ایسے ہیں جن کی معاشی، اقتصادی، ایمانی حالت کو بگاڑنے کی کوششیں بلکہ سازشیں اتنی کی گئی ہیں کہ آپ تصور نہیں کرسکتے، ان میں پہلے نمبر پر تو حجاز بالخصوص حرمین شریفین کے باشندگان ہیں، دوسرے نمبر پر ترکی اور تیسرے نمبر پر مملکت خداداد ہے، ان تینوں ممالک کے مسلمانوں کو اسلام سے ہٹانے، بہکانے، ورغلانے کی جتنی مذموم سازشیں ممکن ہوسکتی ہیں شیطانی کارندے روز و شب کررہے ہیں۔
میں نہیں جانتا وہ کون سے بزرگ تھے لیکن یہ بات حرم مکی کی ہے، میں لوکل مسلمانوں کی دینی حالت اور کعبہ وقرآن کی بے احترامی پر اظہار رنج کر بیٹھا تو وہ بڑے تحمل سے بولے کہ شیطان اور شیطانی لشکروں نے یہاں کے لوگوں بالخصوص نوجوانوں کو راہ راست سے ہٹانے اور بھٹکانے کی بہت کوششیں کی ہیں اتنی کوششیں شاید ہی کہیں اور کی گئی ہوں اس کے باوجود الحمدللہ اکثر مقامی گھرانے دین دار ہیں، خوف خدا رکھتے ہیں، مہمانان رحمان سے محبت کرتے ہیں۔ ان سے ناراض نہ ہوں کیونکہ ناراضی بغض کاباعث بنتی ہے انکے حق میں دعاء خیر کیجیے کیونکہ دعاء خیر ہمدردی کا ذریعہ بنتی ہے۔
آپ کا واسطہ اگر کسی خالص عربی سے خاص کر خالص مدنی سے پڑا ہوتو اس کا اثر اور تاثر اب بھی آپ محسوس کرسکتے ہیں۔ مجھے مدینہ منورہ کے مقامی باشندے اپنی بے شمار خوبیوں خصوصیتوں کے اعتبار سے باقی دنیا سے اچھے لگتے ہیں۔
میں عربوں کی حمایت کرتا ہوں مگر قومیت کے نعرے کی مخالفت بھی کرتا ہوں، میں عربوں کی قدر کرتا ہوں لیکن ان کے کسی بھی امر منکر پر نکیر کو اسلامی تعلیم، قرآنی احکام اور نبوی ارشادات کی تعمیل بھی سمجھتا ہوں، معروفات کی حمایت اور منکرات کی مخالفت جزء ایمان ہے ۔
میں خود اپنا ایک چھوٹا سا واقعہ بتاتا ہوں :مسجد نبوی کے گیٹ نمبر سات کے سامنے جو شاہراہ ہے اسے شارع سلام کہتے ہیں اس شارع کے اختتام پر ایک پل ہے، پل کے نیچے بعض دکاندار اپنی عارضی و خارجی دکانیں لگا لیتے ہیں اور شرطہ کو دیکھتے ہی دفعان ہوجاتے ہیں۔ ایک اعرابی نے تسبیحات کی دکان لگا رکھی تھی اور واحد ریال واحد ریال کا اعلان بھی کئے جارہا تھا، میں بھی قریب گیا، کچھ تسبیحات منتخب کیں لیکن ان کا ریٹ اس نے زیادہ بتایا تو میں نے تسبیحات واپس رکھ دیں اس نے ناگواری اور برہمی کا اظہار کیا تو وہیں کھڑے ایک مدنی نے میرا ہاتھ تھاما میری پیشانی چومی اور اس کی طرف سے عفو درگزر کا طالب ہوا۔
یہ وہاں کی عام عادت ہے، عربی لوگ سبحان اللہ ماشاءاللہ اللہ اکبر واللہ جیسے کلمات اتنی کثرت سے ہمہ وقت بولتے ہیں کہ آپ شمار نہیں کرسکتے۔
میں مانتا ہوں کہ الناس علی دین ملوکہم ایک حقیقت ہے یہ بھی جانتا ہوں کہ اعمالکم عمالکم ارشاد نبوی ہے لیکن یہ بھی جانتا ہوں کہ فَمَنْ أَحَبَّ الْعَرَبَ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَ الْعَرَبَ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ (ترمذی)بھی ارشاد نبوی ہے۔
غلو کسی بھی چیز میں مناسب نہیں ہے، جو لوگ حرمین شریفین جاچکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مہمانان رحمان کے لئے سعودی حکومت کس قدر فراخ دل واقع ہوئی ہے آپ کہہ سکتے ہیں کہ سعودی حکومت پیسے بھی تو لیتی ہے تو اس پہلو پر ضرور غور کیجیے گا کہ پیسے تو آپ ہر جگہ دیتے ہیں لیکن وہ سہولت بالکل نہیں ملتی جس کے پیسے لئے گئے ہیں مثلا میں انڈیا کی بات کرتا ہوں آپ کئی ماہ پہلے اے سی کا ٹکٹ لیجیے، وقت پر اسٹیشن پہنچئے لیکن وہاں پتہ چلتا ہے کہ ٹرین تو کافی لیٹ ہے، ٹرین آنے پر آپ اپنی سیٹ پر پہنچتے ہیں تو ہمیشہ اے سی کم ہی ملتا ہے یعنی کولنگ بہت کم، کمبل آپ کو بالکل نئے دھلے کبھی نہیں ملتے، چادریں بھی کبھی دھلی ملتی ہیں اور کبھی اسٹاف کی بدمعاشی سے دھوکہ بھی دیاجاتا ہے، تکیہ کا غلاف اکثر غائب ہوتا ہے، صابون تو کبھی نہیں ملتا ہے، تولیہ بھی اکثر غائب رہتا ہے لیکن آپ کبھی شکوہ شکایات کا بازار گرم نہیں کرتے، اور اگر ٹرین کا ٹکٹ کینسل کرنا پڑ جائے تو نصف سے زیادہ رقم حکومت کاٹ لیتی ہے اور باقی ماندہ رقم بھی فورا واپس نہیں ملتی اس میں بھی کئی دن لگتے ہیں۔ اور بھی سوچئے آپ نے ٹکٹ بہت پہلے بنوالیا ، سفر آنے تک یہ رقم بحق سرکار ہے اور ٹکٹ کینسل کریں گے تو بھی کٹنا آپ ہی کو ہے۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ جیسے ہوائی جہاز کا معاملہ ہے کہ جتنا پہلے ٹکٹ لوگے اتنا ہی سستا ملے گا یہاں بھی وہی ہونا چاہیے۔ لیکن خیر ہم چپ رہتے ہیں کیونکہ سوچتے ہیں کہ ایک کے بولنے اور بکنے سے کیا ہوتا ہے تو سعودی کے پیچھے لوگ کیوں ہاتھ دھو کر پڑجاتے ہیں؟
اگر کوئی بھی ٹور آپریٹرز، ہوٹل مینجمنٹ، بس انتظامیہ وغیرہ کوئی بھی بدعنوانی کرتا آپ کو نظر آجائے اور آپ اس کی شکایت متعلقہ محکمہ تک پہنچا سکیں تو یقین مانیں فوری کاروائی ہوتی ہے، ٹور آپریٹرز کے ٹور ٹریلوس کا رجسٹریشن تک کینسل ہوجاتا ہے، ہوٹل انتظامیہ بھاری جرمانے سے دوچار ہوجاتی ہے، بس مالکان کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ اپنی بات سلیقہ سے پہنچا سکیں
سعودی حکومت ہر سال دنیا بھرکے مشوروں اور سجھاؤ کی روشنی میں لائحہ عمل طے کرتی ہے آپ سنجیدگی کے ساتھ وزارت حج کو کوئی بھی مشورہ دے کر دیکھئے تو سہی۔