ہیمنت بِسوا سرما کا زہریلا قانون
✍️ شکیل رشید
ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز
___________________
اس ملک میں نفرت کا سب سے بڑا پرچارک کون ہے ؟ اس سوال کے جواب میں یوں تو کئی نام لیے جا سکتے ہیں ، لیکن آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بِسوا سرما کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا ۔ یہ نفرت کے پرچار میں عقل اور شعور سب کچھ پَرے چھوڑ دیتے ہیں ، اور جو کچھ بھی منھ میں آتا ہے ، وہ قے کر دیتے ہیں ۔ اب یہی دیکھ لیں کہ انہوں نے آسام اسمبلی میں ایک بِل منظور کروایا ہے ، یعنی بِل کو قانون بنوایا ہے ، جس کے تحت اس ریاست میں اب کوئی قاضی ایجاب و قبول کروانے کے بعد شادی رجسٹرڈ نہیں کرسکے گا ، اگر اس نے ایسا کیا تو اس کا یہ عمل غیرقانونی ہوگا ، اب سے شادی شدہ جوڑے کو سرکاری رجسٹریشن کروانا لازمی ہوگا ! اس کا مطلب یہ ہوا کہ آسام میں اب مسلمانوں کو اپنے بثوں کی شادیوں کے لیے قاضی کے بجائے سرکاری محکمے پر انحصار کرنا ہوگا ۔ سوال یہ ہے کہ بھلا قاضی کے ذریعے نکاح پڑھانے کے بعد سرکاری رجسٹریشن کیوں نہیں کیا جا سکتا ؟ قاضی صاحبان نکاح پڑھا دیں ، اور لڑکا اور لڑکی شادی کے بندھن میں بندھ جانے کے بعد سرکاری محکمہ میں جاکر شادی رجسٹرڈ کرا لیں ۔ اس عمل میں کیا قباحت تھی ؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ قاضی صاحبان اسلامی شریعت کے مطابق شادی اور طلاق کے عمل کو انجام دیتے تھے ، لیکن ہیمنت بِسوا سرما کو ’ اسلامی شریعت ‘ کے مطابق انجام دیے جانے والے سارے کاموں سے نفرت ہے ، اس لیے انہوں نے ۹۰ سالہ قدیم قانون کو ختم کرکے ’ مسلم شادی اور طلاق رجسٹریشن ‘ کا نیا قانون لاگو کر دیا ہے ، اور اس کے پیچھے منشا ’ قاضی کے نظام ‘ کو ختم کرنا ہے ۔ آسام اسمبلی میں انہوں نے یہ بات کہی ہے کہ قاضی کا جو نظام چل رہا ہے اسے ختم کر دیا جائے گا ! گویا یہ کہ مسلمانوں کی شادیاں بغیر قاضی کے ہوں گی ، یعنی مسلم بچے اور بچیاں سیدھے سرکاری محکمہ جائیں گی ، اور وہاں اپنی شادیوں کو رجسٹرڈ کروا لیں گی ۔ نہ نکاح پڑھا جائے گا ، نہ ولی کی اجازت ضروری سمجھی جائے گی ، اور نہ گواہان کی ضرورت ہوگی ! یہ ہے سارا منصوبہ ۔ ساتھ ہی وہ قاضی صاحبان جو کئی نسلوں سے نکاح کروانے کا فریضہ ادا کرتے چلے آ رہے ہیں ، وہ بھی بیکار ہو کر گھر بیٹھ جائیں گے ۔ حالانکہ ہیمنت بِسوا سرما نے اس نئے قانون کو لاگو کرنے کو درست ثابت کرنے کے لیے کئی دلیلیں دی ہیں ؛ کہا ہے کہ سرکاری رجسٹریشن کرانے سے کم عمری کی شادیوں پر روک لگے گی ، رجسٹریشن کے بعد جائیداد میں حصہ داری سے بیواؤں کو محروم نہیں کیا جا سکے گا اور اس قانون کے ذریعے نوعمری کے حمل کو بھی روکا جا سکے گا ، یعنی جب شادی قانون کے مطابق طئے شدہ عمروں میں ہوگی ، تب بچیاں نوعمری کے حمل سے بچ سکیں گی ، لیکن اس قانون کو لاگو کیے بغیر بھی مذکورہ آزار سے چھٹکارہ پایا جا سکتا تھا ، اس کے لیے مسلمانوں کے مروجہ شادی اور طلاق کے قانون کو ختم کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اس نئے قانون کے بعد مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں ؛ لڑکی اور لڑکے کی عمروں کا تعین سرکاری پیدائشی سند کے ذریعے کیا جاتا ہے ، اگر سندیں نہ ہوئیں تو ؟ اسی طرح اگر کوئی ایسی عورت جسے طلاق ہو چکی ہو ، اور جس نے طلاق دی ہے وہ فوت ہو چکا ہو ، اور وہ عورت خود کو مرنے والے کی بیوہ قرار دے کر جائیداد پر دعویٰ کرے تو ؟ سچ تو یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کو ہراساں اور پریشان کرنے کا قانون ہے ۔ جن آزار سے نمٹنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں وہ سارے سماج کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں ، صرف مسلمان ہی ان میں مبتلا نہیں ہیں ، ان سے نمٹنے کے لیے حکومت سختی کر سکتی ہے ، قوانیں بنا سکتی ہے ، لیکن اس کے لیے ایک خاص مذہب کے شادی اور طلاق کے قوانین کو نشانہ بنانا یہ نفرت کے اظہار کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ بِسوا نے آگے کا منصوبہ بھی ظاہر کر دیا ہے ؛ تعدد ازدواج پر پابندی ! خیر جو بھی ہے ، اس قانون نے ہیمنت بِسوا سرما کے اس بیان کو کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہر حال میں بولتے رہیں گے ، مطلب زہر گلتے رہیں گے ، درست ثابت کر دیا ہے ۔ سرما نفرت کے پرچارک ہیں ، وہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان دراڑ ڈالنے والے سب سے زہریلے سیاست داں ہیں اور اس لحاؓظ سے اس ملک ، یہاں کی جمہوریت اور آئین کے مخالف ہیں ۔ ان کے خلاف آواز بھی اٹھنی چاہیے اور عدالت میں گہار بھی لگائی جانی چاہیے کہ ان پر قدغن لگائی جائے۔