مکاتب کی تفتیش غیر ضروری
✍️شکیل رشید
( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
_________________
مکاتب وہ سیڑھی ہیں ، جو دین اور ایمان کی پہچان کا ابتدائی سہارا بنتی ہیں ، اسی لیے اکابر علماء نے مکاتب کے قیام پر سب سے زیادہ زور دیا ہے ، اور اسی لیے قدیم دور سے لے کر آج تک مسلمانوں کی یہ کوشش رہی ہے ، کہ وہ جہاں بھی رہیں وہاں ، بچوں کی دینی تعلیم کے سہارے کے لیے ، ایک چھوٹا سا مکتب ضرور قائم کریں ۔ لیکن یہ سہارا اب سرکاری ایجنسیوں کے راڈار پر ہے ۔ آسان زبان میں کہیں تو مکاتب ایک مخصوص ذہنیت رکھنے والے عناصر کو ، جو اِن دنوں حکومت چلا رہے ہیں ، ایک آنکھ نہیں بھا رہے ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح مسلم بچوں کے پیروں کے نیچے سے یہ سیڑھیاں چھین لیں ۔ ان عناصر میں اتر پردیش ( یو پی ) کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سر فہرست ہیں ۔ اور یو پی وہ ریاست ہے جہاں رہ رہ کر مدارس و مکاتب کی یا توچھان بین ہوتی رہتی ہے یا پھر مدارس بند کرانے کی زہریلی باتیں سُنائی دیتی ہیں ۔ کچھ پہلے ہی یو پی مدرسہ بورڈ ایکٹ 2004 کا معاملہ سامنے آیا تھا ۔ آلہ آباد ہائی کورٹ نے اس پورے قانون کو غیر آئینی اور سیکولرزم مخالف قرار دیا تھا ۔ مذکورہ ایکٹ کے تحت منتظمین کو اختیارات تو پورے دیے گیے ہیں لیکن کچھ ایسی شقیں ہیں جو دینی تعلیم کی راہ میں مشکلات کھڑی کر سکتی ہیں ۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے قومی حقوق اطفال کمیشن ( این سی پی سی آر) کی مدارس کو بند کرنے کی درخواست پر جو ایک مثبت فیصلہ سنایا ہے ، وہ اس کے لیے کافی ہے کہ متعصب عناصر اپنے قدم روک لیں ، اور مدارس و مکاتب کو آزادی کے ساتھ اپنا کام کرنے دیں ، لیکن فرقہ پرست بلکہ مسلم دشمن عناصر باز نہیں آ رہے ہیں ۔ یوگی نے یو پی میں مدارس کے خلاف جو مہم شروع کی تھی اس کے اثرات سارے ملک میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔ آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما مسلم دشمنی میں کم نہیں ہیں ، ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے آسام میں چھ سو سے زائد مدارس پر تالے لگوا دیے ہیں اور وہ باقی کے مدارس بھی بند کروا دیں گے ۔ ایک اندازہ کے مطابق آسام میں ایک ہزار سے زائد مدارس بند کرائے جا چکے ہیں ۔ ہماچل پردیش ، اتراکھنڈ اور مدھیہ پردیش میں بھی مدارس و مکاتب نشانے پر ہیں ۔ نئے نئے ضوابط بنانے جا رہے ہیں ۔ کہیں کہیں تو مدارس و مکاتب کے خلاف قوانین بنانے کے لیے پر تولا جا رہا ہے ۔ اور اگر کہیں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا کوئی ایسا فیصلہ آتا ہے جو فسطائی ریاستی حکومتوں کی مرضی کے خلاف ہوتا ہے تو ایجنسیوں کو حرکت میں لے آیا جاتا ہے ۔ یو پی میں کچھ پہلے ہی مدارس کا ایک سروے کرایا گیا تھا ۔ سروے رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ یو پی میں 8441 مدارس غیر قانونی ہیں ۔ اور اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ 473 مکاتب بغیر کسی منظوری کے چل رہے ہیں ۔ یوگی حکومت کا یہ کہنا ہے کہ ان مکاتب کی آمدنی کے ذرائع کی تفتیش کی جائے گی ، یہ پتا لگایا جائے گا کہ انہیں پیسے کہاں سے ملتے ہیں ۔ مدارس اور مکاتب پر پہلے بھی یہ الزام لگتا رہا ہے کہ انہیں غیر ممالک سے فنڈ حاصل ہوتا ہے ، مطلب یہ کہ مدارس و مکاتب کے پاس کالا دھن ہے ۔ اس الزام کو کبھی ثابت نہیں کیا جا سکا ہے اور ثابت کیا بھی نہیں جا سکتا ہے ، کیونکہ مدارس ہوں کہ مکاتب چندے سے چلتے ہیں ، مخیر حضرات کی امداد سے چلتے ہیں ۔ مکاتب کی تفتیش غیر ضروری ہے ، لیکن غرض ستانا ہے ، اسی لیے اب یو پی اے ٹی ایس سے تفتیش کرائی جائے گی ۔ اے ٹی ایس اس لیے کہ مکاتب اور مدارس کو دہشت گردی سے جوڑا جا سکے ! خیر دُم ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی رہنے والی ہے ، لہذا مدارس و مکاتب کے ذمہ داران خود اقدام کریں اور اپنے اداروں کو منظور کرائیں ، حساب کتاب شفاف رکھیں اور جیسی معیاری تعلیم حکومت کو مطلوب ہو اس کا دھیان رکھیں ۔ اداروں میں نظم و ضبط کی برقراری بھی ضروری ہے ۔ ایک چیز اور کریں حکمرانوں سے بالخصوص مرکزی وزیر اقلیتی امور کرن رجیجو سے یہ دریافت کریں کہ کیا مدارس کی جدید کاری کا فنڈ استعمال کیا گیا ، اگر کیا گیا تو کہاں اور اگر نہیں کیا گیا تو کیوں نہیں؟