جاوید حبیب کی یاد میں
جاوید حبیب کی یاد میں
🖋معصوم مرادآبادی
______________
آج ممتاز صحافی، دانشور اور ملی قائد جاوید حبیب کا یوم وفات ہے۔ انھوں نے 11 اکتوبر 2012 کو دہلی میں وفات پائی۔ جاوید حبیب یوں تو اپنی سیاسی و سماجی خدمات کیلئے جانے جاتے ہیں لیکن ان کی شخصیت اور کارناموں کا سب سے جلی عنوان صحافت ہے، جس کا ثبوت ان کی ادارت میں شائع ہونے والا ہفت روزہ ’ہجوم‘ ہے،جس نے اردو صحافت میں اپنی منفرد سرخیوں اور مواد سے جگہ بنائی۔دہلی سے شائع ہونے والے اس انوکھے ہفت روزہ نے صحافت کی دنیا میں جو دھوم مچائی تھی وہ کم ہی اخباروں کا مقدر ہوتی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلباء یونین کے سابق صدر جاوید حبیب نے اپنی تحریری اور تقریری صلاحیتوں کا بھرپور اظہار زمانہ طالب علمی میں ہی کیا تھا۔ انہوں نے 18سال کی عمر میں ہی اندور سے شائع ہونے والے ’سفیر مالوہ‘ سے مضمون نگاری کا آغاز کردیا تھا۔ بعد ازاں وہ 1968 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلباء یونین کے ترجمان ’علی گیرین‘ کے مدیر رہے۔ اس دوران وہ اپنے اقامتی ہال محسن الملک کی میگزین ’محسن‘ کے بھی ایڈیٹر رہے۔ زمانہ طالب علمی میں انہوں نے علی گڑھ سے ’ذرات‘ اور ’سنگ ریزے‘ کے نام سے دو جریدے بھی نکالے۔ روزنامہ ’دعوت‘کو مکتوب علی گڑھ بھیجتے رہے۔ علی گڑھ سے شائع ہونے والے پندرہ روزہ معیاری جریدے ’خیر وخبر‘ میں بھی مضمون نگاری کی۔ لیکن ان کی صحافت کا اصل بانکپن ہفتہ وار ’ہجوم‘ کی اشاعت کے ساتھ سامنے آیا، جو 1979 میں دہلی سے شروع ہوا۔ ’ہجوم‘ کی اشاعت 1990 تک جاری رہی۔ اپنے عہد کے اس منفرد اور مکمل ہفتہ وار نے اردو اخبارات کے قارئین میں ایک نئی فکر اور سوچ کو جلا بخشی۔ خاص بات یہ تھی کہ ’ہجوم‘ میں اوریجنل رپورٹنگ شائع ہوتی تھی، جب کہ معاصر اخبارات انگریزی اخباروں کی خبروں کا چربہ شائع کرتے تھے۔ ’ہجوم‘ نے جذباتیت سے کنارہ کرکے سنجیدہ موضوعات کا انتخاب کیا۔ اس اخبار کی ایک خاص پہچان یہ تھی کہ یہ سیاسی، سماجی اور مذہبی شخصیات پر مثبت انداز میں تنقید کرتاتھا۔ ’ہجوم‘ کے ابتدائی شماروں میں ’سیاسی کرکٹ نمبر‘ کو خاص مقبولیت حاصل ہوئی۔
اردو کے جن عہد ساز صحافیوں سے جاوید حبیب بے حد متاثر تھے، ان میں ” عزائم ” کے ایڈیٹر جمیل مہدی اور ” دعوت ” کے مدیر محمد مسلم کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ ان دونوں بزرگ صحافیوں سے جاوید حبیب کا رشتہ شفقت اور محبت کا تھا۔ ہفتہ وار ’ہجوم‘ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں اس زمانہ کے بڑے اہم قلم کار کالم لکھا کرتے تھے۔ صالحہ عابد حسین، پروفیسر شمیم حنفی، سید نقی حسن جعفری، پروفیسر الطاف احمد اعظمی احمد رشید شیروانی کی تحریریں ’ہجوم‘ میں پابندی سے شائع ہوتی تھیں۔ جبکہ فرحت احساس اس کی ادارتی ٹیم میں شامل تھے۔ جاوید حبیب کا سب سے قیمتی اثاثہ ان کی وہ بصیرت تھی، جس سے موجودہ دور کی مسلم قیادت محروم نظر آتی ہے۔ ان کے ویژن کو اگر بروئے کار لایا جاتا تو بہت سے ایسے پیچیدہ مسائل کا ازالہ ممکن تھا، جس سے ہم آج بحیثیت قوم دوچار ہیں۔ جاوید حبیب قطعی اوریجنل فکر اور سوچ کے انسان تھے۔ وہ دوسروں کے خیالات مستعار لینے کی بجائے اپنی راہ خود بناتے تھے۔یہ الگ بات ہے کہ ان کی بنائی ہوئی کسی بھی راہ نے انہیں منزل تک نہیں پہنچایا اور کئی دوسرے لوگ ان کی دکھائی ہوئی راہ پر چل کر ان سے بہت آگے نکل گئے۔
جاوید حبیب کے ناقدین ان پر بابری مسجد تنازعے کے سلسلے میں بعض ایسے الزامات عائد کرتے ہیں، جن کی کبھی کوئی تصدیق نہیں ہوسکی۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ اس پیچیدہ مسئلے کا ایک باوقار حل تلاش کرنے کی جستجو میں در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے لیکن کامیابی انہی لوگوں کے ہاتھ آئی جو شروع دن سے اس مسئلے کا سیاسی استحصال کررہے تھے۔ عجیب المیہ ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کا الزام اپنے سینے پر لینے والے جاوید حبیب نے جب اس دنیا سے منہ موڑا تو ان کے پاس نہ تو کوئی عہدہ تھا، نہ اثاثہ، نہ ہی گاڑی، گھوڑا اور بنگلہ۔ جب کہ بابری مسجد کے مسئلے کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے والے اقتدار کی اونچی مسندوں پر بیٹھے تھے۔ جاوید حبیب نے بابری مسجد کی شہادت کے بعد 20 سال کا طویل عرصہ جس اذیت، تنہائی، بے کسی اور بیماری میں گزارا اس کو بیان کرنے کیلئے پورا دفتر درکار ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کا ان پر اتنا اثر تھا کہ انہوں نے 20 برس کے اس عرصے میں کبھی عید نہیں منائی اور نہ ہی نیا لباس زیب تن کیا۔ حتی کہ شدید گرمی کے موسم میں اپنے کمرے کا کولر چلانے سے بھی اس لئے گریزاں رہے کہ نہ جانے کتنے لوگ گرمی کی شدت سے سڑکوں پر بے حال پھر رہے ہیں۔ جاوید حبیب سرسید کی عظیم دانش گاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے روحانی فرزند تھے اور ان کی شخصیت میں وہ تمام خوبیاں موتیوں کی طرح چمکتی تھیں جن کا خواب سرسید نے یونیورسٹی کے طلباء کے لئے دیکھا تھا۔ تحریر و تقریر کی بہترین صلاحیتوں سے آراستہ جاوید حبیب میں اعلیٰ انسانی اقدار اور خوبیوں کا بھرپور عکس تھا۔ وہ کبھی کسی کی اہانت نہیں کرتے تھے اور ایسے لوگوں کو بھی خندہ پیشانی کے ساتھ گلے لگاتے تھے، جنہوں نے ان کے گلے پر چھری پھیرنے کی کوششیں کیں۔
جاوید حبیب سے اپنی تیس سالہ رفاقت کو یاد کرتا ہوں تو بے شمار ایسی باتیں یاد آتی ہیں جنہیں یہاں رقم کیا جانا چاہئے۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا مخلص، باشعور، معاملہ فہم اور صاف گو انسان نہیں دیکھا۔ وہ جہاں ایک طرف اپنے بزرگوں اور اکابرین کا احترام کرتے تھے وہیں اپنے چھوٹوں کے ساتھ بڑی محبت اور شفقت کا برتاؤ کرتے تھے۔ ان کی مجلس میں بار بار اور لگاتار بیٹھنے کو جی چاہتا تھا۔ وہ مسلمانوں کے ان قائدین میں ہرگز نہیں تھے جو ہوا کا رخ دیکھ کر اپنا راستہ طے کرتے ہیں، بلکہ وہ مخالف اور تیز ہواؤں کے سامنے ٹھہر کر بات کرتے تھے۔ عام طور پر مسلم قائدین مسلمانوں کا موڈ بھانپ کر اپنا موقف طے کرتے ہیں مگر جاوید حبیب ہمیشہ حق باتیں کہتے تھے اور وہ سچائی بیان کرنے کیلئے ہر خطرہ مول لینے پر تیار رہتے تھے۔
مسلمانوں کے بارے میں ان کا واضح موقف یہ تھا کہ اکثر ہم دوسروں میں تمام خامیاں تلاش کرتے ہیں اور ہر مسئلہ کا دوش دوسروں کے سر پر ڈالتے ہیں۔ لیکن خود اپنی خامیوں، کوتاہیوں اور بے عملی پر نظر نہیں ڈالتے۔ وہ خود احتسابی کے طرفدار تھے اور اکثر مسائل میں ان کی رائے بڑی دور اندیشانہ ہوتی تھی۔ بابری مسجد کے مسئلہ پر ان کا موقف یہی تھا کہ اس مسئلہ کو اشتعال انگیزی کی بجائے مفاہمت اور دانش مندی سے حل کیا جانا چاہیے، لیکن افسوس کہ اس معاملہ میں ان کی ایک نہ چلی اور بابری مسجد شہید کردی گئی۔
جاوید حبیب کی ایک بڑی کمزوری یہ تھی کہ وہ اپنے نجی معاملات کو بھی کسی سے پوشیدہ نہیں رکھتے تھے۔ ہر سچائی کو بیان کرنا ان کی عادت تھی۔ اسی لئے انہوں نے نرسمہا راؤ اور اٹل بہاری باجپئی سے اپنے ذاتی تعلقات پر کبھی کوئی پردہ نہیں ڈالا۔ یوں تو انہیں وی پی سنگھ اور چندر شیکھر سے بھی قربت حاصل رہی۔ لیکن جن دو وزیر اعظم سے تعلق کی بنیاد پر انہیں ڈھیروں الزامات کا سامنا کرنا پڑا وہ نرسمہا راؤ اور باجپئی ہی تھے۔
جاوید حبیب کو خودداری اور عزت نفس کا بہت پاس تھا اور وہ اپنے ذاتی مفاد کیلئے کسی کے آگے جھکنے کو تیار نہیں تھے۔ ’خد ااعتمادی اور خود اعتمادی‘ ان کا نعرہ تھا اور وہ ارباب اقتدار سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اپنے چند احباب کے ساتھ وہ وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی سے ملنے پی ایم ہاؤس گئے۔ اتفاق سے میں بھی اس وفد میں شامل تھا۔ جاوید حبیب نے باجپئی سے جس بے باکی اور جرأت مندی کے ساتھ مسلم مسائل پر گفتگو کی اس کی کوئی دوسری نظیر موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنے وزیر اعظم ہونے پرنازاں نہ ہوں حکومت تو اس ملک میں کھڑاؤ ں رکھ کر بھی چلائی گئی ہے۔ لیکن اگر مظلوموں، بے کسوں اور بے بس لوگوں کے حقوق غصب ہوں گے تو تاریخ کبھی آپ کو معاف نہیں کرے گی۔ اسی طرح کی گفتگو انہوں نے ایک مرتبہ وزیر اعظم چندر شیکھر سے بھی کی تھی، جس کا میں عینی گواہ ہوں۔
جاوید حبیب سیاست کی تمام باریکیوں کے نبض شناس تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی سیاست کی نذر کی۔ لیکن باضابطہ کسی پارٹی میں شامل نہیں ہوئے بلکہ ایک پریشر گروپ بنا کر اقتدار اعلیٰ کو اپنی بات ماننے پر مجبور کرتے رہے۔ اگر وہ چاہتے تو پارلیمنٹ کی رکنیت سے لے کر وزارت کی کرسی تک بہت آسانی سے پہنچ سکتے تھے۔ لیکن جاوید حبیب اقتدار کو ٹھوکر مارنے اور عوام کو گلے لگانے کے حامی تھے۔
جاوید حبیب کی ذہنی تربیت مفتی عتیق الرحمان عثمانی، ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی، مولانا محمد تقی امینی، مولانا افتخار فریدی جیسے بزرگوں اور مولانا محمد مسلم اور جمیل مہدی جیسے صحافیوں نے کی تھی۔ وہ سب سے زیادہ انہی اکابرین سے متاثر تھے۔ ان کی شخصیت اور کردار میں بلا کی کشش تھی۔ اعلیٰ اخلاقی قدروں کی پاسداری ان کا شعار تھا۔ اچھے لوگوں سے ملنا تو عام بات ہے۔ جاوید حبیب برے اور بے کار لوگوں کو بھی گلے لگاتے تھے۔ ان کی شخصیت میں ان بزرگوں کا پر تو تھا جو انسان کو انسان کی حیثیت سے پرکھتے اور جانچتے ہیں۔ جاوید حبیب نے زندگی کے تجربات سے جو کچھ سیکھا اسے بے دریغ دوسروں تک پہنچایا۔ ان میں بخل اور تنگ نظری نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ جس کو کوئی ٹھکانہ نہیں ملتا تھا وہ جاوید حبیب کی کٹیا میں آرام کی نیند سوتا تھا۔ اونچی مسندوں پر بیٹھے ہوئے کئی لوگوں کو میں نے بارہا جاوید حبیب کی اس کٹیا میں سیاست میں کامیابی کے منتر سیکھتے ہوئے دیکھا۔
جاوید حبیب نے تمام زندگی اپنے اصولوں اور اعلیٰ انسانی اقدار سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ایک طرف جہاں وہ ملی معاملات میں معاملہ فہمی کا رویہ اختیار کرتے تھے، وہیں ذاتی معاملات میں وہ اصولوں پر سچے اور کھرے ثابت ہوتے تھے۔
جاوید حبیب کا سب سے بڑا وصف یہ تھا کہ وہ مشکل حالات میں براہ راست قرآن سے رہنمائی حاصل کرتے تھے اور اسوہ رسول کو اپنا شعار بناتے تھے۔ کتابوں میں نہج البلاغہ ان کی سب سے پسندیدہ کتاب تھی۔ ان کی بیٹھک میں دور حاضر کے بڑے بڑے سیاستداں، صحافیوں اور عالموں کے ساتھ بالکل عام آدمیوں کو بھی دیکھا جاسکتا تھا۔ انہیں کسی سے کوئی گریز نہیں تھا۔ وہ انسانوں کی قدر وقیمت کا تعین ان کے عہدے اور پہنچ سے نہیں کرتے تھے بلکہ اگر کوئی معمولی انسان ان سے رجوع ہوتا تھا تو وہ اسے بھی یکساں اہمیت دیتے تھے۔
جاوید حبیب نے علی گڑھ سے دہلی آکر سب سے پہلے مسلم یوتھ کنونشن کی داغ بیل ڈالی۔ وہ ملت کے نوجوانوں کو یکجا کرکے ایک ایسی زنجیر میں پرونا چاہتے تھے، جس کے ذریعے ان سے ملک و ملت کی فلاح کا کام لیاجاسکے۔ وہ ناکارہ سے ناکارہ آدمی کو کام میں لگانے کا ہنر جانتے تھے۔ ہفتہ وار ’ہجوم‘ کی اشاعت کے لئے انہوں نے صحافیوں اور قلم کاروں کو جو تربیت دی تھی اس نے ’ہجوم‘ کو اپنے دور کا مقبول اخبار بنا دیا۔ انہوں نے ٹاڈا قیدیوں کی رہائی کیلئے انتھک جدو جہد کی۔ طوبیٰ کالونی کی بازآباد کاری کا بیڑہ اٹھایا اور ہزاروں انفرادی لوگوں کے مسائل اپنی جیب خاص سے حل کئے۔ وہ ضرورت مندوں، غریبوں اور مسکینوں کو اپنا عزیز تصور کرتے تھے اور کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے تھے۔
جاوید حبیب کی شخصیت میں متانت، سنجیدگی اور بردباری کے ساتھ ساتھ بلا کی شوخی، بذلہ سنجی اور حس مزاح بھی تھی۔ بات میں بات پیدا کرنے کی ہنر انہیں خوب آتاتھا اور بگڑی ہوئی بات بنانا بھی وہ خوب جانتے تھے۔ یہ مضمون قلم بند کرتے وقت مجھے سرسید کے لئےخواجہ الطاف حسین حالی کا لکھا ہوا مرثیہ یاد آتاہے اور اسی کا ایک شعر میں اپنے محسن جاوید حبیب کی نذر کرتا ہوں:
تمہیں کہتا ہے مردہ کون، تم زندوں کے زندہ ہو
تمہاری نیکیاں زندہ، تمہاری خوبیاں باقی