مدارس میں معیاری اساتذہ کی کمی: مسائل اور حل

مدارس میں معیاری اساتذہ کی کمی: مسائل اور حل

از: ڈاکٹر سلیم انصاری

جھاپا، نیپال

مدارس اسلامیہ ہمیشہ سے علم دین کی ترویج و اشاعت کے اہم مراکز رہے ہیں اور مسلم معاشرے کی دینی اور اخلاقی تربیت میں ان کا کردار بے حد اہم رہا ہے۔ تاہم، جب ہم مدارس کی موجودہ صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں تو اکثر اہل مدارس کی یہ شکایت سامنے آتی ہے کہ معیاری اساتذہ مدارس کا حصہ نہیں بن رہے ہیں۔ یہ مسئلہ نہ صرف مدارس کی تعلیمی سطح کو متاثر کر رہا ہے بلکہ طلبہ کی علمی اور فکری تربیت پر بھی گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔ اساتذہ کے معیار میں کمی کی وجہ سے طلبہ کی استعداد کمزور ہو رہی ہے اور وہ جدید تعلیمی تقاضوں اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں، جو مجموعی طور پر دینی تعلیم کے نظام کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

چونکہ معیاری اساتذہ کی کمی مدارس کا ایک حقیقی اور سنگین مسئلہ ہے، اس لیے اس کے حل کے لیے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اساتذہ کی قلت کو پورا کرنے اور انہیں مدارس کی جانب راغب کرنے کے لیے مختصر مدتی اور طویل مدتی منصوبے تیار کرنے ہوں گے۔ قلیل مدتی اقدامات میں اساتذہ کی تربیت، ان کے لیے مراعات کی فراہمی، اور جدید تدریسی وسائل کا استعمال شامل ہو سکتا ہے۔ طویل مدتی منصوبے کے تحت مدارس کے نظام میں اصلاحات، معیاری تعلیم کی یقین دہانی، اور اساتذہ کے سماجی و مالی حالات میں بہتری کو یقینی بنانا ہوگا۔ صرف ان اقدامات کے ذریعے ہی ہم مدارس کو ان کے حقیقی تعلیمی مقام پر واپس لا سکتے ہیں اور ان کے معیار کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

معیاری اساتذہ کی کمی کے اسباب

مدارس میں معیاری اساتذہ کی کمی کے کئی اسباب ہیں، جن میں سب سے نمایاں مالی مسائل ہیں۔ مدارس کا زیادہ تر انحصار عوامی عطیات پر ہوتا ہے، جو عموماً محدود اور غیر یقینی ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اساتذہ کو وہ تنخواہیں نہیں دی جاتیں جو ان کی خدمات اور قابلیت کے شایان شان ہوں۔ یہ صورتحال اہل اور قابل اساتذہ کو دیگر بہتر مواقع کی تلاش پر مجبور کرتی ہے، جہاں انہیں مالی تحفظ اور دیگر سہولیات دستیاب ہوں۔ مدارس کے اساتذہ کے لیے منظم اور معیاری تربیتی نظام کی عدم موجودگی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اکثر مدارس میں اساتذہ کو ان کی تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر تعینات کر دیا جاتا ہے، لیکن انہیں تدریس کے جدید اصولوں اور مہارتوں کی تربیت فراہم نہیں کی جاتی۔ اس کی وجہ سے وہ عصری تقاضوں کے مطابق طلبہ کو تعلیم دینے میں ناکام رہتے ہیں، اور تعلیمی معیار متاثر ہوتا ہے۔

عصر حاضر کے تقاضے بھی مدارس میں معیاری اساتذہ کی کمی کا ایک اہم سبب ہیں۔ مدارس کے نصاب اور تدریسی طریقے عمومی طور پر قدیم اور روایتی ہیں، جو جدید تعلیم اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں۔ اس سے نہ صرف طلبہ کی تعلیم پر منفی اثر پڑتا ہے بلکہ اساتذہ کی کارکردگی اور معیار بھی متاثر ہوتا ہے، جو تعلیمی نظام کو مزید پسماندگی کی طرف لے جاتا ہے۔ اکثر مدارس کے ناظمین ایسے اساتذہ کو ترجیح دیتے ہیں جو ان کی رائے سے متفق ہوں اور ان کی ہاں میں ہاں ملائیں۔ نتیجتاً، ان اساتذہ کو وہ احترام اور عزت نہیں دی جاتی جس کے وہ مستحق ہیں۔ اس پیشہ ورانہ عزت اور آزادی کی کمی کی وجہ سے یہ پیشہ کم پرکشش بن جاتا ہے، اور بہت سے قابل اور اہل افراد اس میدان میں قدم رکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس صورت حال کا براہ راست اثر مدارس کے تعلیمی معیار اور طلبہ کے روشن مستقبل پر پڑتا ہے، کیونکہ معیاری اساتذہ کی کمی تعلیمی نظام کو کمزور کر دیتی ہے اور طلبہ کو مطلوبہ رہنمائی فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہے۔
مسئلے کے حل کے لیے مختصر مدتی منصوبے

مسئلے کے حل کے لیے مختصر مدتی منصوبے ترتیب دیے جا سکتے ہیں تاکہ موجودہ چیلنجز کا فوری ازالہ کیا جا سکے اور مدارس کے نظام میں بہتری لائی جا سکے۔ ان میں سب سے پہلے اساتذہ کی مالی معاونت پر توجہ دی جائے۔ مدارس کے اساتذہ کی تنخواہوں کو بہتر بنانے کے لیے عوامی مہمات چلانا ضروری ہے، تاکہ افراد دل کھول کر عطیات دیں اور اساتذہ کو معقول معاوضہ فراہم کیا جا سکے۔ اس سے نہ صرف اساتذہ کی معاشی مشکلات کم ہوں گی بلکہ ان کے کام کے معیار میں بھی بہتری آئے گی، اور وہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں بہتر طریقے سے نبھا سکیں گے۔

اساتذہ کی پیشہ وارانہ ترقی کے لیے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد بھی ایک مؤثر حل ہے۔ ان ورکشاپس کے ذریعے اساتذہ کو جدید تدریسی مہارتیں سکھائی جا سکتی ہیں، جیسے ٹیکنالوجی کا استعمال، طلبہ کو مؤثر انداز میں تعلیم دینا، اور موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق تدریسی طریقے اپنانا۔ یہ ورکشاپس اساتذہ کے علم اور صلاحیتوں میں اضافہ کریں گی اور ان کے تدریسی معیار کو بہتر بنائیں گی، جس سے مدارس کے طلبہ کو بھی براہ راست فائدہ ہوگا۔

مدارس کے ناظمین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قابل اور ماہر اساتذہ کو تدریسی عمل میں آزادی دینا ہی تعلیمی معیار کو بلند کر سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مدارس کے ناظمین کو جدید تعلیمی نظریات اور تدریسی مہارتوں کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے، تاکہ وہ اپنی ذاتی رائے کو مدارس کے وسیع تر مفاد پر ترجیح دینے سے گریز کریں۔ اساتذہ کے انتخاب کے عمل میں شفافیت اور میرٹ کو یقینی بنانا بھی اہم ہے، تاکہ ایسے افراد تدریسی خدمات کے لیے منتخب ہوں جو نہ صرف دینی و عصری تعلیم میں مہارت رکھتے ہوں بلکہ تخلیقی صلاحیتوں سے بھی مالا مال ہوں۔

اساتذہ کی عزت و توقیر کو فروغ دینے کے لیے مدارس کے اندر ایک ایسا ماحول پیدا کیا جائے جہاں اساتذہ کی رائے کو اہمیت دی جائے اور ان کے کام کی تعریف کی جائے۔ ان کے لیے مراعات اور انعامات کا نظام متعارف کروانا بھی ضروری ہے، تاکہ وہ محسوس کریں کہ ان کی خدمات کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، طلبہ، والدین اور عوام میں اساتذہ کی اہمیت اور مقام کو اجاگر کرنے کے لیے مہمات چلائی جائیں۔

نصاب کی جزوی اصلاح ایک اور اہم قدم ہو سکتا ہے۔ مدارس کے نصاب میں جدید مضامین، جیسے کمپیوٹر سائنس اور انگریزی زبان، کو شامل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ان مضامین کی شمولیت نہ صرف طلبہ کے لیے نئے مواقع پیدا کرے گی بلکہ اساتذہ کو بھی اپنے علم کو وسیع کرنے اور نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کا موقع فراہم کرے گی۔ اس طرح مدارس کا نظام تعلیم زیادہ مؤثر اور عملی بن سکتا ہے، جو طلبہ کو جدید دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے تیار کرے گا۔

طویل مدتی منصوبے

طویل المدتی منصوبے مدارس میں معیاری تعلیم اور تدریس کے معیار کو بلند کرنے کے لیے ایک جامع اور پائیدار حکمت عملی فراہم کرتے ہیں۔ ان منصوبوں میں سب سے اہم اساتذہ کی تربیت کے لیے خصوصی اداروں کا قیام ہے۔ ایسے ادارے قائم کیے جائیں جہاں مدارس کے اساتذہ کو جدید تدریسی مہارتیں سکھائی جائیں اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ ان کا امتزاج پیش کیا جائے۔ یہ تربیتی ادارے اساتذہ کو نہ صرف معیاری تدریس کے لیے تیار کریں گے بلکہ انہیں تعلیم کے بدلتے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ کریں گے۔

مدارس کی تنظیم نو ایک اور کلیدی قدم ہے۔ مدارس کو ایک مربوط تعلیمی نظام میں شامل کیا جانا چاہیے، جہاں حکومت یا معتبر تنظیموں کے تعاون سے نصاب، اساتذہ اور تعلیمی ڈھانچے میں بہتری لائی جائے۔ اس کے تحت مدارس کا نصاب ایسے تیار کیا جائے جو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کو بھی شامل کرے، تاکہ طلبہ کو دینی و دنیاوی دونوں میدانوں میں مہارت حاصل ہو سکے۔

اساتذہ کے لیے مراعات اور سہولیات کا نظام بھی ضروری ہے تاکہ تدریسی پیشے کو زیادہ پرکشش بنایا جا سکے۔ مدرسہ اساتذہ کو دیگر تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے مساوی تنخواہیں، طبی سہولیات، اور ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ یہ اقدامات اساتذہ کو اس پیشے میں برقرار رکھنے اور ان کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد دیں گے۔

عوامی شعور بیدار کرنا بھی ایک طویل المدتی مقصد ہونا چاہیے۔ معاشرے میں مدرسہ اساتذہ کی اہمیت اور ان کے کردار کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف مہمات چلائی جائیں۔ اس سے نہ صرف ان کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوگا بلکہ یہ عوام کو مدارس کے نظام تعلیم کی اہمیت سے بھی روشناس کرے گا۔

مدارس کے مالی استحکام کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔ اس کے لیے وقف املاک اور دیگر مستقل ذرائع آمدنی کا نظام قائم کیا جائے، تاکہ مدارس کو اپنی مالی ضروریات کے لیے بار بار عطیات پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ یہ مالی استحکام مدارس کو بہتر تعلیمی سہولیات فراہم کرنے اور تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے قابل بنائے گا۔

خلاصہ کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ مدارس میں معیاری اساتذہ کی کمی ایک سنگین مسئلہ ہے جو نہ صرف مدارس کے تعلیمی معیار بلکہ پوری امت مسلمہ کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ مدارس ہمیشہ سے اسلامی تہذیب و ثقافت کے تحفظ اور دینی علوم کی اشاعت کے مراکز رہے ہیں، لیکن اساتذہ کی کمی اور معیار میں گراوٹ نے ان کی بنیادی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔ اگر اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو اس کے نتائج نہایت منفی ہو سکتے ہیں، جس میں دینی و عصری علوم میں عدم توازن اور مسلم معاشرے کی تعلیمی پسماندگی شامل ہے۔

اس سنگین چیلنج کا حل کسی ایک فریق کی ذمہ داری نہیں بلکہ حکومت، مدارس کے منتظمین، عوام اور علماء کو مشترکہ طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مدارس کو مالی وسائل اور تربیتی سہولیات فراہم کرے، جبکہ مدارس کے منتظمین اس بات کو یقینی بنائیں کہ نصاب اور تدریسی طریقوں میں اصلاحات لائی جائیں۔ عوام کو مدارس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ان کی مالی اور اخلاقی معاونت کرنی چاہیے، اور علماء کو اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اساتذہ کی تربیت اور عزت و مقام کو فروغ دینا چاہیے۔

معیاری تعلیم کی فراہمی نہ صرف مدارس کے لیے بلکہ امت مسلمہ کے اجتماعی وقار اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ اس لیے اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ اور عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ مدارس اپنے اصل مقصد یعنی دین و دنیا کی ہم آہنگ تعلیم فراہم کرنے میں کامیاب ہو سکیں اور مسلم معاشرہ ایک مضبوط علمی بنیاد پر ترقی کر سکے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: