تفویض امانت میں "اہلیت” اور "عدل” اصل ہے

تفویض امانت” میں "اہلیت” اور "عدل” اصل ہے

✍ سید احمد اُنیس ندوی

اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَاۙ-وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِؕ-اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا

یہ وہ نصیحت ہے جو رب ذو الجلال نے اپنے ماننے والوں کو کلام ہدایت کے واسطے سے عطا فرمائی ہے۔ اس نصیحت کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی بھی امانت کی ادائیگی کے وقت ہر حال میں "اہلیت” پیش نظر رہنی چاہیے، اور اس حکم سے بالکل متصل ہی فوراً خدا تعالی نے "انصاف” کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنے کی بھی خاص تاکید فرمائی ہے۔ ان نصیحتوں کے بعد اللہ تعالی نے اپنی صفات عالیہ "سمیع” و "بصیر” کا بھی ذکر فرما دیا تاکہ ان صفات کا استحضار ہر قسم کی حق تلفی سے بچنے میں معاون ہو سکے۔

خوب یاد رکھیے ! "امانت” ایک عظیم لفظ ہے۔ قرآن مجید میں لفظ "امانت” بڑی وسعتوں کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں یہ لفظ آیا ہے، وہاں اس کے متعدد معانی بیان کیے جا سکتے ہیں اور تفسیر کرتے ہوۓ قرآن مجید کے الفاظ کا حسن اور اعجاز بہت تفصیل سے پیش کیا جا سکتا ہے۔

موجودہ دور میں اسی آیت کے پیش نظر یہ تفصیلی بحث بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کہ معاشرے میں مختلف موقعوں پر انفرادی یا اجتماعی حیثیت سے ہم سب کو "تفویض امانت” کے مختلف مواقع پیش آتے ہیں۔ اور ان مواقع پر ہی ہماری نفسانیت کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ "تفویض امانت” میں "دیانت” کا لحاظ رکھنا ہی اصل دین ہے۔ جب ہم کسی بڑے عہدے اور منصب پر ہوتے ہیں تو ایسے متعدد مواقع ہمارے سامنے آتے ہیں جب خود ہمارے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ ہم کسی دوسرے منصب یا عہدے کے لیے فرد یا افراد کا انتخاب کریں۔ کبھی یہ ذمہ داری کسی فرد واحد کی ہوتی ہے اور کبھی چند افراد اس کے لیے مقرر ہوتے ہیں۔ مدارس کے ذمہ داران, خانقاہوں کے سجادگان اور تنظیموں کے عہدیداران کے سامنے مسلسل یہ مواقع آتے رہتے ہیں۔

تعلیمی اور ملی اداروں میں مناصب, عہدے اور مختلف ذمہ داریوں کی تقسیم تک یہ تمام امور "تفویض امانت” کے اہم مواقع ہوتے ہیں۔ ایسے مواقع پر قرآنی ہدایات کو بڑی مضبوطی سے تھام لینے کا حکم ہے۔ قرآن مجید نے "تفویض امانت” میں "اہلیت” کا لحاظ رکھنے کے ساتھ ہی "عدل” کا تذکرہ یوں ہی نہیں کر دیا، بلکہ بظاہر اس کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ بعض مرتبہ "اہلیت” متعدد مقامات پر نظر آ سکتی ہے, تو پھر ان تمام مقامات کے درمیان شرعی, فطری اور "عرف” کے تمام ضروری تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر بالکل "عدل” کے ساتھ ہی کوئی فیصلہ ہونا چاہیے۔ تفویض امانت کے وقت ادارے کی تاریخ, اس کی حیثیت اور اس کے ساتھ فکری, عملی اور انتظامی ربط رکھنے والوں کا سنجیدہ اور مخلصانہ تفقد ہونا چاہیے۔ کیونکہ تفویض امانت کے ذمہ داران اور فیصلہ کرنے والے عند اللہ تو جواب دہ ہوں گے ہی کہ انھوں نے "اہلیت” اور "عدل” کو ملحوظ رکھا یا پھر ان سے کچھ کوتاہی ہوئی، بلکہ ساتھ ہی ایک باشعور اور زندہ معاشرے میں عند الناس بھی ان کی جواب دہی طے ہو سکتی ہے۔

ذرا عقلی نقلی اور عرفی اعتبار سے غور کر کے بتائیے کہ خالص ملی اداروں میں دہائیوں سے خدمات انجام دینے والے اور سیکڑوں ہزاروں قدیم فضلا و فارغین کی موجودگی میں اہم اور بڑی ذمہ داریوں کے لیے اچانک ایک بالکل نئ شخصیت کا ورود کیا ان تمام تقاضوں کی تکمیل کرتا ہے ؟ یا پھر صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس ورود مسعود میں خاندانی وجاہت اور اثر و رسوخ کا گہرا اثر ہے ؟ اگر عالمی اداروں میں لیاقت و صلاحیت کا اس قدر فقدان ہے تو پھر تو ہم کو اپنے پورے نظام پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم تو عالمی اعتبار سے قیادت و صلاحیت کرنے والے افراد پیدا کرنے کے دعویدار تھے، مگر افسوس ہمارا پورا نظام چند ایکڑ پر مشتمل اداروں کا "منتظم” اور "منصرم” پیدا نہیں کر پا رہا ہے۔

"تفویض امانت” کے وقت ذرا اپنے دل سے، اپنے ضمیر سے ضرور پوچھ لینا چاہیے کہ کیا واقعی ہم نے یہ فیصلہ کرتے ہوۓ "اہلیت” اور "عدل” دونوں احکامات کا اُس طرح مکمل پاس و لحاظ رکھا ہے جو اس موقع پر واقعی مطلوب تھا۔ یہاں تک کہ کسی بھی فیصلے کے بعد اداروں کی طرف انتساب رکھنے والے خواص و عوام بھی مختلف فیصلوں سے اتفاق اور اختلاف کی بنیاد ذاتی اغراض و مقاصد نہ بنا کر انہی دونوں احکامات کو پیش نظر رکھیں۔

ہمارے وہ دینی, تعلیمی اور ملی ادارے جن کو کسی فرد یا خانوادے نے محض اپنی ذاتی کوششوں سے تیار نہ کیا ہو، بلکہ اُن اداروں کی بنیادوں میں ملت کا خون پسینہ ہو، مختلف افراد اور مختلف خانوادے جس ادارے کی تعمیر و ترقی میں روز اول سے شریک ہوں، اور جو ادارے اپنی بِناء اور تاسیس کے بعد اُس وقت سے ہی دینی و تعلیمی خدمات ملت کی مختلف صلاحیتوں کے زیر نگرانی انجام دیتے آۓ ہوں اور جن کے دستور و منشور میں موسسین نے یہ واضح کر دیا ہو کہ یہ ادارے پوری ملت کے ہیں، تو وہ ادارے پھر واقعی ملت کی بہت ہی خاص "امانت” ہو جاتے ہیں، اور پوری ملت پر ان اداروں کا بھی ایک حق ہوتا ہے۔ اور پھر ان اداروں کی "تولیت” کا اصل مقصد ادارے کے بانیان اور موسسین کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنا ہوتا ہے۔ ان اداروں کے ذمہ داران اور ارکان شوریٰ پر ایک بڑی عظیم دینی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ان اداروں سے تعلق رکھنے والے قدیم و جدید فضلا پر بھی ادارے کے کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں، جن میں ایک حق اس ادارے کی سالمیت و بقا بھی ہے اور ساتھ ہی اس ادارے کے مقاصد کی تکمیل بھی ہے۔ اس ادارے کی طرف نسبت رکھنے والوں کو دور رہ کر بھی اس ادارے سے تعلق رکھنا چاہیے, اور ہر قسم کی خیر خواہی کا معاملہ کرنا چاہیے۔

واقعہ یہ ہے کہ ہر ادارے کی ترقی میں قربانی دینے والوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے۔ کوئی بھی ادارہ عالمی سطح پر محض کسی فرد خاص یا چند افراد کی وجہ سے اپنی شناخت قائم نہیں کرتا، بلکہ اس کے پیچھے قربانی دینے والوں کی ایک طویل تاریخ ہوتی ہے۔ اس ادارے پر ان سب کا برابر حق ہوتا ہے۔ یقینی طور پر خدمات کے دائرے الگ ہو سکتے ہیں، یا خدمات کی مدت کم اور زیادہ ہو سکتی ہے، لیکن اس کی وجہ سے ادارہ کسی خاص فرد یا افراد کا ہی نہیں رہ جاتا, بلکہ ادارہ پھر بھی”ملت” کا ہی رہتا ہے۔

آج صورت حال بڑی افسوسناک ہوتی چلی جا رہی ہے۔ عملی طور پر ایسے اقدامات سامنے آتے ہیں جن سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ پورے پورے ادارے نتیجے کے اعتبار سے بالکل بے سود اور بے کار ہیں۔ وہ افراد سازی کا فن بھول چکے ہیں۔ وہاں لیاقت اور صلاحیت کا مکمل فقدان ہے۔ مخصوص نسبتوں یا مضبوط back ground سے تعلق نہ رکھنے والے ہزاروں اور لاکھوں فارغین یا کارکنان کا بس ایک طے شدہ دائرہ کار ہے، اور وہ اُس دائرے سے باہر نکل ہی نہیں سکتے۔ نہ قیادت و سیادت کے علم بردار ان کو اس کی اجازت دیتے ہیں اور نہ وہ خود اس بارے میں سوچ پاتے ہیں۔ اسی نامناسب طرز عمل کو درست کرنے کے لیے عجیب عجیب تاویلیں پیش کی جاتی ہیں۔ سب سے بڑا خلط یہ کیا جاتا ہے کہ ذاتی اور انفرادی زندگی کی پاکیزگی اور نیکی کو (جس میں کوئی شک و شبہ نہیں) اداروں کے اجتماعی اور تنظیمی امور کی لیاقت و صلاحیت کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔

اداروں کے انتظام و انصرام کے حوالے سے اپنے ممدوحین کی نیک نامی اور دیانت داری کا اس طرح بار بار تذکرہ کیا جاتا ہے کہ ادارے کے دیگر منتسبین خود اپنی دیانت پر بھی شک کرنے لگتے ہیں۔

تفویض امانت کے موقعوں پر ایسے تمام تحفظات کا واہمہ کھڑا کیا جاتا ہے جن کے سہارے اپنے طے شدہ نظام اور مستقبل کے پروگرام میں کہیں کوئی خلل واقع نہ ہونے پاۓ۔ ایک واہمہ یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ فلاں نسبت کے بغیر کسی دوسری شخصیت پر اتفاق نہیں ہوگا۔ تو یاد رکھیے کہ یہ فکر و نظر میں حد درجے تنگی اور شعور کی ناپختگی کی علامت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کے اداروں کا نہ کوئی منشور باقی ہے, نہ دستور سلامت ہے۔ پھر تو یہ طلسم ہر نۓ دن کے ساتھ اپنی گرفت مضبوط کرتا چلا جاۓ گا, اور وہ وقت بھی آۓ گا کہ آپ اساطین علم و فضل کے مقابلے مخصوص نسبتوں کے حامل چھوٹے بچوں کو بھی ترجیح دیتے نظر آئیں گے, اور دلیل کے طور پر صرف یہی بات ہوگی۔

پھر مزید ایک تعداد وہ بھی ہوتی ہے جو اپنے ممدوحین سے بھی آگے بڑھ کر سوچتے ہیں۔ وہ دنیا سے لے کر آخرت تک تمام مسائل کا حل فلاں مسئلے میں فلاں سے "اتفاق” کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں، اور سنجیدہ تنقید پر بھی قسم قسم کی "وعیدیں” سناتے ہیں۔ ان کے نزدیک کسی ادارے سے تعلق اور خیر خواہی کا مطلب اس کے منتظمین کی ہر بات پر امنا و صدقنا اور سمعنا و اطعنا کا عملی نمونہ بن جانے میں ہے, ورنہ آپ ادارے کے بد خواہ شمار کیے جاتے ہیں۔

تفویض امانت میں اہلیت اور عدل کا حکم بڑی حکمتوں سے بھرا ہوا ہے۔ خوب یاد رکھیے ! اہلیت اور عدل کا لحاظ نہ رکھنے کی صورت میں لوگوں کے اندر تنفر اور بیزاری پیدا ہوتی ہے۔ آج کل کے لحاظ سے "سمجھدار” لوگ معتبر مجلسوں میں اور بند کمروں میں اس تنفر اور بیزاری کا ذکر کرتے ہیں، اور حکمت و مصلحت کے پیش نظر دل کی بات دل میں ہی رہنے دیتے ہیں۔ وہ شاید اس حقیقت کو جان لیتے ہیں کہ دل کی بات زبان پر لانے سے سواۓ نقصان کے اور کچھ ہاتھ نہ آۓ گا۔ بلکہ جو کچھ پایا ہے وہ بھی ہاتھ سے چلا جاۓ گا۔ اور "کچھ لوگ” وہ دل کی باتیں کہہ دیتے ہیں اور پھر "مطعون” ہوتے ہیں, محروم ہوتے ہیں۔ ہاں اگر کہنے والا بغیر کسی بنیاد اور دلیل کے کوئی غلط بات کہے یا کسی بھی مسلمان کے لیے تحقیر اور تذلیل کا انداز اختیار کرے تو یہ صورت قابل مذمت ہے۔

لیکن دوسری طرف یہ احساس بھی کم بُرا نہیں کہ ہم کو اپنی مرضی سے جو فیصلہ لینا ہوگا وہ لیں گے, ہم پر کسی کی بات کا کیا فرق پڑے گا، چند دن شور و غوغا ہوگا پھر ہر طرف رضامندی یا پھر خاموشی کے مظاہر و مناظر ہوں گے۔
لوگ عجیب قسم کے طلسم میں مبتلا ہیں۔ یہ بات تو بڑی حیران کن ہے کہ حاملین کتاب و سنت بھی یہ سمجھنے اور سمجھانے لگیں کہ دین اور دین کا کام کسی خاص علاقے, کسی خاص مقام یا کسی خاص شخصیت اور خاندان کے ساتھ اس طرح مربوط ہو چکا ہے کہ اُس مقام یا شخص کے بغیر وہ دین کا کام ختم ہو جاۓ گا یا متاثر ہو جاۓ گا۔ یہ سراسر واہمہ اور فرضی خیال ہے جو عقلی و نقلی دلائل سے خالی ہے۔ رسول اکرم ﷺ کے دور مبارک سے لے کر خلفاۓ راشدین کے ادوار تک آپ کو اس کی متعدد مثالیں ملیں گی کہ ایسا کوئی طلسم ذرا دیر بھی قابل برداشت نہیں تھا۔ دورانِ خطبہ بر سر منبر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی معزولی میں حکمتِ فاروقی بہت اہم راز سے پردہ اٹھانے کے لیے کافی ہے۔

اسی طرح یہ بات بھی بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ ادارے لیاقت و صلاحیت سے محروم ہیں۔ ظاہر ہے کہ صلاحیتیں اس وقت ظاہر ہوتی ہیں یا نکھرتی ہیں جب اہلیت اور عدل کے ساتھ ان کو مواقع دیے جائیں۔ مواقع نہ ملنے کی صورت میں تو صلاحیتوں کا ضائع ہونا بالکل یقینی ہے۔

مجھے امید ہے کہ مختلف دینی اور تعلیمی اداروں سے وابستہ ذمہ داران حضرات ان معروضات پر ضرور غور و فکر فرمائیں گے اور منتسبین بھی ذرا بیدار مغزی کے ساتھ صورت حال کا منصفانہ تجزیہ کریں گے تو ان شاء اللہ بہت سی باتیں واضح ہوتی چلی جائیں گی۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: