احتجاج بھی عدم اتحاد کا شکار

احتجاج بھی عدم اتحاد کا شکار

از:- شاہد عادل قاسمی ارریہ

ملک میں ہر سو احتجاج کا شور ہے، ملی قیادت کا زور ہے،سیاسی رہ نماؤں کا واویلا ہے،عوام کابھی احتجاج گاہ میں بول بالا ہے لیکن اس کے باوجود ملی تنظیموں پر فاتحہ پڑھنے کی خواہش ہورہی ہے اب اس فاتحہ خوانی پر میرا موقف کہاں تک درست ہے وہ صالح بصیرت اور پاکیزہ بصارت کے حوالے ہے،مجھے اس پر انعام ملے یا الزام سے دامن کو تارتار کیا جاۓ انھیں اختیار ہے،سبھی واقف ہیں کہ وقف ترمیمی قانون پر ملک کا ایک سمودایک سراپا احتجاج ہے،سردی،گرمی اور برسات کے سیزن میں بھی ملک کی گلی کوچوں تک میں احتجاج کا علم بلند کیےہوا ہے لیکن ہماری کچھ ملی تنظیمیں اور ملی راہ بر ہیں جو آج بھی الگ راہ کے مسافر اور جدا طرز عمل کے عامل بنے ہوۓ ہیں،کچھ جبہ دستار کے لبادے میں سیاسی بازی گروں کے لیے مانند اسلحہ ہیں تو کچھ مفاد پرست سیکولر چہروں کی میک آپ کے لیے باعث سرمایہ ہیں،کجھ اپنی پگڑیوں کی شان بڑھانے میں مصرف عمل ہیں تو کچھ دوسروں کی ناک زمین پر رگڑنے کی ترکیب سوچ رہے ہیں،ملت کا عظیم سرمایہ جب گٹ بندی اور جماعت بندی کا شکار ہوگاتو نتیجہ کیسا اخذ ہوسکتا ہے درست افکار کے حامل سمجھ سکتے ہیں،ملی تنظیموں کی ایسی کج روی اور دوہری چرتر شاید ماضی میں کبھی نہیں رہی ہے اور نہ ہی ملی سربراہان کا کبھی ایسا متنازع عمل رہا ہے،کردار، گفتار،اقوال،اعمال اور افعال میں یکسانیت کا درس دینے والا جب خود متضاد ڈگر کا سواری ہوگا تو انجام کیا ہوسکتا ہے سمجھا جاسکتا ہے،بات تو پھر وہی حجام کے دکان والوں کی ہوگی کہ “ہم دل کا بوجھ تو نہیں ہٹاسکتے ہیں البتہ سر کا بوجھ ہلکا ضرور کر سکتے ہیں “لیکن جب ہم جیسا کچھ سیاسی اور شطرنجی شدبدھ رکنھے والا مولوی مل جاۓ تو انھیں گھڑی ساز کی دکان کا وہ فقرہ یاد دلا سکتا ہے کہ “بھاگتے ہوۓ وقت کو اپنے بس میں رکھیں چاہے دیوار پر ٹانگیں یا ہاتھ پر باندھیں “اس دھمکی خیز جملہ سے ان صاحب جبہ کا کچھ بال بیکا نہیں ہوگا لیکن صبر کا چورن اور تحمل کا پاچک ضرور ہمیں مفت میں دیا جاۓ ،مگر “عاجز بلی کھمبا نوچے والی” کہاوت بھی سرپر سوار ہے ،اس لیے اس صبر اور ضبط کی تلقین پر انھیں پھل کے دکان داروں کے پاس پہنچایا جاۓ گا جہاں انھیں یہ بتا یا جاۓ گا کہ “آپ ہی صبر کر لیں پھل تو ہم خود ہی دیدیں گے” ۔

اس معنی خیز اور تھریٹنگ انداز پر بھی آپا کھونے کی امید نہیں ، کرسئ صدارت وسیادت سے الگ ہونے کی بھی کوئ آشا نہیں اس لیے حیلہ،حوالہ اور مصلحت ودوراندیشی کا پاٹھ پڑھایا جاۓ گا ،جسے ہم جیسوں کا دل ودماغ ہرگز قبول نہیں کرے گا بل کہ انھیں ایک الیکٹرانک دکان پرلے جانے پر مجبور ہونا پڑےگا، جہاں انھیں سرخ بورڈ پر یہ اعلان آویزاں ملے گا کہ “تمہارے دماغ کی بتی جلے نہ جلے ہمارا بلب ضرور جلے گا”
اس کس مپرسی کے دور میں جہاں ہمارے حقوق، عقائد، معابد اور اوقاف پر نظر بد کا پہرہ ہو،جہاں ہماری شناخت اور ہماری مسلکی ومشربی آئیدیالوجی پر حملہ ہو،جہاں ہماری آزادی اور ہماری نجی زندگی پر قدغن لگے اس کے باوجود ہم انتشار کے منھ میں جا پہونچیں ،ہمارا اتحاد اور ہماری یونائٹی پر خطرہ ہو ،بھلا ہم کیسے کسی لڑائ کو اپنے نام کر سکتے ہیں یا کسی فتح یابی کی منزل پر براجمان ہوسکتے ہیں؟ایسے حالات میں انھیں ہمیں دانت کے ڈاکٹر کی کلینک پر لے جاکر ڈاکٹر صاحب کے کتبے کا درشن کرانا ہوگا جہاں ڈاکٹر صاحب یوں گویا ہیں”دانت کوئ بھی توڑے لگا ہم ضرور دیں گے”۔

ملی تنظیموں کی اندورن خانہ جنگی صورت حال اب ظاہری پلیٹ فارم پر دھیرے دھیرے واشگاف ہورہی ہے،لوگ باگ ان تنظیموں کی حالیہ کارکردگی اور تنظیموں کے زمہ داروں کی حالیہ کردار سے بھی روبرو ہورہے ہیں ،ان کے احوال سے پردہ اٹھتا جارہا ہے،ایک ہی موضوع پر ایک ہی شہر اور ایک ہی قصبہ میں الگ الگ تنظیموں کے بینر تلے احتجاج کے مقصد کابھی پردہ فاش ہورہا ہے،تاریخی تغیر وتبدل سے حیدرآباد ہی نہیں دوسرا شہر اور دوسری ریاست بھی واقف ہوچکی ہے،سیاسی اتھل پتھل سے پٹنہ ہی نہیں دوسرا اسٹیٹ بھی آگاہ ہوچکا ہے،افطار بائیکاٹ کے حمایتی اور مخالفین کا چہرہ بھی بے نقاب ہوچکا ہے،احتجاج کی آر میں سیاسی روٹی سینکنے کی خبر بھی ملک بھر میں وائرل ہوچکی ہے،خود کی جماعت پر بھڑکنے اور بدکنے والے ملی مولاناؤں کی انعام واکرام والی نشریہ بھی نشر ہوچکی ہے،ان بڑبولے کو گول گپے کی دکان چلانے کی قدیم عادت ہواکرتی ہے، جہاں یہ بورڈ نصب ہوتا ہے کہ”گول گپے کھانے کے لیے دل بڑا ہونہ ہو منہ بڑا رکھیں اور پورا کھولیں “۔

ملت کی ایک بڑی تنطیم ہے جو حسن اتفاق سے ملت کا مشترکہ پلیٹ فارم ہے ،لیکن کچھ دنوں سے اسے بھی کوئ بری نظر لگ گئ ہے،جن کی کچھ کچھ حرکتیں اور کچھ اعمال سوالات کے گھیرے میں ہیں،جہاں سے کچھ کچھ ہوتے رہنا آج کل معمول سا ہورہا ہے،جہاں سے منسلک کچھ حضرات ہندی کی کتھا کتھتھ بھاشا سے سروکار رکھے ہوۓ ہیں،جہاں کی چوکھٹ کے سہارے کہیں سیندھ مارنے کی کوشش کررہے ہیں، جو کسی بھی اینگل سے درست نہیں ہے،بہار کی دھرتی اور ملک کی قدیم تنظیم امارت شرعیہ ان حرکتوں اور برکتوں سے آج کل کافی مستفید اور مستفیض ہورہی ہے،ایک ملی گھرانے کے دودودعویداروں سے ملت کا جنازہ کم ارتھی زیادہ نکل رہی ہے،ملت کی جگ ہنسائ اور سبکی سے شاید انھیں کوئ لینا دینا نہیں لیکن ملت کی ایک ٹؤلی اس قضیہ نامرضیہ پر کافی رنجیدہ اور شرمندہ ہے خدا خیر کرے۔

ملی تنظیموں میں موروثیت کا دبدبہ بھی عروج پر ہے،جمعیت،امارت،جماعت سے آگے بورڈ تک کی آب وہوا اس کا شکار ہوچکی ہے،آپسی دل پھٹے اور دماغ ہٹے والا فارمولہ بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہے،مشترکہ اسٹیج ساجھا سے اجتناب،مشترکہ پریس کانفنرس سے احتراز، آپسی نشست وقعود سے بے زاری والی کیفیت دنیا دیکھ رہی ہے،ایک دوسرے کے تئیں بغض وعنادکا بازار گرم ہی نہیں ہے بل کہ سازش اور سرزنش کا مکمل ماحول بنتا جارہا ہے،الزام،اتہام،بہتان اور خودستائ کی مارکیٹ سج چکی ہے،ملت کی خیرخواہی کے نام پر اپنی واہ واہی اور نام وری زیادہ سمجھ میں آرہی ہے اور اس کا آنکلن گدی پر بیٹھے ہم سبھوں کے زبانی ہمدرد اور منہ بولا مخلص بخوبی کررہا ہے جس کا انجام ہمارے سامنے ہے ،احتجاجی ماحول میں ہمارا اتحاد اتنا کمزور ہوگا شاید ہمارے آباواجداد کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں ہوگا ہوسکے تو کوئ انھیں یہ بتادے کہ
ہم ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوۓ تاروں سے کیا بات بنے

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔