قربانی، ماحول اور مسلمان: عبادت سے ذمہ داری تک

از:- مولانا مفتی محمد اعظم ندوی

دنیا آج 5 جون کو عالمی یومِ ماحولیات منا رہی ہے، 2025 کا تھیم ہے "پلاسٹک کی آلودگی کو شکست دو” Beat Plastic Pollution، سال رواں جنوبی کوریا اس کے مخصوص ایونٹ کی میزبانی کر رہا ہے، اور دنیا بھر میں ماحولیاتی ماہرین، طلبہ، حکومتیں اور ادارے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ہمیں اب پلاسٹک کے خلاف صرف احتجاج نہیں، بلکہ عملاً اقدامات کرنے ہوں گے؛ لیکن اس پورے عالمی منظرنامے میں ایک سوال اہم ہے: کیا صرف تھیم اور نعروں سے زمین بچ سکتی ہے؟ یا اس کے لیے روحانی بیداری، اخلاقی التزام، اور تزکیۂ نفس بھی ضروری ہے؟ جہاں مذہب کی بالا دستی اور خدا کا خوف غالب ہو، وہیں آخرت کا تصور اور جواب دہی کا احساس بھی ہوگا، ورنہ ہر کوشش سراب یا نقش بر آب ثابت ہوگی، یہی وہ نکتہ ہے جہاں اسلام اپنے ماحول دوست پیغام کے ساتھ سب سے آگے نظر آتا ہے، اسلام کا ماحولیاتی وژن محض ایک سائنسی نظریہ نہیں، بلکہ ماحولیاتی اخلاقیات environmental ethics کا ایک مکمل ضابطہ ہے، جو زمین کو "امانت” اور انسان کو "خلیفہ” قرار دیتا ہے، قرآن مجید کائنات کے ہر عنصر پر غور وفکر کی دعوت دیتا ہے، فرمایا گیا: "وَٱلۡأَرۡضَ مَدَدۡنَـٰهَا وَأَلۡقَیۡنَا فِیهَا رَوَ ٰ⁠سِیَ وَأَنۢبَتۡنَا فِیهَا مِن كُلِّ شَیۡءࣲ مَّوۡزُونࣲ” (الحجر: 19) (زمین کو ہم نے بچھایا، اور اس میں پہاڑ گاڑ دیے اور اس میں ہر چیز ایک مناسب مقدار میں اُگائی ہے)، یہ سب انسان کے لیے "آیات” ہیں، نشانیاں ہیں، شعور اور تسلیم کے راستے ہیں، اور توازن قائم رکھنے کی تعلیم ہے، اسلام میں پائیداری sustainability محض ایک ماحولیاتی اصطلاح نہیں، بلکہ عبودیت کی ایک شکل ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اگر قیامت قائم ہونے والی ہو اور تمہارے ہاتھ میں ایک پودا ہو، تو اُسے لگا دو (مسند احمد، مسند انس بن مالک، حدیث نمبر:12902)، یہ صرف ایک حدیث نہیں، بلکہ ایک ماحولیاتی شعور رکھنے والے فکری رویہ eco-conscious mindset کی عکاسی ہے، جسے اسلام صدیوں پہلے تشکیل دے چکا تھا۔

یہی شعور قربانی کے عمل میں بھی جھلکتا ہے، قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں، بلکہ انسانی ضمیر کو فطرت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا ایک مہذب، متوازن اور روحانی عمل ہے، قربانی ہمیں سکھاتی ہے کہ ماحولیاتی توازن ecosystem balance کیسے برقرار رکھا جائے، صرف وہی جانور ذبح کیے جائیں جو شرعی عمر کو پہنچ چکے ہوں، بیماری سے پاک ہوں، اور اس ذبح میں ریاکارانہ اسراف، ظلم، یا بے حسی شامل نہ ہو، ذبح کا عمل اس قدر منظم اور اخلاقی ہوتا ہے کہ اس سے ماحول کو نقصان پہنچنے کے بجائے ایک تربیتی پیغام دیا جاتا ہے—ایک ایسی عبادت جو قربانی کے گوشت سے زیادہ انسانی کردار کی تہذیب کا ذریعہ بنتی ہے؛ اسی لیے ذبح سے قبل، ذبح کے دوران اور بعد کے بے شمار آداب بتائے گئے ہیں جن کا تعلق مذبوح جانور سے بھی ہے، ذابح سے اور مذبح سے بھی۔

لیکن افسوس کہ ہم میں سے بہت سے لوگ اس عبادت کی روح سے غافل ہو چکے ہیں، قربانی کے دن اگر گلی کوچے، چوراہے اور نالیاں خون، آنتوں، اور اوجھڑیوں سے بھر جائیں، گندگی اور تعفن پھیل جائے، تو یہ قربانی نہیں بلکہ ماحول کے قتل کی تمہید ہوتی ہے، اسلام ہمیں صفائی کا حکم دیتا ہے، اور فضلات کا نظم waste management کے اصولوں پر زور دیتا ہے—بلکہ اس سے بھی آگے، "تطہیر” یعنی تطہیرِ باطن وظاہر کو عبادت کا جزو قرار دیتا ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا صدقہ ہے، اور آپ نے اپنے دست مبارک سے صفائی کا عمل انجام دے کر مثال قائم کی، پھر ہم قربانی کے بعد گلیوں میں گندگی پھیلا کر کس نبی کی سنت ادا کر رہے ہیں؟

آج کے عالمی تناظر میں جب دنیا پلاسٹک سے لڑ رہی ہے، ہم اس کا ساتھ دیتے ہوئے کیوں نہ اپنے رویے، بے حسی، لاپرواہی، اور شہری شعور کی کمی کو قربانی کی چھریوں کے نیچے رکھ دیں؟ اور دنیا کو پیغام دیں کہ اسلام نہ صرف ماحول دوست دین environment-friendly faith ہے بلکہ شہری ذمہ داری civic responsibility کا داعی بھی ہے، اگر قربانی کے بعد کھال سڑک پر پڑی ہو، گوشت کی باقیات کچرے میں گل سر رہی ہوں، یا پانی اور خون ایک ساتھ نالیوں سے بہہ کر شہر کو گندگی کا ڈھیر بنا دیں، تو یہ صرف اسلام کی بدنامی نہیں بلکہ اس ملک کے قوانین کی بھی پامالی ہے جس میں ہم رہتے ہیں، اکثر بلدیاتی ادارے ہدایات جاری کرتے ہیں، مخصوص مقامات متعین کرتے ہیں، صفائی کی مہم چلاتے ہیں—لیکن جب ہم اس میں شریک نہیں ہوتے، تو ہم قربانی تو کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی اپنی بے حسی اور غیر ذمہ داری کا ثبوت بھی پیش کرتے یں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ قربانی کا سب سے پہلا مرحلہ "حسن نیت” ہے—اگر نیت اللہ کی رضا، انسانوں کی خیر خواہی، اور زمین کی حفاظت ہے، تو پھر اس کے ہر مرحلے میں ماحولیاتی ذمہ داری eco-responsibility کا پہلو نظر آئے گا، جانور کا ذبح کرنا بھی، گوشت کی تقسیم بھی، اور باقیات کا نظم بھی—سب عبادت بن جائیں گے، ورنہ یہ سارا عمل ایک رسمی، بے جان، اور نقصان دہ کاروائی بن جائے گا، جس سے نہ زمین کو فائدہ ہوگا نہ آسمان سے قبولیت کی سند حاصل ہوپائے گی۔

ورلڈ انوائرمنٹ ڈے ہمیں صرف درخت لگانے، یا پلاسٹک کم استعمال کرنے کی تلقین نہیں کرتا، بلکہ وہ انسان کو اس کے مقامِ انسانیت کی یاد دہانی کراتا ہے، اور اسلام اس یاد دہانی کو عبادتوں کے ذریعے عمل میں ڈھالتا ہے، اگر ہم نے قربانی کو ماحول دوست، قانون دوست، اور شعور دوست عمل بنا دیا، تو ہم صرف ایک جانور کو نہیں ذبح کریں گے، بلکہ اپنی بے حسی، غفلت، اور خودغرضی کو بھی قربان کریں گے، اور یہی اصل مقصدِ قربانی ہے—اور اس سے نہ صرف اللہ کی قربت حاصل ہوگی، بلکہ اس کی مخلوق کے لیے خیر وفلاح کا حصول، اور زمین پر توازن کا قیام بھی ممکن ہوگا، اسی میں اسلام کی روح بھی پوشیدہ ہے، اور ورلڈ انوائرمنٹ ڈے کا اصل پیغام بھی۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔