کبیر داس: برہمنواد کا باغی اور محبت کا داعی

🖋 احمد نور عینی

استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد

آج ۱۱ جون (۲۰۲۵) کو کبیر جینتی منائی جا رہی ہے، کبیرداس پندہویں صدی کےایک انقلابی شاعر، سماجی مصلح ومفکر،اور محبت کے عظیم مبلغ گذرے ہیں، اترپردیش کی جلاہا ذات سے ان کا تعلق تھا، یہ ذات ماقبل اسلام زمانے سے ہی کپڑے بننے کا کام کرتی آرہی ہے، انھیں کوری کہا جاتا تھا، اسلام قبول کرنے کے بعد یہ جلاہا سے متعارف ہوئے، ادھر ماضی قریب میں انصاری سے موسوم ہوئے، شیخ انصاری سے امتیاز کرنے کے لیے انھیں مومن انصاری بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ذات اسلام قبول کرنے سے پہلے ہندو سماج میں نیچ اور کمتر سمجھی جاتی تھی، اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی سماجی حیثیت میں کچھ تبدیلی تو ضرور آئی مگر یہ سچ ہے کہ انھیں برابری اور عزت وافتخار کا وہ مقام نہ مل سکا جو اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر انھیں ملنا چاہیے تھا، کبیر نے ذات پات کی تفریق کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا اور اونچ نیچ کے جذبات کو اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کیا، سماج کی طبقاتی تقسیم اور ذات پات کی لعنت نیز ہندو مسلم تصادم کا حل تلاش کرنے اور انسانیت کی بنیاد پر انسانی سماج کو ایک دیکھنے کے لیے انھوں نے کافی غور وخوض کیا، انھیں ان سارے مسائل کا حل ایک لفظ ’محبت‘ میں ملا، اور کیوں نہ ہو کہ
ایک لفظ محبت کا اتنا سا فسانہ ہے
سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے
کبیر نے ذات پات اور برہمنواد پر کھل کر ہلہ بولا ہے اور جم کر حملہ کیا ہے۔برہمنیت پر وار کرتے ہوئے انھوں نے اپنے دوہوں میں برہمن لفظ کو استعمال کرنے سے کوئی گریز نہیں کیا۔

انھوں نے انسانیت اور مساوات کی قدر کو بہت زیادہ اہمیت دی، ان کے دوہوں کا مطالعہ کرنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے انسانیت، مساوات اور محبت کو اتنی زیادہ اہمیت دی کہ مذہب کی حیثیت ثانوی ہوگئی، جب کہ سچے مذہب اور ان اقدار میں کوئی تعارض نہیں ہوتا، مگر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کبیر کے نزدیک مذہبی وابستگی میں تصلب ایک منفی قدر ہے، اس سے دو مذہب کے ماننے والوں کے بیچ دیوار اٹھتی ہے اور دراڑ پڑتی ہے، اسی وجہ سے کبیر وحدت دین کے بجائے وحدت ادیان پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔کبیر کے تصور مذہب سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا، لیکن جس مقصد کے لیے انھوں نے یہ تصور اپنایا وہ مقصد یقینا بہت اہم ہے، وہ مقصد ہے انسانوں کے درمیان مساوات قائم کرنا، نفرت کی دیواریں گرانا، محبت کی شمع جلانا، ذات پات کا خاتمہ کرنا،طبقاتی نظام کو زمین بوس کرنا اور ہندو مسلم دونوں قوموں کے بیچ کی خلیج پاٹنا۔
کبیر نے پوری زندگی پریم کے دیپ جلائے، اور جہاں روشنی کی کمی ملی وہیں اک چراغ جلا دیا۔ کبیر کے چراغ سے کئی چراغ جلے، سماج ان کی تعلیمات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا، دیکھتے ہی دیکھتے ان کا ایک ’پنتھ‘ بن گیا۔ کبیر کی پوری تحریک برہمنواد کے خلاف تھی، برہمنواد یہ سب ٹھنڈے پیٹوں کیسے برداشت کر سکتا تھا، اس نے جب دیکھا کہ اس شخصیت کا دائرۂ اثر بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اس کو دبانا آسان نہیں ہے تو اس نے اپنی پالیسی کے مطابق کبیر کو برہمنوادی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی، اور وہ اپنی کوشش میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوا، اس نے کبیر کو برہمنوادی مفاد میں استعمال کرنے کے لیے ایک افواہ تو یہ پھیلائی کہ کبیر خود برہمنی کے شکم سے پیدا ہوئے، اور یہ چوں کہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اس لیے ان کی ماں نے بدنامی کے ڈر سے انھیں تالاب کے کنارے پھینک دیا، پھر انھیں مسلم جولاہے خاندان کے ایک جوڑےنے اٹھا کر اپنی پرورش میں لیا۔ یہ پوری کہانی گھڑی ہوئی ہے، اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، اور اس کہانی سے خود کبیر کی بے عزتی ہوتی ہے، برہمنواد نے یہ پوری کہانی یہ ثابت کرنے کے لیے گھڑی کہ کبیر نسلا برہمن تھے، اور کبیر کے ذریعہ جو اتنا بڑا سماجی اصلاح کا انقلاب برپا ہوا وہ ایک برہمن نے ہی برپا کیا تھا۔برہمن کے دماغ نے زیب داستاں کے لیے جو یہ بے بنیاد حکایت گھڑی ہے اس کے جواب کے لیے وہ دوہے کافی ہیں جن میں کبیر نے اپنے کو جلاہا کہا ہے، مثلا وہ کہتے ہیں:
جاتی جلاہا نام کبیرا، اجہو پتیجو ناہی(گرنتھاولی: 270)
ایک دوہے میں وہ برہمن کو مخاطب کر کے کہتے ہیں:
تو برہمن میں کاسی کا جلاہا، چینہ نہ مور گیانا (گرنتھاولی: 250)
اگر کبیر برہمن نسل کے ہوتے تو وہ یوں کہتے کہ تو اگر برہمن ہے تو میں بھی برہمن ہوں، اور کوئی عام برہمن نہیں؛ کاشی کا برہمن ہوں، بجائے اس کے وہ کہتے ہیں کہ تو اگر برہمن ہے تو میں کاشی کا جلاہا ہوں۔
کبیر کو برہمنوادی رنگ میں رنگنے اور ان کی تعلیمات کی انقلابیت پر زد لگانے کے لیے برہمنواد نے جو دوسرا کام کیا وہ یہ کہ کبیر کو برہمن گرو رامانند کا چیلا (مرید) بتایا، اور اس کے لیے بھی ایک خوبصورت حکایت گھڑی جس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، اور اس دعوی کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ان کا یہ دوہہ پیش کیا جاتا ہے کہ ’’ کاشی میں ہم پرکٹ بھییے، رامانند چیتائے‘‘۔ یہ دوہہ بہت مشہور کیا گیا، اور اس بنیاد پر کبیر کے رامانند کے چیلا ہونے کی بات اتنی زیادہ چلائی گئی کہ وہ ایک حقیقیت کے طور پر قبول کرلی گئی، اورکبیر پر لکھنے یا بولنے والا یہ مان کر چلتا ہے کہ کبیر داس ویشنوی گرو رامانند کے چیلے تھے۔ جہاں تک اس دوہے کی بات ہے تو یہ دوہہ کبیر کی شاعری کے مستند مراجع میں نہیں ملتا ہے، کبیر کے دوہوں کے دو ہی مستند مراجع ہیں: ایک گرو گرنتھ صاحب، دوسرے کبیر گرنتھاولی۔ رامانند والا دوہہ ان دونوں میں نہیں ملتا۔
اور جہاں تک تعلق ہے اس بات کا کہ کبیر نے رامانند سے رام نام لیا تھا، تو اس کے لیے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ آیاکبیر کی ملاقات رامانند سے ہوئی بھی ہے یا نہیں، ملاقات کے ثبوت پر کوئی دلیل نہیں ملتی، اگر معاصرت کو ملاقات کے امکان کے لیے کافی مان لیں تو بھی یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ رامانند کی حیات میں کبیر اس عمر کو پہنچ گئے تھے جس عمر میں نِرگرو ہونے (بے پیری کے رہنے) کا احساس انسان کو بے چین رکھتا ہے اور سچے گرو کی تلاش میں وہ سرگرداں رہتا ہے۔ رامانند کے سن وفات اور کبیر داس کے سن پیدائش دونوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، پھر بھی اگر ہم رامانند کی وفات کو کھینچ تان کر ۱۴۶۷ء تک لے کر جائیں اور کبیر داس کی پیدائش کو کھینچ تان کر ۱۴۵۶ء تک لے کر آئیں تو بھی رامانند کے انتقال کے وقت کبیر داس کی عمر ۱۱؍ سال کی ہوتی ہے، اور پیری والی داستان اس عمر کو زیب نہیں دیتی۔ اور اگر ہم رامانند کی وفات کے تعلق سے دوسرے اقوال لے لیں تو ان کی وفات کبیر کی پیدائش سے قبل ہی ہو جاتی ہے۔

تاریخی پہلو کے علاوہ اگر ہم نظریاتی وفکری پہلو سے غور کریں تو دونوں کے راستے واضح طور پر جدا نظر آتے ہیں، بنیادی بات یہ ہے کہ رامانند ورن آشرم دھرم کو سماجی نظام میں اساسی حیثیت دیتے ہیں، جب کہ کبیر داس اس نظام کی جڑیں کھودتے ہیں، اسی طرح رامانند مورتی پوجا کا عقیدہ رکھتے ہیں ، اوتار واد کو تسلیم کرتے ہیں، وید کو مقدس مانتے ہیں، ویدک دھرم کے پر جو ش مبلغ ہیں، ذات واجب الوجود ہستی کو سگن اورساکار مانتے ہیں، جب کہ کبیر مورتی پوجا کا کھنڈن کرتے ہیں، اوتار واد کا انکار کرتے ہیں، وید پر سخت تنقید کرتے ہیں، ویدک دھرم کے سخت مخالف وناقد ہیں، خدا کو نراکار مانتے ہیں۔ ہاں رام کا ذکر کبیر کے یہاں ملتا ہے، جس سے ان کا رشتہ رامانند سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس طور پر کہ رامانند ویشنوی فرقوں میں اس فرقہ کے گرو مانے جاتے ہیں جو رام کی محبت، عقیدت اور عبادت پر زیادہ زور دیتا ہے، مگر غور کرنے پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کبیر کے رام اور رامانند کے رام میں فرق ہے، کبیر کا رام نرگن نراکار ہستی ہے، جب کہ رامانند کا رام سگن برہم وشنو دیوتا کا اوتار ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسا چیلا ہے جو اپنے گرو کے راستے کو نہ اپنا سکا اور یہ کیسا گرو ہے جو اپنے چیلے کو اپنے راستے پر نہ لگا سکا۔ یہاں اس بات کا ذکر بے فائدہ نہ ہوگا کہ کبیر کو رامانند کا چیلا بتانے سے برہمنواد کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ بھکتی تحریک کا بہ آسانی برہمنی کرن کر دیا گیا۔

بھکتی تحریک ذات پات اور انسانی عدم مساوات کے خلاف شروع ہوئی تھی، وہ صوفی تحریک سے واضح طور پر متاثر تھی، اور صوفی تحریک اسلامی تعلیمات کا نتیجہ تھی، یعنی بھکتی تحریک اس ملک میں اسلام کی آمد سے پیدا ہونی والی ایک مثبت تبدیلی تھی، یہ اگر کامیاب ہوجاتی تو صوفی تحریک کی لگائی کھیتی لہلہا اٹھتی اور برہمنواد کا نشیمن بلکہ سارا گلشن خاکستر ہوجاتا، اس لیے اس کو بے اثر کیے بغیر برہمنواد چین کی نیند نہیں سو سکتا تھا، بے اثر کرنے کے لیے اس نے جو حربہ اپنایا وہ یہ کہ اس نے بھکتی تحریک کے سنتوں کو برہمن گرووں کا مرید بنا دیا، اور ان کے فرمودات میں برہمنی دیوی دیوتا اور سناتنی معتقدات گھسا دیے، یوں جس تحریک کے سہارے شودر اور اتی شودر سماج سے آنے والے سَنتوں نے دبے کچلے مولنواسی سماج کو برہمنواد سے آزادی کے لیے بیدار کیا اس تحریک کو برہمنواد نے سنتوں کے برہمن کرن کے ذریعہ اپنی گود میں تھپکی دے کر سلا دیا۔

خزینۃ الاصفیاء میں کبیر کے بارے میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ وہ شیخ علی متقی کے مرید تھے، (دیکھیے محولہ کتاب: ۱/۴۴۶)۔ یہ بات مشہور تو ہے مگر اس کی استنادی حیثیت کیا ہے اس بابت قبل از تحقیق کچھ کہا نہیں جا سکتا۔کبیر کے مسلم سماج سے ہونے بلکہ موحد ہونے میں کوئی شک نہیں، البتہ یہ بات محتاج تحقیق ہے کہ کیا ان کا عقیدۂ توحید عین اسلامی عقیدۂ توحید ہی تھا یا اس سے کچھ مختلف تھا، اسی طرح کیا کبیر دیگر اسلامی عقائد کو بھی اسی طرح مانتے تھے جس طرح انھیں ماننے کا حکم ہے یا ان کی ایمانیات کچھ الگ تھیں۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ کبیر کو ملحد یا گمراہ مان لیا جائے، وہ چوں کہ مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اس لیے جب تک ان کے مسلمان نہ ہونے کی یا غیر اسلامی عقائد کے حامل ہونے کی کوئی بات تحقیق کے ساتھ ثابت نہیں ہوجاتی تب تک ان کی تکفیر یا تضلیل سے احتراز کیا جانا چاہیے۔ ہاں ان کی طرف جو کلام منسوب ہے اس میں اگر کوئی بات خلاف اسلام ملتی ہے تو اس بات پر نکیر ضرور کی جانی چاہیے۔
کبیر داس کی زندگی اترپردیش کے کاشی (بنارس) اور مگہر میں گذری، ان کا مزار مگہر (ضلع سنت کبیر نگر) میں آمی ندی کے کنارے واقع ہے، مزار کے بازو میں ہی ان کی سمادھی بھی بنی ہوئی ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔