مولانا عبدالحمید نعمانی
گزشتہ کچھ دہائیوں سے اسلام کے خصوصی معاشرتی شرعی احکام کو ایک سوچ کے تحت مسلم پرسنل لاء کا نام دے کر ان کے متعلق مختلف عدالتوں سے ایسے فیصلے تسلسل کے ساتھ صادر کیے جا رہے ہیں، جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی فقہ اور اسلامی خصوصی معاشرتی احکام کو مطلوبہ معیار و درجے میں رکھ کر نہیں دیکھا جا رہا ہے، کسی نہ کسی طریقے سے ملک میں آئین کے تحت 1937 کے شریعت ایکٹ کی رو سے ملی حیثیت کو کم تر یا اصل جگہ سے ہٹانے کی مختلف سطحوں پر کوششیں کی جا رہی ہیں، اسلامی معاشرتی احکام کی افادیت و تنفیذ کی راہ ہموار کرنے کے بجائے طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں، اس کی واضح مثال قاضی ایکٹ کو پارلیمنٹ میں بار بار پیش کرنے کے باوجود منظور نہ کرنا ہے، جب کہ دوسری طرف ہندوؤں سے متعلق کئی قانون بنائے گئے ہیں، 1989 میں مولانا اسعد مدنی رح نے ملک کی تاریخ میں غالبا آخری بار کوشش کی تھی کہ قاضی ایکٹ پارلیمنٹ سے منظور کرا کر مرد عورت کے درمیان پیدا شدہ تنازعات، فسخ، تفریق، لعان وغیرہ کے ذریعے حل کی راہ نکالی جائے، خلع میں اگر شوہر رضا مندی سے بیوی کو رشتہ نکاح سے آزاد کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو شرعی قاضی اپنے شرعی اختیار کا استعمال کر کے فسخ نکاح کر کے جدا کر دے، اس قانونی اختیار کے بغیر فسخ و تفریق کا نفاذ قانونا عمل میں نہیں آ سکتا ہے، آزادی کے بعد عوامی جمہوری سیکولر حکومت کی تشکیل کے بعد بھی آج تک کسی بھی کانگریسی، غیر کانگریسی سرکار نے مسلم سماج کو یہ حق و اختیار نہیں دیا اور نہ اس سلسلے میں کوئی دلچسپی لی گئی ہے، محکمہ شرعیہ اور دارالقضا۶ کو ملک کی عدلیہ کے معاون نظام کار کے بجائے ایک متوازی نظام کار کے طور پر پیش کر کے اس کی سرگرمیوں کو محدود و مسدود کرنے کی کوششیں کی گئیں، جب کہ برطانوی عہد حکومت میں ہندو مسلم دونوں کو اس سلسلے میں آزادی و اختیار حاصل تھا، حتی الامکان ہندستانی باشندوں کے مذہبی و معاشرتی احکام و قوانین میں مداخلت سے گریز کیا جاتا تھا، بہت سے معاملات خصوصا دیوانی متنازعہ مسائل کا تصفیہ متعلقہ فریقین کے مذہبی قوانین و احکام کے مطابق فیصل ہوتے تھے، 1872 کی ریگولیشن ( 2) کی دفعہ( 2) کے تحت بندوبست تھا کہ مذکورہ قسم کے مقدمات میں جو وراثت، طلاق، خلع وغیرہ سے تعلق رکھنے والے امور یا کسی مذہبی رسم یا ادارے سے متعلق معاملات میں مسلمانوں کے مسائل قرآن کے احکام کے مطابق اور ہندوؤں کے معاملات، شاستروں کے مطابق فیصل ہوں گے، اس سلسلے میں مسلم اہل علم و دانش کی انتہائی قابل قدر کاوشات و خدمات ہیں، اس حوالے سے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رح، مفتی اعظم مولانا کفایت اللہ رح، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رح، ابوالمحاسن مولانا محمد سجاد بہاری رح، سید محمد احمد کاظمی رح وغیرہم کے نام بہت نمایاں ہیں، شریعت ایکٹ کی رو سے ہندستانی عدلیہ کے ججوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلم پرسنل لاء کے متعلق معاملات میں اسلامی معاشرتی احکام کے مطابق فیصلے دیں، غیر مسلم ججوں کے شرعی مسائل میں ان کے برخلاف فیصلے کے نفاذ میں کئی طرح کی دقتیں ہیں، لیکن بہت دنوں سے اس پر توجہ نہیں ہے،تلنگانہ ہائی کورٹ نے بھی اس پر کوئی زیادہ توجہ نہیں دی ہے، اس نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ مسلم خواتین کو شوہر کی رضا مندی کے بغیر خلع لینے کا مطلق حق حاصل ہے، حالاں کہ شرعی طور سے خلع میں شوہر بیوی کی رضا مندی شرط ہے، اگر شوہر بیوی کو اذیت دینے کے لیے خلع کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے تو اس کے موجود حل کی نشاندہی کورٹ نے کچھ خاص وجوہ سے نہیں کی ہے، تلنگانہ ہائی کورٹ کے جسٹس بی آر مدھوسودن راؤ اور جسٹس موسمی بھٹاچاریہ کی ڈویژن بیچ نے کہا ہے کہ بیوی کا خلع مانگنے کا حق، کسی وجہ پر مبنی نہیں ہونا چاہیے، اور نہ ہی شوہر کی رضا مندی پر منحصر ہے، خلع شوہر کی طرف سے طلاق کا متوازی(متبادل ) حق اور دونوں غیر مشروط ہیں، مفتی یا دارالقضا۶ سے خلع سرٹیفکیٹ کے لیے ثبوت حاصل کرنا لازمی نہیں ہے کہ مفتی کی رائے صرف مشورہ ہے، یہاں ڈویژن بینچ نے اس کو نظرانداز کر دیا ہے کہ بغیر کسی وجہ کے عورت کا خلع مانگنا صریح طور پر ناجائز ،حرام ہے، یہ ایک متفق علیہ مسئلہ ہے، ساتھ ہی اس سلسلے کی شرط کو بھی نظر انداز کر دیا ہے، متعلقہ معاملے میں جسمانی تشدد کے الزام کے پیش نظر ،بیوی کے مطالبہ پر، شرعی کونسل کی طرف سے جاری خلع نامہ کو شوہر نے تسلیم نہیں کیا اور معاملہ کورٹ میں گیا لیکن اس کے حق میں ہائی کورٹ سے بھی فیصلہ صادر نہیں ہوا، یہ بالکل صحیح ہے کہ خلع کے مسئلے میں حاکم، قاضی، مفتی کی ضرورت نہیں ہے، اس کے متعلق حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا واضح فرمان ہے کہ قاضی، حاکم کے بغیر بھی خلع جائز ہے، (بخاری شریف کتاب النکاح )
اس کی تفصیلات معروف فقیہ ابن قدامہ رح نے المغنی میں پیش کی ہیں، یہ فیصلہ ائمہ اربعۃ رح کے علاوہ امام زہری، امام شریح وغیرہ کا بھی ہے، لیکن یہ کہنا کہ بیوی کو خلع میں مطلق حق و اختیار حاصل ہے، مسلم پرسنل لاء، اسلامی معاشرتی احکام اور شرعی قانون و فقہ کے خلاف اور مسلم سماج کو ازدواجی معاملے میں انحراف کی راہ پر ڈالنے والا ہے، مسلم سماج میں مسائل کو لے کر حرام و حلال کے تناظر میں گناہ، ثواب والی زندگی کا تصور ہے، اس سے الگ ہٹ کر آئین سے پرے جا کر آزاد فیصلے کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے، مسلم پرسنل لاء کے معاملے میں آزاد سوچ کو معاشرتی قوانین کا حصہ بنانے کی سعی کوئی راست رویہ نہیں ہے، اس سلسلے میں معروف مسلم تنظیموں خصوصا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو اصل مسئلے کی طرف متوجہ کرنا چاہیے، اس میں تو ائمہ، محدثین میں اختلاف ہے کہ خلع سے طلاق ہوگی یا فسخ، لیکن یہ سبھی کے نزدیک تسلیم شدہ ہے کہ خلع میں فریقین، شوہر، بیوی کی رضامندی ضروری ہے، علامہ شوکانی رح نے اسے لا بد من التراضی بین الزوجین علی الخلع کے تاکیدی الفاظ میں بیان کیا ہے،( فقہ الحدیث کتاب النکاح )
کتب فقہ اسلامی مثلا، المغنی، شامی، بدائع صنائع وغیرہ میں خلع سے متعلق پیش کردہ تفصیلات میں شوہر بیوی کی باہمی رضا مندی اہم شرط ہے، دونوں کی رضا مندی کے ساتھ مال کے عوض رشتہ نکاح کو ختم کرنے کا نام خلع ہے، اس سلسلے میں فریقین کی طرف سے طے شدہ شرط اصل بنیاد ہے، اگر دونوں بغیر مالی عوض کے بھی خلع کر لیں تو خلع ہو جائے گا، (دیکھیں ابن قدامہ رح کی المغنی، نیل الاوطار از علامہ شوکانی رح کتاب النکاح )
تاہم تلنگانہ ہائی کورٹ کے فیصلے میں جس طرح خلع کے مسئلے کو پیش کیا گیا ہے وہ کوئی بہتر تعبیر و تصویر نہیں ہے، ایسا لگتا ہے کہ فریقین کے وکلاء نے خلع کے ضروری اور بنیادی نکات و جہات کو عدالت کے سامنے وضاحت و مضبوطی سے پیش نہیں کیا یا ڈویژن بیچ نے حالات حاضرہ میں خواتین کو آزاد و خود مختار بنانے کی تشہیری مہم کے زیر اثر خلع کے بنیادی نکات سے متعلق شرعی و قانونی پہلوؤں کو زیادہ قابل توجہ نہیں سمجھا اور برطانوی عہد حکومت کے بعد کے دنوں میں نکاح، طلاق، خلع وغیرہ کے مسائل کو حکومت کے مقصد و منشاء کے تحت لانے کی جو کوشش شروع ہوئی اور آزادی کے بعد مختلف پارٹیوں کی سرکاروں نے مسلم پرسنل لاء کے مسائل کو ان کے متعلقات کے ساتھ بے اعتنائی و بے انصافی کی جو روش اختیار کی ہے اس سے توجہ ہٹائے رکھنے کے لیے خلع کے معاملے کو بر عکس شکل میں پیش کرنا ہی وقت کا تقاضا سمجھا ہے، فیصلے میں عورت کی طرف سے شوہر سے مالی عوض یا مہر کی واپسی پر الگ ہونے کا جو مطالبہ ہوتا ہے اس کو اصل شکل میں سامنے نہیں لایا گیا ہے، اگر شوہر خلع پر رضا مند نہ ہو تو عورت کے لیے فسخ و تفریق کے ذریعے الگ ہونے کی راہ ہے، عدالت بھی شوہر پر دباؤ ڈال کر اسے رضا مند کر سکتی ہے، فسخ و تفریق کے لیے قاضی ایکٹ وغیرہ سے مسلم قاضی کو قانونا بااختیار نہیں بنایا گیا ہے، اس کی وجہ سے کئی طرح کی دقتیں پیش آتی ہیں، اس لحاظ سے آزاد بھارت کی تمام سرکاریں، سوال کی زد میں ہیں کہ اگر مسلم مرد عورت کے تنازعہ و قضیہ کا حل شریعت کے مطابق ہوجاتا ہے تو سرکاروں اور دائیں بازو کے عناصر کو پریشانی کیوں ہونا چاہیے، ؟خلع کے ذریعے عورت کے رشتہ نکاح سے الگ ہونے کی راہ میں اگر شوہر رکاوٹ بنتا ہے تاکہ عورت کو اذیت میں مبتلا رکھے تو حاکم، قاضی کے فسخ و تفریق کے ذریعے عورت رشتہ نکاح سے الگ ہو سکتی ہے، اس کا مخصوص رویہ و سوچ کے سبب ذکر نہیں کیا جاتا ہے، شرعی طور پر موجود حل کو نظرانداز کر کے یہ فیصلہ دینا کہ خواتین کو شوہر کی رضا مندی کے بغیر خلع کا مطلق حق ہے اور خلع شوہر کی طرف سے طلاق کا متوازی حق ہے اور دونوں غیر مشروط ہیں، ملک میں الگ ہی طرح کے فکر و عمل کو پروان چڑھانے کی سعی ہے، خلع کے تعلق سے جس قسم کی باتیں کہی گئی ہیں ان سے لگتا ہے کہ خلع کے معنی کو سمجھنے پر کوئی زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے، ایسی حالت میں اس کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ ہر شعبہ حیات میں اس کے ماہر و جانکار افراد کو متحرک و فعال کیا جائے، آج کی تاریخ میں جس طرح کے افراد میڈیا اور عوامی میدان میں، اسلامی معاملات کے ماہر کے طور پر سرگرم ہیں ان سے شرعی و دینی معاملات میں بہتر نمائندگی کی امید، سراسر سادہ لوحی اور خوش فہمی ہے، ان کے متعلق غیر مسلم وکلاء سے ترجمانی کرانے کے بجائے، شرعی مسائل کی بہتر واقفیت رکھنے والے مسلم وکلاء کو سامنے لانا ہی مسائل کا پائیدار حل ہے۔