تحریر:۔ ابوشحمہ انصاری
سعادت گنج، بارہ بنکی
ربیع الاول کا مہینہ عالمِ انسانیت کے لیے وہ مبارک مہینہ ہے جب ہدایت کا وہ آفتاب طلوع ہوا جس نے صدیوں سے پھیلی تاریکی کو روشنی میں بدل دیا۔ عرب کی تپتی ریت پر ظلم و جبر کا سایہ تھا، معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا، طاقتور کمزور کو کچل دیتا تھا، عورت کو زندہ درگور کر دیا جاتا، اور اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا تھا۔ ایسے وقت میں ایک ایسی ہستی دنیا میں تشریف لاتی ہے جس نے نہ صرف جزیرۂ عرب بلکہ پوری دنیا کو عدل، امن، اور اخلاق کی راہ دکھائی۔
سرکارِ دو عالم ﷺ کی پیدائش ایک انقلاب تھی، لیکن یہ انقلاب تلوار یا جنگ سے نہیں، بلکہ کردار، اخلاق اور محبت سے برپا ہوا۔ آپ ﷺ نے غلام کو آقا کے برابر کھڑا کیا، عورت کو عزت دی، یتیم کا سہارا بنے، اور دشمن کو بھی معاف کرنے کا سبق دیا۔ آپ کا ہر عمل انسانیت کے لیے ایک عملی درس تھا۔
لیکن آج، اسی ربیع الاول کے مہینے میں، ہم نے مقصدِ بعثت کو بھلا دیا ہے۔ جلوس نکلتے ہیں، نعرے بلند ہوتے ہیں، چراغاں کیا جاتا ہے، مگر اصل تعلیمات پسِ پشت ڈال دی جاتی ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے اپنی زندگی میں اسراف سے بچنے، سادگی اپنانے اور حقیقی خدمتِ خلق پر زور دیا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم صرف جشن نہ منائیں بلکہ آپ ﷺ کے کردار کو اپنی زندگی میں نافذ کریں۔
بدقسمتی سے، اس مہینے میں کچھ ایسی خرافات اور غیر شرعی رسمیں بھی جگہ پا گئی ہیں جو نہ آپ ﷺ کی سنت ہیں اور نہ ہی دین کا حصہ۔ بعض مقامات پر رات بھر لاؤڈ اسپیکر پر بے ربط تقاریر اور شور و غل سے بیماروں، طلبہ، اور بزرگوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ کہیں چندہ کے نام پر رقومات اکٹھی کر کے فضول نمائش میں اڑا دی جاتی ہیں۔ بعض جلوسوں میں نظم و ضبط کی کمی اور انا کا ٹکراؤ بھی دیکھا جاتا ہے۔ یہ سب اس پیغامِ رحمت کے منافی ہے جو آپ ﷺ نے دیا۔
اصل پیغام تو یہ ہے کہ ہم آپ ﷺ کے اخلاق کو اپنائیں۔ آپ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن ہے، اور آپ کا سب سے بڑا ہتھیار کردار۔ آج ہم نے کردار کو چھوڑ کر صرف تقریب کو اپنا لیا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ اگر حضور ﷺ آج ہمارے درمیان ہوتے تو کیا وہ اسراف، شور، اور انتشار پر خوش ہوتے یا پھر ہمیں اصل دین کی طرف بلاتے؟
ربیع الاول کا اصل تقاضا یہ ہے کہ ہم سیرت النبی ﷺ کو پڑھیں، سمجھیں اور اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ آپ ﷺ کی سیرت میں عدل ہے، رحم ہے، معافی ہے، اور انسانیت کے لیے بے پناہ محبت ہے۔ جب ہم اپنی زندگی میں ان اوصاف کو لائیں گے تو یہی سب سے بڑا جشن ہوگا۔
ہمارے معاشرے میں ایک اور بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم صرف اس ایک مہینے میں نبی ﷺ کو یاد کرتے ہیں اور باقی سال ان کے پیغام سے غافل رہتے ہیں۔ حضور ﷺ کی یاد صرف ربیع الاول تک محدود نہیں بلکہ ہر دن اور ہر لمحے ہونی چاہیے۔ ان کی سنت کو اپنانا صرف جلسوں اور جلوسوں سے ممکن نہیں، بلکہ گھروں میں، بازاروں میں، دفاتر میں، اور دلوں میں ان کی تعلیمات کو زندہ کرنا ہوگا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ربیع الاول کے جلوس اگر نظم و ضبط، امن، اور شعور کے ساتھ نکالے جائیں تو یہ دین کی دعوت کا بہترین ذریعہ بن سکتے ہیں۔ غیر مسلم بھائی جب دیکھیں کہ مسلمان خوشی میں بھی امن اور صفائی کا مظاہرہ کرتے ہیں، تو یہی حقیقی تبلیغ ہے۔ ہمیں ایسے مواقع کو اپنے اخلاق کے ذریعے اسلام کا تعارف کرانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ربیع الاول کا پیغام صرف ماضی کا تذکرہ نہیں بلکہ حال اور مستقبل کے لیے ایک روشنی ہے۔ آج دنیا نفرت، تعصب، اور مفاد پرستی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ایسے میں ہمیں پھر سے وہی کردار اپنانا ہوگا جو آپ ﷺ نے اپنایا۔سچائی، عدل، اور خدمتِ خلق۔
اگر ہم نے ربیع الاول کے مہینے کو صرف رسمی تقاریب تک محدود رکھا، تو ہم اس کی اصل روح کو کھو بیٹھیں گے۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ یہ مہینہ ہمارے کردار کی اصلاح، معاشرتی بھلائی، اور دین کی صحیح سمجھ کا آغاز بنے۔ خرافات اور اسراف کو چھوڑ کر، عاجزی اور تقویٰ کو اپنانا ہی اصل خوشی ہے۔
ربیع الاول کا سب سے بڑا تحفہ یہ ہے کہ ہم نبی ﷺ کے لائے ہوئے پیغام کو عملی زندگی میں نافذ کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ "تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کا اخلاق سب سے بہتر ہو”۔ اگر ہم اپنے اخلاق کو سنوار لیں، تو یہ سب سے بڑا جشنِ ولادت ہوگا۔ چراغاں سے زیادہ روشنی اس وقت ہوگی جب دل ایمان سے منور ہوں گے، اور نعرے بازی سے زیادہ اثر تب ہوگا جب ہمارے اعمال دوسروں کے دل جیت لیں گے۔
آج کا مسلمان اگر چاہتا ہے کہ دنیا میں اس کا وقار بحال ہو تو اسے نبی ﷺ کے راستے پر چلنا ہوگا۔ یہ راستہ آسان نہیں، لیکن یہی کامیابی کی واحد راہ ہے۔ ربیع الاول ہمیں یاد دلاتا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے، مگر کردار اور پیغام ہمیشہ باقی رہتے ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم صرف تقاریب کے مسلمان ہیں یا کردار کے مسلمان؟
یہ مہینہ ہمیں محض خوشی نہیں بلکہ ذمہ داری کا احساس بھی دیتا ہے۔ اگر ہم نے اس مہینے کے پیغام کو سمجھ لیا اور اس پر عمل شروع کر دیا، تو یہی سب سے بڑی نعت اور سب سے بڑا جشن ہوگا۔ نبی ﷺ کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں اور اپنے قول و فعل سے ثابت کریں کہ ہم ان کے سچے امتی ہیں۔