جمعیۃ علماء ہند كی ممبرسازی اورذیلی اكائیوں كے انتخابات

از:- ڈاكٹر عبدالملك رسولپوری

شعبہ عربی ذاكرحسین دہلی كالج ‏،دہلی

جمعیۃ علماء ہند وطن عزیز میں رہنے بسنے والے مسلمانوں كی سب سے عظیم اور قدیم جماعت ہے‏،باد صرصر‏، پرسوزلُو اور یخ بستہ ہواؤں سے مقابلے كرتے ہوئے آج سوبرس گزرجانے كے بعد بھی ا س كی بنیادیں اُسی طرح مضبوط ہیں‏، نہ تو اس پر كہنگی طاری ہوئی اور نہ ہی اس كا اعتبار كم ہوا ہے ؛ بلكہ نئے نئے شعبے قائم ہوتے جارہے ہیں اور خدمات كا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے جس سے اس جماعت كی عصری معنویت ابھی بھی مسلم اور باقی نظر آتی ہے۔

حالیہ دنوں میں اخبارات اور سوشل میڈیا پر جمعیۃ كی ذیلی اكائیوں كے انتخابات كی خبریں خوب نشر ہورہی ہیں ‏، كہیں مسجد كے كسی گوشے میں صدر وصدور كا انتخاب ہوتا نظر آرہا ہے تو كہیں كسی مدرسے كے وسیع وعریض میدان میں لگے پنڈالوں كے سایے میں باضابطہ الیكشن ہورہاہے‏، قورمے بریانی كی ڈیگیں بھی چل رہی ہیں اور كہیں كہیں تو دھكا مكی كےساتھ پلاسٹك اور چمڑے كی چپلیں بھی چل رہی ہیں۔ یہ سب وابستہ افراد كی كسل مندی اور كہیں جذبات اور امنگوں كی ترجمانی ہے‏۔تصویریں تو بینروں پر طبع ہونے ہی لگی ہیں بس لال پری كی تقسیم میں كچھ تاخیر نظر آرہی ہے۔ ایسے میں ہمارے پوروے بھی تختہ كلید پر رقص كرنے كے كے لیے مچلنے لگے۔ ذہن میں كچھ میٹھی اور ساتھ ہی كچھ كھٹی باتیں بھی در آنے لگیں‏، اب كس كو چھوڑیں اور كس كو لكھیں ‏، لیجیے سب حاضر ہیں‏ ‏،انجام خداجانیں۔
جمعیۃ علماء ہند میں منصب داروں كا اختیار و انتخاب عمودی طرح سے ہوتا ہے یعنی ملك كی كسی چھوٹی اكائی میں رہنے والے تین مسلمان جمعیۃ علماء ہند كے ممبر بن كر علاقائی سطح پر اپنے لیے ایك امیر كا انتخاب كرتے ہیں ‏،یہ چھوٹی اكائیاں‏، جنھیں اصطلاحی طور علاقائی جمعیت كہا جاتا ہے جب مل جاتی ہیں تو تحصیل سطح كی جمعیت وجود میں آجاتی ہے اور تحصیلیں باہم ملك كر ضلعی جمعیۃ كو وجود بخشتی ہیں اور ضلع سے صوبائی جمعیتیں بنتی ہیں اور صوبوں سے مركز كا اہرام مصر وجود میں آتا ہے۔ ہمارے بچپن میں ممبرسازی كا طریقہ یہ ہوتا تھا كہ بہت سی رسیدوں كے بنڈل پہنچتے تھے اور ہم اپنے بھائیوں اور اساتذہ كے ساتھ گھر گھر جاكردو دو روپیے كی رسید كاٹتے تھے ‏،جس كا نچلا حصہ حاصل شدہ پیسوں كے ساتھ مركزی دفتر كو واپس بھیجا جاتا تھا‏، اس كو ممبرسازی كہا جاتا تھا۔ حالیہ دنوں تك یہی طریقہ رائج رہا‏‏ اور كہاجاتاتھا كہ جمعیۃ علماء ہند كے ڈھائی كروڑ ممبرز ہیں‏ اوریہ ہندوستانی مسلمانوں كی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ اس بیانیے كو كبھی كس معترض یا دشمن نے جھٹلانے كی كوشش نہیں كی ‏، كیوں كہ مركزی یا صوبائی سطح پر كہیں بھی جمعیۃ علماء ہند كا اجلاس ہوتا تھا تو صوبے كے سب سے بڑے میدان كا بھرنا ممبران جمعیۃ كے لیے كوئی مشكل چیز نہیں ہوتی تھی۔ دہلی كا رام لیلا‏، ممبئی كا آزاد پٹنہ كا گاندھی اور حیدرآباد كا نظام آباد میدان اس بیانیے كے شاہد عدل تھے‏، پھر نہ جانے كس شخص كے مشورے سے یہ ہوا كہ ممبرسازی میں شفافیت لائی جائے اور ڈیجٹل طور سے ممبر بنائے جائیں‏، یہ الفاظ دكھنے میں تو سنہرے لگ رہے ہیں ‏،ہماری نظر میں یہ وہ سست رو زہر ہے جو تنظیموں كے وجود كو آہستہ روی كے ساتھ ختم كرتا جاتا ہے؛ كیوں كہ ڈیجیٹل طور سے ممبر سازی كا سلیقہ قوم كے خواندہ طبقے كو آتا ہے اور ہماری تنظیم تو گاؤوں كے كمزور اور نچلی سطح كے مسلمانوں كا ملجأ ومأوی تھی۔ ہم تو اراذل القوم كے مجموعہ تھے ‏،جن كی شرح خواندگی كا اوسط بہت اور بہت نیچے تھا ‏،ایسے میں ڈیجیٹل ممبز سازی كا مطلب اپنی تعداد كو سكوڑنا اور كم كر كے پیش كرنا مانا جاتا ہے۔ اور ہماری معلومات كے لحاظ سے نتیجہ بھی وہی ہوا كہ ممبران كی تعداد ڈھائی كروڑ سے بہت كم ہوگئی اور رہا شفافیت كا مسئلہ تو اس بار كامشاہدہ تو كچھ اور بتاتا ہے‏۔

جماعت كا انتخابی طریقہ كار كچھ ایسا ہے كہ صدر اور نائبین صدر كا انتخاب اراكین منتظمہ كے ذریعہ ہوتا ہے. جن اضلاع كی جمعیتں زیادہ متحرك ہیں‏، وہاں ممبر سازی كے ساتھ جذبات وابستہ ہوتے ہیں اور انتخابات میں الیكشن كی نوبت بھی آتی ہے۔ اس صورت میں زیادہ ووٹ حاصل كرنےوالے صاحب صدر بن جاتے ہیں اور ان كے علاوہ اسی گروپ كے كئی اصحاب نائب بنالیے جاتے ہیں. اور وہ جو صدر كی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں‏، وہ كچھ نہ بن كر بے چارے رہ جاتے ہیں. جس كی وجہ سے ان كی اپنی نخوت اور ان كے بہی خواہوں كی شرارت انھیں جماعت سے دور رہنے یا اپوزیشن كا كردار ادا كرنے كے لیے مجبور كرتی رہتی ہیں۔ اس طریقہ كار سے جماعتوں میں تفریق پیدا ہوتی ہے اور جماعتیں كمزور ہوجاتی ہیں ‏، مناسب ہوگا كہ صدارت كے انتخاب میں پیچھے رہ جانے والا پہلا شخص بھی نائب صدر بنایا جائے۔ تاكہ سارے عہدے ایك ہی گروپ كے پاس نہ پہنچیں‏ اور جماعت میں تفریق كی نوبت نہ آنے پائے.
لیجیے اس ممبر سازی اور انتخابا كے ضمن میں ایك راز اور بھی افشا كیے دیتے ہیں كہ قوم وملت كے جو مسلمان خانوادہ مدنی سے اللہ واسطے كا بیر ركھتے ہیں‏، ان كے لیے یہ ممبرسازی بہت آسان موقع فراہم كرتی ہے كہ صوبے یا مركزی سطح سے اس خانوادے كو اكھاڑ پھینكیں ‏، بس كرنا یہ ہوگا كہ زیادہ سے زیادہ ممبر سازی كریں اور اپنے ہم مزاج لوگوں كو منتظمہ كا ممبر بنائیں ‏، اس طریقے كے علاوہ ان بے چاروں كی خواہش كسی دوسرے طریقے سے شاید ہی پوری ہو۔ حضرت فدائے ملتؒ اور شاید مولانا عتیق الرحمن عثمانیؒ كے مابین جب صدارتی مقابلہ آرائی ہوئی تھی ‏‏، جس میں مولانا عثمانی كو شكست ہوئی تھی اس وقت ایك بڑے آدمی كا تبصرہ تھا كہ بھائی جب جماعت كے اكثر ممبر حضرت مدنی كے مرید ہی ہوں گےتو كوئی عثمانی كیوں كر جیت سكتا ہے‏؟!! بس ا س خدا واسطے كا بیر ركھنے والے طبقے كو بھی سمجھ لینا چاہئے كہ جماعتی دائرے كی وسعت اگر خانوادہ مدنی كی رہین منت ہے تو قیادت كے مناصب بھی انھیں كے پاس رہیں گے۔

ہم نے اپنی كئی سابقہ تحریروں میں یہ بات نقل كی ہے كہ اللہ رب العزت كے نظام میں تین نسلیں ایك ساتھ جیتی ہیں‏، دادا ‏جان‏، ابا حضور اور صاحب زادگان‏، بس ایسے ہی سمجھیں كہ عمر كے لحاظ سے قیادت تین زمروں میں منقسم ہوتی ہے۔ سرپرستی‏، میدان كی جفاكشی‏ او ر نسل نو كی تربیت‏۔ سرپرستی كا مطلب وہ دادا جان ہوتے ہیں جو منصوبہ سازی اور ان كے اجراؤ و نفاذ میں كارہائے جہاں اورغم روزگار سے دنیا بھر كے تجربے حاصل كر كے زندگی كے چوتھے مرحلے مرحلۃ الزہد میں پہنچ كر اپنے ماتحتین كی سرپرستی و نگرانی فرماتے ہیں كہ میدان عمل میں ڈٹی ہوئی دوسری نسل كہیں كوئی غلطی تو نہیں كررہی ہے كہ قرآنی قصص كی طرح وہ ان كو اپنے تجربے كی روشنی میں كچھ نصیحتیں كر كے راہ راست پر واپس لے آئیں۔

ابا حضور كا مطلب وہ ید عاملہ ہے جو میدان عمل میں اپنی تگ وتاز اور جد وجہد سے نہ صرف اپنی فلاح وبہبود كے لیے كوشاں رہتا ہے ؛ بلكہ ترقی كے راستوں میں آڑے آنے والے ہر بڑے پتھر كو ہٹا كردور آیند كی نسلوں كے لیے بھی ترقی كے راستے ہموار كررہا ہوتا ہے۔ یہی وہ جانباز طبقہ ہوتا ہے جو اپنے مضبوط كاندھوں پر دنیا وجہان كا بوجھ لاد كر سبك دوش نسل كے لیے سہارا اور نسل نو كے لیے رہبر ورہنما كا كردار ادا كرتا ہے۔
صاحب زادگان یعنی دادا جان كے پوتے وہ تیسری نسل ہوتے ہیں جو اپنے والدین كے اعمال اور اسالیب و طریقہ كار سے سیكھتے رہتے ہیں كہ كاموں كو كیسے انجام دینا ہے‏، كن لوگوں سے كیسے پیش آنا ہے‏اور كن كینہ توز ظاہری بہی خواہوں كی باتوں پر كیسے مسكرانا ہے اور كیسے ان كے مشوروں كا تجزیہ كرنا ہے اور اپنے لیے مفید راستے منتخب كرنا ہے۔ وقت كی رفتار كے ساتھ یہ تینوں نسلیں بھی چلتی رہتی ہیں اور ترقی كی منازل طے كرتی رہتی ہیں‏۔

كارہا ئے جہاں كی انجام دہی میں دانش مند طبقہ اور بلندنگاہ ركھنے والے معمار قوم مناصب اور ذمہ داریوں كی تقسیم كے وقت اللہ رب العزت كے اسی نظام كو پیش نظر ركھتے ہیں چناں چہ بڑی وزارتوں میں مختلف عمروں كے آفیسروں كا تقرر ہوتا ہے تا كہ جونیر حضرات سینئر ز كے ساتھ رہ كر سیكھتے چلیں اور اپنے تجربات میں اضافے كرتے رہیں اورجب یہ سینئرز بنیں تو ماضی كی تاریخ اور گذشتہ حوادث وواقعات اور ان كے حلول اور طرق تدارك سے كما حقہ واقف ہوں۔ وزارت ہی میں كیوں غور كریں ہم چھوٹے لوگ تو ٹرك كے ڈرائیور سے بھی سیكھ لے سكتے ہیں ‏، سازوسامان كو منتقل كرنے والے ہرٹرك میں ڈرائیور كے ساتھ اس كی عمر كی بہ نسبت قدرے كمر عمر والا ایك كنڈیكٹر یا معاون بھی ہوتا ہے یہی بعد میں كبھی كوباضابطہ ڈرائیور بن جاتا ہے۔

قیادت سے متعلق ایك كتاب میں پڑھا تھا كہ حضرت زبیربن عوام جنگوں اورمعركوں میں اپنے بیٹے حضرت عبداللہ كو كم سنی كے باوجود مانوں جھانسی كی رانی كی طرح اپنی پیٹھ سے چمٹا كر اپنے گھوڑے پر بٹھایا كرتے تھے اور دشمنوں سے مقابلہ آرائی كیا كرتے تھے۔ دیگر صحابہ نے دریافت كیا كہ ایسا كیوں كرتےہیں توكہنے لگے كہ جنگوں كی تربیت جنگوں ہی میں ہوتی ہے۔
اس تمہید كا خلاصہ یہ ہے كہ قائدین كو اپنے نائبین كا انتخاب كرتےوقت اس منہج كو پیش نظر ركھنا چاہئے تاكہ زندگی كے كسی بھی مرحلے میں قیادت كا خلا نہ پیدا ہو ‏، ایك سید كی وفات ہو تو دوسرا سید اس كی جگہ پر متحرك ہوجائے۔ إذا مات منہم سید قام سید. گرچہ ہمارا طرز عمل یہ ہے كہ اگر مہتمم صاحب ستر سال كے ہیں تو نائب مہتمم بہتر سال كے ہوں گے۔ قیادت كے باب میں یہ وہ كھوٹ ہے جو قوموںكو قائدانہ مایوسی كا شكار بناتی ہے ‏ اور ان كے زوال كا باعث بنتی ہے۔

اخبار میں شائع شدہ خبروں اور مشاہداتی حوادث كا اگر صحیح معنوں میں جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے كہ ہماری عمر رسیدہ قیادت ‏، مناصب پر خودباقی رہنے كے لیے ہر ممكن حربہ اپنا رہی ہے ‏، اس كے لیے ماحول سازی ‏، لابنگ اور سبز باغوں كے نظارے سبھی كچھ كیا جارہا ہے۔ اور یہ كوئی بعید از فطرت بات نہیں ہے‏، عمر كے بڑھتے لمحوں كے ساتھ انسانوں كا ذہنی قد چھوٹا ہوتا جاتا ہے‏ ‏،انھیں بچوں كی طرح قیادت كا ایك كھلونا چاہئے ہوتا ہے‏، جس سے كھیل كھیل كر وہ اپنی نفسانی خواہشات كو پورا كرتے ہیں‏، بحرف دیگر اپنی سوانح میں ایك باب كا اضافہ كرنے كی كوشش كرتے ہیں كہ موصوف كو فلاں تنظیم كے فلاں منصب پر بھی فائز كیا گیا تھا‏، موصوف بیس بار فلاں تنظیم كے ضلعی صدر منتخب كیے گئے اور موصوف تا حین حیات فلاں تنظیم كے صدر رہے ان كے جانے كے بعد پورے ضلعے اور صوبے میں ایك ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے كہ اب جس كا پر كیا جانا جوئے شیر لانے كے مترادف ہوگا۔ ان بے چاروں كو یہ نہیں معلوم ہوتا ہے كہ نفسانی خواہشات كی تكمیل كے لیے قیادت كی گڑیا كے ساتھ یہ جو كھیل كھیل رہے ہیں یہ اصل میں دور آیند كی نسل نو كے مستقبل كے ساتھ كھلواڑ ہورہا ہے۔ ان كے پاس نہ تو كوئی عظیم منصوبہ نظر آتا ہے اور نہ ہی مہیب مستقبل كی پیش بندی۔ اور ہر وہ قائد جس كے جانے كے بعد خلا پیدا ہوجائے ہماری نظروں میں تو قائد ہی نہیں ہوتا ہے ‏، حضور صلی اللہ علیہ وسلم كی وفات كے بعد قیادت كے لیے كبار صحابہ كے ایك پوری مجلس تھی‏، جس كا ہر ممبر منصب خلافت پر فائز ہونے كے لیے ہمہ طور استحقاق ركھتا تھا‏، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقبل كے لیے رجال سازی كو بھی اپنے مشن كا حصہ بنایا ہوا تھا ‏۔ سیرت پاك میں اس طرح كے بہت سے شواہد درج ہیں ۔
عہدوں كی طلب شریعت محمدی میں مكروہ عمل شمار ہوتاہے؛ لیكن ہمارا ایمان حضرت یوسف علیہ السلام كی نبوت پر بھی ہوتا ہے تو اگر كوئی سنت یوسفی كے پیش نظر عہدوں كی طلب میں تگ ودو كررہا ہے تو اسے اس سنت كے آخری الفاظ پر بھی غور كرنا ہوگا‏، حضرت یوسف علیہ السلام نے طلب منصب كے وقت قیادت كی دو عظیم صفات كا تذكرہ كیا ہے ‏، انی حفیظ علیم. یعنی میرے اندر قومی وسائل كے تحفظ ‏ اور انھیں كفایت شعاری كے ساتھ خرچ كرنے كا سلیقہ ہے‏، اسی طرح میں علیم بھی ہوں‏، مجھے ماضی كے حوادث كا بھی علم ہے اور ان كے تدارك كے لیے كی جانے والی كوششوں اور طریقہ كارسے بھی میں واقف ہوں ‏،ساتھ ہی میری دور رس نگاہوں نے مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات كا بھی اندازہ كرلیا ہے‏، جس كے لیے میں نے پہلے سے پیش بندی كرركھی ہے كہ میں خزانے كو رعایا پر كس طرح تقسیم كر وں گا كہ كم مال متاع سے زیادہ برسوں تك فائدہ اٹھایا جاسكے۔ اور كم وسائل سے زیادہ نفع حاصل كیا جاسكے۔ یہ انھیں كا تو مشورہ تھا كہ گیہوں كو بالیوں ہی میں رہنے دیا جائے اس سے ان میں گھن نہیں لگے گا۔ عہدوں كی طلب سے پہلے قیادت كی ان دوعظیم نبوی صفات كی روشنی میں اپنا محاسبہ كیجئے كہ مہیب انقلاب كی طرف بڑھتے ہوئے وطن عزیز میں آنے والی نسل كے لیے آپ كے پاس كیا منصوبے ہیں‏؟ اور آپ كی كیا پیش بندیاں ہیں‏؟ ہماری آنكھیں تو یہ دیكھ رہی ہیں كہ ہاتھوں میں رعشہ ہے‏، گھٹنے جواب دے گئے ہیں‏، ذہن ذہول كا شكار ہے ‏، لیكن شخصیت منصوبہ سازی كے منصب نظامت پر متمكن ہے۔ صدارت پر تو ایك لمحے كے لیے گورابھی كیا جاسكتا ہے ‏، نظامت كو تو بالفاظ اقبال جان كی پرسوزی سے تعبیر كیا جاتا ہے‏، یہ تو جفاكشی اور جد جہد كی متقاضی ہوتی ہے ‏، اس كا تقاضہ ہوتا ہے كہ آپ كو نہ صرف موٹر سائل چلانا آتاہو بلكہ آپ كو كار كی ڈرائیونگ كے ساتھ پیدل دوڑ بھاگ بھی آتی ہو۔
بات اقبال كی آگئی ہے تو علامہ نے قیادت كی جو تین صفات بتائی ہیں ‏،نگہ بلند‏، سخن دل نواز ‏،جاں پرسوز۔ یہی ہے رخت سفر میر كارواں كے لیے۔ ہم جس قیادت كو منتخب كررہے ہیں ان میں بھی ان تینوں صفات كا ہونا ضروری ہے ‏، ہمارے صدر كی بلندنگہی كا تقاضا ہوگا كہ ان كے پاس ایسے افراد ہوں جن كی سیاست كی راہ داریوں میں آمد ورفت ہو اور وہ وزیروں كی چالوں سے قبل الوقوع واقف ہوجاتے ہوں‏، ان كے پاس ایسے تحقیقی مراكز اور ریسرچ سینٹر ہوں جو مسلم دشمنی پر مبنی كسی بھی پالیسی كا صحیح تجزیہ كر كے اس كے تدارك كے لیے لائحہ عمل وضع كرسكیں‏‏، ان كے پاس ایسے منصوبہ ساز دانش ور ہوں جو كم وسائل كے ساتھ زیادہ نفع بخشی والے منصوبے بناسكیں اور ان كے نفاذ كے لیے آسان اور سہل ترین ذرائع اور تدبیریں فراہم كرسكیں۔ سخن كی دل نوازی سے اقبال كی مراد یہ ہے كہ ہمارا صدر جب منھ كھولے تو الفاظ كے ایسے موتی نكلیں جن كی چمك سے سننے والے كا نہ صرف ذہن منور ہو ؛بلكہ اس كی لطیف روشنی دل تك پہنچ كر اس كے نہاخانوں میں بھی اجالا برپا كردے۔ ہمارے صدر كا طرز گفتگو كچھ ایسا ہو جس میں حضرت موسی علیہ السلام كا قولا لہ قولا لینا كا بھی اثر نظر آرہا ہو اور نبی آخرالزماں كا لو كنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولك كا بھی مظاہر ہورہا ہے۔ جب كہ مشاہدہ ایسا ہے كہ ہمارے اداروں كے ذمہ دار اور تنظیموں كے قائدین جب بھی منھ كھولتے ہیں تو كسی بے چارے پر غاز گرتی نظر آتی ہے۔ قائدین كے اندر سننے كی جو نبوی صلاحیت ہوتی ہے وہ یك سر مفقود نظر آتی ہے۔ وہ ایسی گھی چپڑی روٹی كھانے كے عادی ہوچكے ہیں كہ مكھن لگانے اور نفس كی چاہ پركھ كر بات كرنے والے وزیروں اور مشروں كا تقرر ان كی مجبوری بن چكا ہے۔ وللحدیث صلۃ

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔