از:- ڈاکٹر سلیم انصاری
جھاپا، نیپال
حال ہی میں بھارت کے کئی دینی مدارس میں نیپالی طلبہ کی موجودگی ایک “مسئلہ” بن کر سامنے آئی ہے۔ وہاں کی بعض سرکاری اور مقامی سطحوں پر یہ بات اٹھائی جا رہی ہے کہ نیپال سے آنے والے طلبہ باقاعدہ NOC (No Objection Certificate) اور دوسری قانونی اجازتوں کے بغیر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس پس منظر میں ہمیں جذبات سے زیادہ ہوش و حکمت کے ساتھ سوچنے کی ضرورت ہے، تاکہ نہ ہمارے طلبہ کسی قانونی مشکل میں پھنسیں، نہ مدارس کی نیک کاوشیں مشکوک بنیں۔
آج حقیقت یہ ہے کہ نیپال کے درجنوں، بلکہ سیکڑوں طلبہ بھارتکے مختلف مدارس میں رہ کر حفظ، عالمیت اور دیگر دینی علوم پڑھ رہے ہیں۔ پہلے یہ سلسلہ عموماً اعتماد اور روایتی دوستی کے ماحول میں چلتا رہا، مگر اب انڈین اداروں کی طرف سے یہ سنجیدہ اعتراض سامنے آ رہا ہے کہ بہت سے نیپالی طلبہ کے پاس نہ تو اپنے ملک کا واضح NOC ہے، نہ ان کے کاغذات میں وہ پوری قانونی تفصیل درج ہے جو آج کے سکیورٹی ماحول میں ضروری سمجھی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں بعض علاقوں میں طلبہ سے پولیس انکوائری اور رہائش سے متعلق سخت سوالات، اور کچھ جگہوں پر ہراسانی اور خوف کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ جو بچے صرف قرآن و سنت سیکھنے کی نیت سے گئے تھے، وہ اب قانونی ابہام کی وجہ سے خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگے ہیں، اور یہ دباؤ ان کے ذہنی سکون اور تعلیمی سفر دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے تھوڑا قانونی پس منظر جاننا بھی ضروری ہے۔ Indo Nepal Peace and Friendship Treaty 1950 کے تحت دونوں ملکوں کے شہریوں کو ایک دوسرے کے ہاں رہائش، جائیداد، تجارت اور دیگر معاشی سرگرمیوں میں خاص سہولتیں دی گئی ہیں۔ اسی لیے بہت سے نیپالی باشندے برسوں سے بھارتمیں روزگار اور تعلیم کے سلسلے میں آتے جاتے رہے ہیں۔ لیکن اس معاہدے کے باوجود ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سکیورٹی کے لیے اندرونی انتظامی قوانین بنائے، ریکارڈ رکھے اور غیر ملکیوں کی نقل و حرکت پر مناسب نگرانی کرے۔ اسی تناظر میں بھارتکی وزارتِ داخلہ نے Immigration & Foreigners Act 2025 کے تحت ایک نیا قانون نافذ کیا ہے، جو 1 ستمبر 2025 سے مؤثر ہے۔ اس قانون کی ایک اہم شق یہ ہے کہ بھارتمیں رہنے والے تمام غیر ملکیوں، بشمول نیپالی شہریوں، کے لیے “Form C” جمع کرانا لازمی ہوگا۔ سادہ الفاظ میں، اگر کوئی نیپالی طالبِ علم بھارتکے کسی مدرسے میں رہ کر پڑھ رہا ہے تو اس کا مکمل اندراج اور ریکارڈ متعلقہ انڈین اتھارٹیز کے پاس ہونا چاہیے؛ وہ محض “زبانی مہمان” یا “غیر درج شدہ اسٹوڈنٹ” کی حیثیت سے وہاں نہیں رہ سکتا۔
ایسے میں ہمارا دینی اور شہری فریضہ کیا بنتا ہے؟ سب سے پہلے تو ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ جب قوانین واضح ہو چکے ہوں، تو اسلام بھی ہمیں قانون شکنی نہیں بلکہ قانون کی پاسداری کے ساتھ حکمت اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اگر موجودہ حالات میں NOC لینا اور درست ڈاکیومنٹس رکھنا، اور Form C جمع کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے تو ہمیں جذبات سے زیادہ عملی حکمت اپنانی ہوگی۔ عہد شکنی اور قانون شکنی سے ہمیشہ فتنہ، بدنامی اور سختی پیدا ہوتی ہے، جب کہ دیانت اور شفافیت کے ساتھ چلنے سے راستے کھلتے ہیں، اداروں کا اعتماد بڑھتا ہے اور طلبہ بھی اطمینان کے ساتھ اپنی پڑھائی جاری رکھ سکتے ہیں۔
اسی لیے اب اصل بحث یہ نہیں رہنی چاہیے کہ NOC اور Form C اچھے ہیں یا بُرے، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ موجودہ قانونی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے ہم اپنے طلبہ کو کیسے محفوظ رکھتے ہیں۔ اس کے لیے چند عملی قدم ناگزیر ہیں۔ اوّل، علماء کرام، مدارس کے ذمہ داران اور قانونی شعور رکھنے والے نوجوان مل کر بیٹھیں، صورتِ حال کو اچھی طرح سمجھیں اور ایک مشترکہ لائحۂ عمل طے کریں۔ دوم، جو طلبہ بیرونِ ملک، خصوصاً بھارت ، بھیجے جاتے ہیں، ان کے لیے واضح، تحریری اور متفقہ پالیسی بنائی جائے کہ کون سی دستاویزات لازم ہوں گی: وطن سے NOC، رجسٹریشن، اور بروقت Form C وغیرہ۔ یہ سب چیزیں بعد میں یاد آنے والے مسائل کے بجائے داخلہ سے پہلے کی بنیادی شرط بن جانی چاہییں۔ سوم، والدین کو بھی اعتماد میں لینا ضروری ہے؛ انہیں صاف بتایا جائے کہ بچے کو کسی بھی مدرسے میں بھیجنے سے پہلے قانونی کاغذات مکمل کرنا ان کی دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے، ورنہ نقصان سب سے پہلے بچے کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔
یہ معاملہ چند بچوں یا چند اداروں تک محدود نہیں، بلکہ پورے نیپال کے دینی طلبہ کی عزت، حفاظت اور مستقبل کا سوال ہے۔ اگر ہم نے آج ہوش مندی سے قدم نہ اٹھایا تو کل کو یہی قانونی الجھنیں ہمارے مدارس کے دروازوں پر سوالیہ نشان لگا سکتی ہیں۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ہم دعا کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات بھی کریں: اللہ تعالیٰ سے ہدایت مانگیں کہ وہ ہمیں حالات کو صحیح طور پر سمجھنے، قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے دین کی خدمت کرنے، اور اپنے طلبہ کے لیے محفوظ و باعزت راستے اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے؛ اور ساتھ ہی اپنے ماحول میں بیداری پیدا کریں، معلومات پھیلائیں، اور ہر ذمہ دار شخص تک یہ پیغام پہنچائیں کہ NOC، Form C اور اس نوعیت کے قانونی معاملات کو ہلکا نہ لیا جائے۔
جتنی جلدی ہم منظم اور باخبر ہوں گے، اتنی ہی جلدی ہمارے بچوں کا تعلیمی سفر بھی، ان شاء اللہ، محفوظ اور باوقار ہو جائے گا۔ یہ وقت غفلت کا نہیں، سنجیدگی اور حکمت کا ہے؛ اور اگر نیپال کے مسلمان آج اس مسئلے پر متحد اور بیدار ہو گئے تو آنے والی نسلیں ہمیں شکریے کے ساتھ یاد کریں گی۔