Slide
Slide
Slide
سیل رواں

ورلڈ مسلم لیگ کے سکریٹری جنرل کا دورہ ہند

ہنگامہ ہے کیوں برپا! 

تحریر: مسعودجاوید

جب تک ہندوستانی مسلمان اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے کہ ہمارا دین اور ہماری شریعت کا ماخذ, منبع اور مصدر قرآن و سنت ہے اس بابت نہ وہ مصر کے کسی مفتی کے تابع ہیں اور نہ سعودی عرب کے کسی عالم دین کے اس وقت تک ہر چھوٹی بڑی بات پر یہ بے چین رہیں گے۔
ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے صرف تین مقدس مقامات ہیں ؛ مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ اور مسجد اقصیٰ نہ کہ پورا ملک سعودی عرب یا فلسطین ۔
ہماری اور آپ کی طرح اور دنیا کے تمام مسلمانوں کی طرح سعودی عرب کے مسلمانوں کی بھی اپنی زندگی ہے‌۔ وہ بھی ہماری طرح گوشت پوست کے انسان ہیں ان کی رگوں میں بھی شیطان دوڑتا ہے ، ان کی بھی معاشرتی زندگی اور اس کے تقاضے ہیں ، ان میں بھی انسانی فطرت خیر و شر ہیں۔ ان میں بھی بہت سارے لوگ عیش و عشرت کے شوقین ہیں تو بہت سارے لوگ زہد و تقویٰ کے مجسمے ہیں ۔ ان میں بھی بہت اچھے متقی پرہیزگار، سخی اور رحم دل اور عقیدہ توحید پر سختی سے کاربند ہیں تو آزاد خیال لبرلز اور دین و شریعت کے معاملے میں لا ابالی اور حرام کاری میں بھی ملوث لوگ ہیں۔ وہ بھی سینما اور کنسرٹ ، رقص و موسیقی کے لئے پہلے غیر ملکوں کا سفر کرتے تھے اب دینی مزاج میں انحطاط اور ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بہ شانہ چلنے کی دوڑ میں اپنے ملک کو سیاحت کا مرکز بنا رہے ہیں ۔

صدمہ اس وقت پہنچتا ہے یا شاک shock اس وقت لگتا ہے جب ہماری توقعات کے برعکس کچھ ہو جائے۔ ہمارے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ سعودی عرب کے باشندوں میں صحابہ کرام کا پرتو دیکھنا چاہتے ہیں! خواہ ہمارے اپنے اعمال کیسے بھی ہوں۔ !
معاصر دور میں سعودی عرب کبھی بھی ریاست مدینہ کا نمونہ نہیں رہا اور نہ وہاں اسلامی قوانین کا من و عن کبھی نفاذ ہوا۔ اس ملک کا نظام شورائی یا جمہوری کے برعکس بادشاہی ہے۔ اس نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ اسلامی ملک ہے۔ یہ تو ہم جیسے عقیدت میں اندھے جنہیں اسلامی ملک اور مسلم ملک کا فرق نہیں معلوم ، وہاں کے نظام کو، حکومت کو، رسم ورواج اور لباس کو "اسلامی” کہتے اور سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ وہاں کے نظام کو ہم اسلامی ملک کے نمونہ کے طور پر پیش نہیں کر سکتے۔

سعودی عرب دنیا کے دیگر ممالک کی طرح اقوام متحدہ کا رکن ہے اور اقوامِ متحدہ کے اعلامیہ ڈیکلریشن اور ویینا کنونشن کا پابند ہے ۔ اسی کی رو سے اس نے اپنی پسند کے ممالک (تقریباً ہر ملک کے ساتھ) سفارتی ، تجارتی اور ثقافتی تعلقات قائم کیا ہے اور اس پر کاربند ہے کہ وہ کسی ملک کے داخلی معاملات میں دخل نہیں دے گا۔ جہاں مناسب سمجھے گا سفارتی سطح پر ستائش یا احتجاج درج کرائے گا۔

رابطہ عالم اسلامی کا قیام کے روز اول سے ہی صدر دفتر مکہ مکرمہ میں ہے۔ رابطہ ایک غیر سرکاری مذہبی رفاہی ادارہ ہے جس کے اغراض ومقاصد اسلام کے حقیقی پیغام کو عام کرنا اور مکالمہ بین المذاھب کے ذریعہ انتہا پسندی اور دہشتگردی کے حوالے سے امت مسلمہ کا صحیح موقف دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ اسی طرح غیر مسلموں کے ذہنوں سے غلط فہمیاں دور کرنا ان کے اعتراضات کو اچھے انداز میں زائل کرنا، مسلمانوں کے مابین اتحاد واتفاق کو فروغ دینا اور انسانی تعاون کے فروغ میں پل کا کردار ادا کرنا ہے۔

رابطہ عالم اسلامی کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی کا پانچ روزہ دورہ ہند پر بعض جذباتی حضرات خواہ مخواہ نالاں ہیں اور اپنی اپنی قیاس آرائیوں کی بنیاد پر اس دورہ کے اغراض و مقاصد کا "پس پردہ” اور ان کی تقریروں کے بین السطور پڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
رابطہ کے سکریٹری جنرل ہندوستان کی دعوت پر ایک خیر سگالی دورہ پر ہیں دس ماہ قبل انہوں نے انتہا پسندی اور دہشتگردی کے حوالے سے پاکستان کا بھی دورہ کیا تھا۔

اسلام میں تحمل بردباری قوت برداشت tolerance اور احترام الرأي والرأي الآخر کو خاصی اہمیت دی گئی ہے۔
مختلف ادیان اور متنوع ثقافتوں والے ممالک میں مسلمانوں کی بود و باش کیسی ہو اس کے سنہری اصول ہمارے دین میں موجود ہے۔ قرآن کریم میں اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ تم ان لوگوں کو جو اللہ کے علاوہ کسی اور کی پوجا کرتے ہیں ان کے لئے ہتک آمیز الفاظ کا استعمال نہ کرو ۔ توہین نہ کرو ۔ حتیٰ کہ جنگ کے دوران بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی اخلاقیات کا اعلی نمونہ پیش کیا کہ عورتوں کو قتل نہ کرو، بچوں کو قتل نہ کرو، غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی نہ کرو، ان کے پجاریوں پر ہاتھ نہ اٹھاؤ وغیرہ وغیرہ ۔
سکریٹری جنرل کے اکشر دھام مندر جانے پر بہت سے لوگ چیں بہ جبیں ہیں اور شاہ سعود کی زیارت کی مثال دے رہے ہیں کہ اس وقت بنارس کے مندروں پر پردہ ڈال دیا گیا تھا کہ سعودی بادشاہ کی نظر ان مندروں پر نہ پڑے۔ یہ اس وقت کے وزیراعظم کا شاہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ایک غیر معقول اور غیر ضروری فیصلہ تھا اس لئے کہ ہمارا ایمان اتنا کمزور نہیں ہے کہ بت خانوں کے دیکھنے سے متزلزل ہو جائے ۔آج جو لوگ یہ شعر

” اترا تھا بنارس میں ادنی سا غلام اس کا——منہ اپنا چھپاتے تھے کاشی کے صنم خانے "۔
یا
چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی!

لکھ کر مسلمانوں کا جذباتی استحصال کر رہے انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ آنجہانی نہرو نے اپنی اس حرکت سے یہاں کی اکثریت کی توہین کی تھی اور آج آپ لوگ ان کے زخموں کو تازہ کرنے کا سبب بن رہے ہیں ۔ مندر میں دیکھنے یا مندر میں جانے سے ہمارے ایمان پر ذرہ برابر فرق نہیں پڑتا ہے تو یہ قیل وقال کیوں ! کہیں اور کا بخار کہیں اور اتارا تو نہیں جا رہا ہے۔ !

اگر پرامن بقائے باہم peaceful coexistence اور تحمل tolerance کی تعلیم اسلام دیتا ہے اور اگر اس کا نشان امتیاز:
‘Tolerance is the hallmark of Islam’
ہے تو ہمیں اپنے کردار اسے ثابت کرنا ہوگا. ہمیں سویڈن میں یہودیوں کی مقدس کتاب توراہ TheTorah اور عیسائیوں کی مقدس کتاب انجیل The Gospel کو جلانے کی کوششوں کو شدید الفاظ میں مذمت کرنا اور مظاہرہ کر کے اسے روکنا ہوگا ۔ ہمارا دین اسلام ‌tit for tat کو فروغ نہیں دیتا ہے یہ ہمیں اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا۔

اللہ کا شکر و احسان ہے کہ کسی مذہب کی مقدس کتاب کی بے حرمتی اور کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچانے کا کام پڑھا لکھا یا ناخواندہ مسلمان نہیں کرتے ہیں ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: